Monday, September 08, 2025
 

اہرام مصر

 



اہرام مصر کے حوالے سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ اسے خلائی مخلوق نے بنایا ہے ۔ دوسرا ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بہت عام ہے کہ اہرام مصر جیسی عمارت اب نہیں بنائی جا سکتی ۔ جب کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ کبھی سوچیئے کہ تمام اہرام مخروطی شکل ہی کے کیوں ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کو عمودی عمارتیں بنانے کی سمجھ نہیں تھی ۔مخروطی اسٹریکچر فطری طور پر مضبوط ہوتے ہیں ۔ پہاڑ بھی مخروطی شکل کے ہوتے ہیں اس لیے مضبوط ہوتے ہیں ۔ مخروطی شکل بنانے کے لیے بہت زیادہ میٹریل درکار ہوتا ہے ۔ قدیم مصری عمودی عمارتیں بنانے کے سائنسی قوانین سے یکسر ناواقف تھے۔ لیکن اب ہم ان اصولوں کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اس لیے ہمیں مخروطی عمارتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب ہم نہ صرف بلند وبالا عمارتیں بنا سکتے ہیں بلکہ بلند وبالا برج خلیفہ جیسی انوکھی عمارتیں بھی بنا سکتے ہیں جن کے بارے میں قدیم مصریوں کا سوچنا بھی مشکل تھا۔ اس کے بعد ایک اور سوال یہ ہے کیا ہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اہرام جیسی عمارتیں بنا سکتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہرام جیسی عمارتیں بڑی آسانی سے بنا سکتے ہیں کہ کرینوں اور بڑے بڑے کٹر کے ذریعے ۔ بڑے بڑے ٹرکوں کے ذریعے جو بڑے بڑے پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بڑی آسانی سے پہنچا سکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود اب ہم اہرام جیسی عمارتیں کیوں نہیں بنا رہے اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ اب ہمیں ان جیسی عمارتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایسی عمارتیں بنانے کے لیے بہت زیادہ میٹریل چاہیے اور یہ ڈیزائن بہت عمدہ بھی نہیں ہوتے ۔ اب آسانی سے ہم اہرام کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ عمدہ عمارتیں بنا سکتے ہیں ۔ اگر ہم برج خلیفہ کی بات کریں تو برج خلیفہ کی بلندی گیزا کے بلند ترین ہرم کی بلندی سے 6گنا زیادہ ہے جب کہ گیزا کے ہرم کا کل وزن برج خلیفہ کے کل وزن سے بارہ گنا زیادہ ہے ۔ کیونکہ اس میں بہت زیادہ میٹریل استعمال ہوا ہے ۔ اب ہم ہرم جیسی عمارتیں فیشن کے طور پر بناتے ہیں ایک ایسی ہی ہرم نما عمارت کو امریکا کے شہر لاس ویگاس میں ایک لگثری ہوٹل اور کسینو ہرم کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ اس لیے ہم ہرم جیسی عمارتیں بنانے کے بجائے آج کی جدید ترین عمدہ عمارتیں بنا رہے ہیں جو قدیم مصری خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے ۔ اہرام کے حوالے سے زمانہ قدیم سے آج تک پراسرار باتیں منسوب ہیں اس طرح کی افسانوی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اہرام میں کھانے کی اشیاء خراب نہیں ہوتیں اور زخم جلدی ٹھیک ہو جاتے ہیں یااس کی مخروطی شکل سے توانائی پیدا ہوتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر یہ ایسے دعوے ہیں جن کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہرم سے روشنی کی رفتار معلوم کی جا سکتی ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ انتہائی بے بنیاد ہے ۔ جب قدیم اہرام کی تعمیر ہوئی تو اس وقت طول بلد یا ارض بلد کی تعریف وجود میں نہیں آئی تھی۔ ارض بلد روشنی کی رفتار کے برابر ہے ۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ ہے ۔ اس زمانے میں کلومیٹر اور میل کا تصور نہیں تھا نہ گیزا ہرم کے ڈیزائنر کو روشنی کی رفتار کا علم تھا۔ اس طرح ایک اور دعوی ہے کہ یہ اہرام حیران کن حد تک شمال کی سمت میں ہے ۔ اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ قدیم مصری فلکیات کے انتہائی ماہر خشکی اور پانی میں سفر کرنے کے لیے فلکی اجسام سے ہی سمت معلوم کیا کرتے تھے ۔ خاص طور پر شمالی ستارے کو دیکھ کر شمال کا اندازہ لگانا ایک اسٹینڈرڈ طریقہ تھا۔ آج کل بھی اگر ہمارے پاس جی پی ایسا نہ ہو تو سمتیں معلوم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ رات کے وقت شمال کی سمت معلوم کی جائے ۔ کیونکہ قطبی ستارہ شمال کی طرف ہوتا ہے ۔ اس زمانے میں موجودہ قطبی ستارہ شمال کی طرف نہیں تھا لیکن ایک اور تھوبان نامی ستارہ شمال کی طرف تھا ۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کے محور کے جھکاؤ کا رخ ہزاروں سال کے اسکیل پر تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ اور یہ سرکل26ہزار سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ جب اہرام کی تعمیر ہو رہی تھی تو یہ تھوبان نامی ستارہ شمال کی طرف اور اسے دیکھ کر ہی ہرم کی سمت کا تعین کیا گیا ۔ لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ گیزا کا ہرم کسی مافوق المیٹریل سے بنا ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر تابکاری بہت کم ہے اور کاسمک شعاعیں ہرم میں داخل نہیں ہو سکتیں وجہ اس کی یہ ہے کہ اہرام کی تعمیر میں موٹے موٹے لائم اسٹون اور گرے نائیٹ استعمال ہوئے ہیں جو تابکاری اثرات کو روکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایسے دعوے ان لوگوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جنھیں سائنس کا کوئی علم نہیں ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل