Loading
بارہ ربیع الاول کی مبارک شام فون کی اسکرین روشن ہوئی۔ دوسری طرف برادر عزیز سہیل بن عزیز تھے۔ انھوں نے ایک ایسی خبر سنائی جس نے دل خوشی سے بھر دیا۔ یہ خبر کیا تھی، اس کا ذکر بھی ہو گا لیکن اس سے پہلے مختصر سا پس منظر۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر بین الاقوامی سیرت کانفرنس ایک پرانی اور مستحسن روایت ہے جس سے پاکستان اور بیرون پاکستان سے علمائے کرام اور دانش ور سیرت مبارکہ کے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس بار مسجد اقصیٰ کے امام اور فلسطینی صدر کے مشیر امور دینیہ اور شرعی عدالت کے جج نے بھی اس میں خصوصی طور پر شرکت کی۔ ہر سال اس موقع پر سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر شایع ہونے والی کتب کو انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ سہیل بن عزیز نے بتایا کہ اس برس جس کتاب کو پہلے انعام اور گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے، اسے رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی نے شایع کیا ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد ریاض محمود ہیں۔ خبر کا یہ پہلو بھی یقیناً خوشی کا ہے لیکن ایک پہلو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس پہلو کا تعلق کتاب کے موضوع سے ہے۔ کتاب کا عنوان ہے: The Holy Prophet's Approach to Disaster Management سیرت النبیﷺ پر موضوعات ہمارے جانے پہچانے ہیں۔ یہ سب موضوعات مبارک ہیں جن کی اہمیت کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی لیکن اگر کوئی سیرت نگار یا محقق رسول اللہﷺ کی زندگی اور تعلیمات کو لمحۂ موجود کے تعلق سے پیش کرے تو اس سے نہ صرف ہمیں بلکہ پوری دنیا کو ہدایت اور راہ نمائی دستیاب ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی عقیدت کے مرکز و محور کو اپنے عہد اور اس کے مسائل کے ساتھ منسلک کر کے پیش کر رہے ہیں۔ یوں گویا ہم دکھ سے بھری ہوئی دنیا کو نجات کا ایک ایسا راستہ دکھا رہے ہیں جو عمومی راستے اور روایت سے ہٹ کر ہے۔ ایک ایسا راستہ جو انسان کا تراشا ہوا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے انبیائے کرام علیہم السلام اور رسول اللہﷺ کو جو دعوت دے کر دنیا میں مبعوث فرمایا ہے، اس کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو تباہی اور بربادی سے بچا کر نجات کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔اس طریقے کا احیا معمولی بات نہیں۔ پاکستان گزشتہ ایک ڈیڑھ دہائی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے جن کی وجہ سے تسلسل سے قدرتی آفات آ رہی ہیں۔ ان آفات سے نمٹنے کے لیے ریاست اور عوام اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ ناگزیر ہے لیکن یہی کام اگر رسول اللہﷺ کے طریقہ کار کے مطابق کیا جائے تو اس کی نوعیت ہی بدل جائے گی یعنی کار منصبی انسانیت کی تعمیر اور نجات اخروی کا ذریعہ بن جائے گا۔ اتھارٹی کے چیئرمین خورشید احمد ندیم نے اپنی ایک گفتگو میں ذکر کیا ہے کہ قدرتی یا انسانی آفات کے موقع پر حضور اکرمﷺ لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت بھی دیتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی عقل عمومی یعنی کامن سینس کا استعمال بھی سکھاتے تھے۔ ایسے مواقع پر تباہی سے بچنے یا اسے محدود کرنے کے لیے انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ عقل کی مدد سے ہی کرتا ہے لیکن ہم اگر اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالیں تو اس کے کچھ ایسے پہلو نمایاں ہوتے ہیں جن کا ہمارے مسائل سے تعلق انتہائی گہرا ہے جیسے پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ اور کنکریٹ کے جنگلات کا ابھرنا۔ پاکستان اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے، ان کی بڑی وجہ فطرت سے دوری، آلودگی اور جنگلات کے رقبے میں کمی ہے۔ یہ سارے مسائل عقل عام سے دوری اور لالچ کی دین ہیں لہٰذا ان مسائل سے نمٹتے ہوئے اگر سیرت النبیﷺ سے راہ نمائی لی جائے گی تو اس کے نتیجے میں مسائل کے حل کا ایک نیا زاویہ پیدا ہو جائے گا جس کی اثر انگیزی معمول سے بڑھ کر ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی نے بالآخر اس کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے جو ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے۔ برادر محترم خورشید احمد ندیم نے کچھ عرصہ قبل اتھارٹی کی ذمے داری سنبھالی تو سیرت النبیﷺ کو زندگی سے جوڑنے کے لیے ایک جامع پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں کو سیرت النبیﷺ سے جوڑنے کی شعوری کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے نوجوان، طالب علموں، خواتین حتی کہ اقلیتوں کو کلب قائم کر کے ایک پلیٹ فارم کے تحت لایا جا رہا ہے۔ اسی طرح لین دین کے معاملات، سماجی تعلقات اور تعلیم سمیت زندگی کے مختلف شعبوں جات سے تعلق رکھنے والے چھتیس امور کی فہرست بنا کر اس پر لٹریچر بھی تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے تربیت کی تدبیر بھی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں جوسب سے بڑا کام یہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ طلبہ کودینیات کے مضمون میں چند مضامین پڑھا کر یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مطالعہ سیرت کا حق ادا ہو گیا بلکہ اسے تربیت کا ذریعہ بھی بنایا جائے جس میں صرف دینیات کے اساتذہ ہی نہیں تمام اساتذہ کردار ادا کریں گے۔ یوں گویا سیرت النبیﷺ اور دینی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش اگر ایک تحریک کی شکل اختیار کر جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہ حیثیت معاشرہ نبی رحمتﷺ کی ذات گرامی سے محبت اور عقیدت کے اظہار تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اپنی زندگی کو بھی سیرت النبیﷺ کے تابع کر کے آپﷺ کی شفاعت کے حق دار بن جائیں گے۔ یہ اتنی بڑی سعادت ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ رحمۃ للعالمین اتھارٹی کو ابتدا میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا گیا تھا جو اپنی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد ختم ہو گیا تھا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے ایکٹ آف دی پارلیمنٹ کے تحت اسے ایک مستقل قانونی ادارے کی صورت دے دی یوں اس کی تحلیل کا خدشہ ختم ہو گیا۔ حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ارکان کا تقرر بھی کر دیا ہے یوں اپنے قیام کے بعد پہلی بار اتھارٹی کی تشکیل قانونی اعتبار سے مکمل ہوئی ہے لہٰذا اب توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ قومی ادارہ پوری یک سوئی کے ساتھ سیرت النبیﷺ کی روشنی میں تعلیمی اور تربیتی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گا، ان شااللہ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل