Loading
خاص طور پر پچھلے ایک شدید بارشی ماہ کے دوران ملک بھر میں سیلابوں نے جو تباہیاں مچائی ہیں، ہمارے ہمہ قسم کے حکمران اور ذمے دار سرکاری طبقہ اشرافیہ اِن تباہیوں کو اپنی نااہلیوں اور بَیڈ گورننس کے نتائج تسلیم کرنے کے بجائے اِن سیلابی تباہ کاریوں کو کلائمیٹ چینج اور بھارتی آبی یلغار کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ۔ ممکن ہے Climate Changeاور بھارتی آبی یلغار نے بھی کچھ حصہ ڈالا ہو ، مگر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم انسانوں کی فاش غلطیوں ، کوتاہیوں اور مجرمانہ نااہلیوں نے بھی اِس عظیم تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایز کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ اِس بار ملک بھر میں ، گزشتہ برس کی نسبت، 21فیصد زیادہ بارشیں ہُوئی ہیں ۔ اِن سرکاری محکموں کا مگر یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب میں بارشیں 35فیصد زیادہ برسی ہیں۔ زیادہ تباہی بھی پنجاب کے عوام کو سہنا پڑرہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں سیلاب زدگان کی تعداد40لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سب لوگ بے گھر بھی ہو چکے ہیں ، کھانے پینے کو بھی ترس رہے ہیں، اُن کے سر پر صرف آسمان کی چھت رہ گئی ہے ، اُن کے لاتعداد مال مویشی کچھ سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ، وہ چارے کو ترس رہے ہیں ۔ اِس تباہی اور انسانی بیچارگی کے پس منظر میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے مبینہ طور جب یہ کہا کہ ’’ پاکستان میں سیلابی تباہ کاریوں اور سیلاب زدگان کی بحالی کا بوجھ ہم اکیلے نہیں اُٹھا سکتے ‘‘ تو انھوں نے بجا ہی کہا ۔ سیلاب زدگان کی مالی و سماجی اعانت و امداد کو ’’بوجھ‘‘ تو نہیں کہنا چاہیے، مگر جناب شہباز شریف کے مذکورہ بیان کے بین السطور کا یہ کہنا تھا کہ امریکا و مغربی دُنیا کی امیر عالمی برادری ہمارے سیلاب زدگان کی امداد میں ہمارا ہاتھ بٹائے ۔ امریکا سے اِس اپیل کے کچھ مثبت اثرات و جوابات بھی سامنے آئے ہیں ۔ مثال کے طور پر اقوامِ متحدہ نے 6لاکھ ڈالر اور مائیکروسوفٹ کے امریکی بانی ، بِل گیٹس، نے10لاکھ ڈالرز ہمارے سیلاب زدگان کے لیے جاری کیے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے6لاکھ ڈالرز دینے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے: سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم ۔ مگر یہ بھی غنیمت ہے۔ یواین او اور بِل گیٹس کی عنائت کردہ ٹوٹل رقم 16لاکھ ڈالرز بنتی ہے : پاکستانی روپوں میں تقریباً 45کروڑ!یہ رقم بھی اگر دیانتداری سے سیلاب زدگان تک پہنچ جائے تو درجنوں متاثرہ گھرانے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ اِس کے علاوہ یورپین یونین نے بھی 35کروڑ ڈالرز کی امداد ہمارے سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کی ہے۔ یہ رقم پاکستانی کرنسی میں 98ارب روپے بنتی ہے۔ واقعی معنوں میں یہ بڑی رقم ہے ۔ اگر ہمارے سرکاری ذمے داران ، بیوروکریٹ اور تقسیم کنندگان 10لاکھ روپے بھی دیانت و امانت سے فی کس سیلاب زدگان میں تقسیم کریں تو کم از کم ایک لاکھ افراد وقتی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ آگے آنے والی سردیوں سے پہلے پہلے اپنا کچھ عارضی بندوبست کر سکتے ہیں۔ ہماری بیوروکریسی اور سرکاری تقسیم کار ادارے مگر غیر ملکی امدادی رقوم کو مالِ مفت سمجھ کر خود ہی ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اِس سلسلے میں ہم بحیثیتِ قوم بہت بدنام ہو چکے ہیں ۔ خدارا اَب اِس عادتِ بَد، قابلِ مذمت پختہ عادت سے نجات حاصل کی جانی چاہیے ۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ہماری تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اور اُنکے ارب پتی سربراہان اور کئی کارکنان نے سیلاب متاثرین کے لیے ابھی تک واضح طور پر اپنی جیب ڈھیلی نہیں کی ہے ۔ کچھ اداروں نے اپنے ملازمین اور وابستگان کی ایک ایک دن کی تنخواہ سیلاب زدگان کو دینے کا اعلان کیا ہے ، مگر ہمارے نہائت دولتمند مذہبی رہنما، جو کروڑوں کی مہنگی ترین گاڑیوں میں پھرتے نظر آتے ہیں، بھی سیلاب کے ماروں کا ہاتھ تھامنے کے لیے ذاتی حیثیت میں آگے بڑھتے دکھائی نہیں دیے ۔ یہ نہائت افسوسناک حقیقت ہے ۔ اِس افسوسناک منظر کی کمی اور کجی کو پورا کرنے کے لیے وطنِ عزیز کی کئی معروف اور فیاض این جی اوز سیلاب زدگان کی د ستگیری کرتی نظر آ رہی ہیں ۔ مثال کے طور پر جماعتِ اسلامی کی ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘، ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کی ’’ اخوت فاؤنڈیشن‘‘، بشیر احمد فاروقی صاحب کی’’ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ‘‘، فیصل ایدھی صاحب کی ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ اور عبدالرزاق ساجد صاحب کی’’ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل‘‘ (AMWT)۔ اِن سب این جی اوز نے جی جان سے مقدور بھر سیلاب زدگان کو پہلے Rescueکیا اور پھرReliefپہنچانے کی کاوشوں میں مگن ہو گئے ۔ اب یہ سیلاب متاثرین کی Rehablitationکے لیے منصوبے بنا رہے ہیں۔اِن کی جملہ کوششوں اور کاوشوں کی تعریف و تحسین کی جانی چاہیے ۔ یہ حکومتِ پاکستان سے ایک دھیلہ بھی نہیں لیتے ۔ خود ہی اپنی کوششوں ، پبلک ریلیشنز اور محنت سے اہلِ خیر اور اہلِ زر سے چندہ وصول کرتے ہیں اور پھر اِس سے مصیبت زدگان کی دستگیری کرتے ہیں ۔ یوں ہم بجا طور پر اِن این جی اوز کی تحسین کر سکتے ہیں ۔ اِس کالم کی آخری سطور لکھ رہا تھا کہ سیلاب زدگان کی اعانت کے لیے شب وروز ایک کیے ہُوئے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین ، عبدالرزاق ساجد، اور لندن میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والی اِس پاکستان نژاد این جی او کے ڈائریکٹر، محمد نواز کھرل، سے رابطہ ہُوا تو انھوں نے سیلاب زدگان کے لیے اپنے ادارے کی حالیہ امدادی سرگرمیوں اور خدمات بارے یوں بتایا:’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کا فلڈ ریلیف مشن پنجاب کے 18 اضلاع کی 139 بستیوں میں پچھلے کئی روز سے مسلسل جاری ہے۔ اس ریلیف مشن میں المصطفیٰ کے چھ ہزار رضاکار سیلاب متاثرین کی ممکنہ اور مقدور بھر خدمات کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ادارے کی جانب سے اب تک کروڑوں روپے اس فلڈ ریلیف مشن میں خرچ کیے جا چکے ہیں۔ ادارے کی طرف سے پہلے مرحلے میں جگہ جگہ فلڈ ریلیف کیمپ لگا کر سیلاب زدگان کو تین وقت کھانا اور صاف پینے کا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ میڈیکل کیمپ لگا کر طبی سہولیات کا خاص بندوبست کیا گیا ہے۔ ادویات کی بے حد ضرورت ہے ۔ مظفر گڑھ اور دوسرے کئی مقامات پر خیمہ بستیاں قائم کر کے سیلاب زدگان کے لیے عارضی رہائش کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ بھوکے جانوروں کے لیے چارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ بے حد مشکل کام ہے کہ پنجاب کے زیادہ تر علاقے زیر آب آچکے ہیں جہاں چارہ دستیاب ہو سکتا ہے۔ المصطفیٰ کے رضاکارسیلابی پانیوں میں پھنسے خاندانوں کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات تک پہنچانے میں ابھی تک مصروف ہیں کہ سیلابی ریلے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دوسرے مرحلے میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں راشن، برتنوں، بستروں اور کپڑوں کی تقسیم شروع کر دی گئی ہے۔ آخری مرحلے میں سیلاب زدگان کو اپنے دستیاب فنڈز کے مطابق نئے گھر تعمیر کر کے دیے جائیں گے‘‘۔ محمد نواز کھرل صاحب نے بتایا کہ جن سیلاب زدہ اضلاع میں المصطفیٰ کا ریلیف مشن جاری ہے ان میں قصور، سیالکوٹ، نارووال، وزیر آباد، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، چنیوٹ، جھنگ، وہاڑی، اوکاڑہ،پاکپتن، بہاولنگر، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفرگڑھ، ملتان، راجن پور، لاہور اور بہاولپور شامل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن اور سیلانی فاؤنڈیشن کے ذمے داران سے بات ہُوئی تو انھوں نے بھی بتایا کہ بِلا استثنا پورے ملک کے سیلاب زدگان کے لیے ہماری خدمات جاری ہیں۔ پنجاب میں مگر سیلاب زدگان کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات نمایاں نظر آ رہی ہیں ۔ اِس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن ایسے معاملات میں زیادہ تجربات رکھتی ہے ۔ لاریب اِن سب این جی اوز کی سیلاب زدگان کے لیے خدمات قابلِ تحسین ہیں ۔ کروڑوں نہیں ، اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یہ سب روپیہ مخیر حضرات اور دردِ دل رکھنے والے عوام نے چندے کی صورت میں مذکورہ این جی اوز کو دیا ہے اور مسلسل دے رہے ہیں ۔ سیلاب زدگان کی دستگیری کے لیے پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف، بھی دن رات ایک کیے ہُوئے ہیں ۔ اِن سب کی خدمات سیلاب زدگان کے لیے ناکافی سمجھی جارہی ہیں کہ سیلابی نقصان کا حجم بے پناہ اور لاتعداد ہے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل