Loading
شہنشاہ جہانگیر دربار میں جلوہ افروز تھا۔ ہیرے جواہرات سے لدا ہوا شاہانہ لباس اور تاج پہن رکھا تھا۔ درباری بھی چوکس براجمان تھے۔ جہانگیر نے وزیر خاص سے پوچھا کہ کیا اس کی حکومت میں کوئی ایسا نیک اور دانا شخص ہے‘ جس سے ‘ اسے ملنا چاہیے۔ دربارمیں خاموشی چھا گئی۔ مغل سلطنت‘ برصغیر ‘ افغانستان اور آج کے بنگلہ دیش کے برابرتھی یا شاید زیادہ ہی ہو۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سردار نے وزیر سے پہلے جواب دیا۔ جناب‘ لاہور شہر میں ایک بزرگ موجود ہیں‘ جن کو ملنے سے انھیں سیکھنے کا نادر موقعہ ملے گا۔ شخصیت حضرت میاں میر ؒ کی ہے ۔ مگر ان کا دہلی آنا مشکل ہے۔ دولت مندوں‘ امراء اور حکمرانوں سے بہت دور رہتے ہیں۔ بادشاہ نے میاں میر صاحب ؒ کی بابت بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مگر ایک مسئلہ ضرور درپیش تھا۔ سرکاری معاملات اتنے نازک تھے کہ جہانگیر ‘ دارالحکومت سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ یہ مجبوری بالکل حقیقت پر مبنی تھی۔ شہنشاہ نے ‘ بزرگ کو خط لکھا۔ حد درجہ ادب سے درخواست کی کہ اگر درویش دہلی آئیں تو اس کی خوش قسمتی ہو گی۔ میاں میرؒ نے خط پڑھا۔ ہرکارے کو جواب دیا کہ دہلی ضرور آئیں گے۔ اب جہانگیر ‘ بے چینی سے درویش کاانتظار کرنے لگا۔ چند ہفتوں بعد‘ جناب میاں میر‘ جہانگیر کے دربار میں تشریف لائے۔ بادشاہ ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس گستاخی کی بھی معافی مانگی کہ درویش کو سفر کی زحمت اٹھانا پڑی۔ حضرت میاں میر ؒ نے جہانگیر کے ساتھ عدل اور انصاف کو برپا کرنے کی باتیں کیں۔ بعض قوانین اور سزاؤں پر پابندی کا حکم دیا۔ چند گھنٹوں کی اس پرتاثیر ملاقات کے بعد بادشاہ کی آنکھوں میں صرف آنسو تھے۔ زارو قطار گریہ کر رہا تھا ۔ کہنے لگا کہ تخت سے دستبردار ہو کر‘ فقیری اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اور جناب کی درگاہ پر باقی زندگی عبادت الٰہی میں گزارنا چاہتا ہے۔میاں میر ؒ نے بادشاہ کی خواہش غور سے سنی اور کہا کہ بادشاہ کا کام‘ لوگوں کے معاملات کو بہترین طور پر چلانا ہے۔ خدا نے اس کو سلطنت اور رعایا کے حالات بہتر کرنے کی ذمے داری عطا کی ہے۔ اہم کام کو درست طریقے سے سرانجام دینا ہی‘ اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ بادشاہ یہ حکم سن کر دیوانہ وار روتا رہا۔ پوچھا! کہ حضرت‘ کسی قسم کا حکم‘ کوئی خدمت ‘ کچھ بتایئے تاکہ میں سرخرو ہو سکوں۔ میاں میر ؒ نے اٹھتے ہوئے صرف یہ کہا ‘ کہ جہانگیر‘ آج کے بعد ‘ مجھے دوبارہ کبھی نہ ملنا۔ میرا منصب‘ دربار سے دور رہنا ہے۔ دنیا داروں کا قرب بے معنی ہے۔ حضرت میاں میرؒ ‘ دہلی سے واپس لاہور تشریف لے گئے۔ مگر شہنشاہ کئی دن حالت استغراق میں رہا۔ اسی طرح کا ایک محیر العقول واقعہ اور بھی ہے۔ یہ مختلف کتب میں شاہ جہاں اور جہانگیر ‘ دونوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مگر روایت‘ شاہ جہاںکے حق میں مضبوط ہے۔ شہنشاہ ہند‘ لاہور تشریف لائے۔ بادشاہ ‘ جب حضرت میاں میرؒ کی خانقاہ پر پہنچا‘ تو دروازے پر‘ پہرے دار موجود تھے۔ انھوںنے شہنشاہ کو اندر جانے سے منع کر دیا۔ یہ بہت بڑی سبکی تھی کہ فرمانروا ہند کو عام چوکیدار روک لیں۔ مگر اس نے ضبط کا مظاہرہ کیا ۔ دربان خانقاہ کے اندر گیا۔ حضرت میاں میرؒ سے اجازت لی۔ شہنشاہ کو مطلع کیا کہ وہ اندر تشریف لے جا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حاضری دیتے ہوئے‘ ابتدائی فقرہ عرض کیا کہ درویش کے ہاں تو کبھی دربان نہیں ہوتے۔ یہ گفتگو فارسی میں تھی۔ حضرت میاں میرؒ کا جواب حد درجہ سخت تھا۔ پہرے دار ‘ اس لیے ہیں کہ ‘ دنیا کے پجاری‘ اندر نہ آ سکیں۔ بادشاہ نے جواب سنا تو ششدر رہ گیا۔ کہنے لگا کہ حضرت‘ میں دکن کی فتح کے لیے دعا کرانے آیا ہوں۔ یہ جنگ جیتنا میری سلطنت کے لیے بہت اہم ہے ۔ میاں میرؒ فرمانے لگے کہ تم بادشاہ نہیں بلکہ غریب ہو۔ اتنی بڑی سلطنت کے مالک ہونے کے باوجود‘ مزید علاقے اور دولت کے لالچ میں مبتلا ہو۔ اسی دوران ‘ جناب میاں میر ؒ کے سامنے ایک شخص سلام کرنے آیا۔ ایک روپیہ کا سکہ‘ ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ بزرگ فرمانے لگے کہ میری خانقاہ کے باہر درویش بیٹھے ہیں۔ جاؤ یہ روپیہ ان کو دے آؤ۔ شخص باہر گیا۔ تمام فقراء کو سکہ پیش کیا۔ مگر کسی نے بھی پیسے کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ شخص ‘ میاں میرؒ کے پاس واپس آ گیا۔ شہنشاہ وہاں بدستور موجود تھا۔ اس واقعہ کو غور سے دیکھ رہا تھا۔فقراء نے تو پیسے لینے سے انکار کر دیا ۔ میاں میر صاحبؒ مسکرائے اور کہا کہ یہ ایک روپیہ‘ بادشاہ کو دے دو۔ اس لیے کہ اصل فقیر تو یہ ہے۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی‘ مزید کی ہوس میں مبتلا ہے۔ شہنشاہ حد درجہ خاموشی سے خانقاہ سے واپس چلا آیا۔ دکن کی مہم میں اسے کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ حضرت میاں میرؒ کا فیض پور ے برصغیر میں کئی دہائیاں جاری و ساری رہا۔ وہ انسانیت کی فلاح اور بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی تھے۔ سکھوں کے گرو ارجن سنگھ‘ ان کے بہت عقیدت مند تھے۔ جب امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے کا وقت آیا۔ تو گرو ارجن سنگھ نے ‘ حضرت میاں میرؒ سے استدعا کی کہ وہ اس عظیم عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کا فریضہ سرانجام دیں۔ حضرت ‘ لاہور سے امرتسر تشریف لے گئے۔ اپنے ہاتھوں سے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھی۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اورنگ زیب اور اس کا بھائی دار شکوہ‘ دونوں‘ جناب کی خانقاہ آتے رہتے تھے۔ مگر شہزادہ دارا شکوہ پر حضرت میاں میر کے تصوف کا رنگ چوکھا چڑھا۔ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت سے واقف تھا۔ اس نے جناب کے فرمودات سے بہت کچھ سیکھا۔ سنسکرت میں موجود ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ مسلمانوں کو بھی ‘ ہندوؤں کے مذہبی معاملات سے شناسائی ہو۔ جناب میاں میر ؒ نے سلوک کی منزلیں‘ حضرت شیخ خضر سیستانی ؒ کے ذریعے طے کیں۔ لاہور آنے سے پہلے‘ وہ سیستان تشریف لے گئے۔ سفر اکیلے فرما رہے تھے، رات ہو چکی تھی۔ ٹھہرنے کی دور دور تک کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔ اسی اثناء میں آپ کو دور آگ کے شعلے نظر آئے۔ وہاں پہنچے‘ تو ایک تندور تھا جس میں تازہ روٹیاں لگ کر باہر پڑی ہوئی تھیں۔ اردگرد کوئی بھی نظر نہ آیا۔ بلا اجازت کھانا نہ کھایا۔ رات تندور کے نزدیک بڑے سکون سے گزار دی ۔ صبح ہوئی تو ایک بزرگ تشریف لائے۔ میاں میرؒ سے پوچھنے لگے کہ میاں میرؒ ‘ رات کیسی گزری۔ آپ حیران رہ گئے کہ اس اجنبی بزرگ کو نام کیسے معلوم پڑا۔ بزرگ فرمانے لگے کہ تمہاری اور میری ملاقات تو طے تھی۔ اگر تم رات‘ یہاں تک نہ پہنچتے تو قیامت تک ملنا ممکن نہیں تھا۔ مگر آپ ہیں کون‘ بزرگ نے جواب دیا۔ برخوردار میں وہی ہوں‘ جس کی تلاش میں تم سفر در سفر کر رہے ہو۔ میاں میر ؒ نے یہ سنتے ہیں حضرت خضرؒ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور ان کی بیعت کر لی۔ حضرت میاں میرؒ نے سلوک کی تمام منزلیں‘ انھیں کے ذریعے طے کیں۔ پھر‘ ان کے حکم پر لاہور آئے اور مرتے دم تک یہیں قیام رکھا۔ حضرت میاں میر کا مقبرہ آج بھی لاہور ہی میں موجود ہے۔ وہاں روزانہ ان گنت لوگ‘ دعا کے لیے آتے ہیں۔ سکھوں کے اندر تو حضرت میاں میرؒ کے مزار پر حاضری ایک سعادت سمجھی جاتی ہے۔ حضرت میاں میرؒ نے پوری زندگی کیا سبق دیا۔ آپ شریعت کے پابند تو تھے ہی۔ مگر اصل کام‘ لوگوں کی دلجوئی اور مذہبی منافرت کو کم کرنا تھا۔ مذہب کی بنیاد پر‘ شدت پسندی کو سخت ناپسندکرتے تھے۔ فرقہ پرستی سے ہزاروں نوری سال دور تھے۔ 1635 میں وصال فرمانے والے بزرگ آج بھی ان گنت لوگوں کے لیے پاکیزگی اور محبت کا ایک چشمہ بلکہ سمندر ہیں۔ اردگرد دیکھیے ۔ہمیں ہر طرف نفرت کا راج نظر آتا ہے۔ مذہبی شدت پسندی عروج پر ہے۔ فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ ایک فرقہ کے مسلمان‘ دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز تک نہیں پڑھتے ۔ مذہب کے نام پر قتل و غارت معمول ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حضرت میاں میرؒ آج سے چار سو سال قبل یگانگت کا جو سبق دے رہے تھے، وہ آج ہی کے زمانے کے لیے ہے۔ چاروں طرف نظر دوڑائیے۔ مصنوعی پن‘ ذاتی حشم و جاہ ‘ جائز اور ناجائز طریقے سے دولت کو حاصل کرنے کا پاگل پن‘ حسد‘اور بغض کی فصلیں لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتی نظر آئیں گی۔ ہر شخص دوسرے کی گردن پر پیر رکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے حضرت میاں میرؒ‘ عملی اور علمی کوشش کرتے رہے۔ دل جوڑتے رہے ‘ نفرتوں کے بدبودار سمندرکو خشک کرتے رہے ‘ سوچیئے۔ کیا انھوں نے بادشاہ ہند کو ٹھیک نہیں کہا تھا کہ اصل فقیر تو تم ہو۔ جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی‘ مزید کی ہوس میں مبتلا ہو۔ معاملہ کو ذرا سمجھئے ۔ دنیا میں رہنے کا سلیقہ آ جائے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل