Monday, September 08, 2025
 

نیا عالمی نظام

 



دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا واضح طور پر دو عالمی طاقتوں امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تقسیم ہو چکی تھی۔ یہ دونوں ممالک جو دوسری عالمی جنگ میں بظاہر جرمنی و جاپان کے خلاف اتحادی تھے۔ بعدازاں اپنی اپنی طاقت کے نشے میں ڈوب کر ایک دوسرے پر اپنی حاکمیت و برتری ثابت کرنے کے لیے برسر پیکار ہو گئے۔ امریکی سرپرستی میں مغربی و یورپی ممالک نے اپنا بلاک بنا لیا اور سوویت یونین کی آشیرباد سے مشرق وسطیٰ و ایشیا کے بعض ممالک نے اس کی چھتری تلے عافیت تلاش کرکے دوسرا بلاک تشکیل دے دیا۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جغرافیائی، سیاسی تناؤ، فوجی مسابقت، نظریاتی کشمکش اور پراکسی جنگیں اور برتری کی دراڑ معمول کے مطابق جاری رہی لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کبھی براہ راست جنگ نہیں ہوئی۔ اسی نسبت اور حوالے سے دونوں بڑے ممالک کے درمیان رسہ کشی کی صورت حال کو عالمی سیاسی منظرنامے میں ’’سرد جنگ‘‘ سے تعبیر کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں مداخلت اور افغانوں کی جرأت مندانہ مزاحمت کے باعث اس کی شکست پھر سوویت یونین کے داخلی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل نے اس کی عالمی طاقت ہونے کا پرچم سرنگوں کر دیا۔ سوویت جمہوریاؤں نے اپنی اپنی آزادی کا پرچم بلند کرکے سوویت یونین کی سپرپاور کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور سوویت یونین کے بطن سے روس نے جنم لیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپرپاور بن کر اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرکے دنیا کو اپنا تابع بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور ایران جیسے مسلم ممالک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے اصل حاکموں کو اقتدار سے بے دخل کرکے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں۔ اپنے بغل بچہ اسرائیل کی پشت پناہی کرکے لبنان اور فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کا محرک بن رہا ہے۔ امریکا کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے خلاف کوئی ملک عالمی اتحاد مضبوط قدموں کے ساتھ اس کے مقابل کھڑا ہو جس کی دفاعی، فوجی، معاشی اور علاقائی طاقت بھی مسلمہ ہو اور امریکا کے لیے اسے چیلنج کرنا آسان نہ ہو۔ چین اور روس کی پرجوش سرپرستی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی شکل میں وہ اتحاد اب ابھرتا، مربوط و مضبوط ہوتا اور امریکا کے واحد عالمی طاقت ہونے کے غرور کو چیلنج کرتا ہوا نظر آ رہا ہے جس کے اثرات سے امریکا و یورپ لامحالہ متاثر ہوں گے۔ چین کے شہر تیانجن میں حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد تیان من اسکوائر میں ایک شان دار فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا جس میں روسی صدر پیوٹن، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سمیت 25 ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ فوجی پریڈ میں چین نے جدید ہتھیاروں کو نمائش کے لیے پیش کرکے دنیا کو یہ بتا دیا کہ ماضی کے مقابلے میں آج کا چین معاشی و دفاعی اور فوجی و جنگی لحاظ سے مضبوط ترین قوت بن چکا ہے اور امریکا کے لیے اسے چیلنج کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چینی عوام نے بے پناہ قربانیاں دے کر انسانی تہذیب کے تحفظ اور عالمی امن کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقوام عالم جنگ کی جڑوں کو ختم کریں۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ دنیا امن اور جنگ کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ دنیا کو امن یا جنگ میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا، چینی عوام امن کے لیے پرعزم اور تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہیں۔ چینی صدر نے موجودہ عالمی منظر نامے کے تناظر میں بجا طور پر کہا کہ ایسا عالمی نظام چاہتے ہیں جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔ انھوں نے امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ چین اب رکنے والا نہیں اور نہ ہی ہم بدمعاشوں سے خوف زدہ ہوں گے۔ چینی صدر شی جن پنگ بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات اور امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم اور کمزور ملکوں کو اپنی فوجی طاقت سے ڈرا دھمکا کر اپنا دست نگر بنانے کی امریکی پالیسی سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی تناظر میں انھوں نے کہا کہ چین جتنا بھی مضبوط ہو جائے لیکن توسیع پسندانہ راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ بنی نوع انسان کی ترقی و امن ہمارا نصب العین ہے۔ چین میں ایس سی او اجلاس کے بعد امریکا و یورپ میں کھلبلی مچ گئی ہے جو ناقابل فہم نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پیوٹن، شی جن پنگ اور کم جونگ امریکا کے خلاف سازش کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں جب کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کا موقف ہے کہ نیا عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے۔ بجا طور پر ایسا ہی ہے چین اور روس کی سرپرستی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو نیا عالمی نظام معرض وجود میں آ رہا ہے وہ امریکا اور یورپ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل