Loading
لندن ، برطانیہ میں بستے ڈاکٹر سٹیو ڈیوس ماہر تعلیم، تاریخ داں اور لکھاری ہیں۔ معاشرتی و معاشی موضوعات پر برطانیہ کے معروف اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ فی الوقت ممتاز برطانوی تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک افئیرز میں شعبہ تعلیم کے سربراہ ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے پہلی بار ابھرتی ایشیائی طاقت، چین کا دور کیا اور وہاں کئی دن گذارے۔ واپسی پر انھوں نے ایک طویل سفرنامہ لکھا جو فکر انگیز اور دلچسپ معلومات سے پُر ہے۔ اس تحریر کے چیدہ حصے قارئین کی نذر ہیں جو انسان کو باشعور و باعلم بناتے ہیں۔ ٭٭ حالیہ مئی میں مجھے ایک مہینا چین گھومنے کا موقع ملا۔ یہ چین کا میرا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کے دوران بہت سی باتوں اور چیزوں نے میری توجہ حاصل کر لی۔ میں نے چین میں جو مشاہدہ کیا، وہاں کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کی اور گائیڈز اور دوسروں کی باتوں سے اخذ کیا، ان کی بنیاد پر کچھ مضبوط اور واضح تاثرات لے کر آیا ہوں۔ پہلا یہ کہ پچھلے تیس سال یا اس سے کم عرصے میں مملکت میں جو انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے وہ نہ صرف حیرت انگیز اور صرف متاثر کن ہے بلکہ مہمان کو چونکا دیتا ہے۔ سب سے زیادہ شاندار ہائی سپیڈ ریلوے لائنوں کا نیٹ ورک ہے جو تقریباً 2005ء کے بعد تعمیر کیا گیا۔ فی الحال اس نیٹ ورک میں 30 ہزار میل لمبی لائنیں شامل ہیں اور یہ سب پچھلے بیس سال میں بنی ہیں۔ ریلوے کا کل نیٹ ورک، جس میں بڑے پیمانے پر توسیع بھی کی گئی ہے، 96ہزار میل پر مشتمل ہے جس میں ہائی سپیڈ ریلوے لائنیں بھی شامل ہیں۔ اسے 2050 ء تک 1 لاکھ 70ہزار میل تک بڑھانے کا منصوبہ ہے۔ بیرونی مبصرین کے بہترین اندازوں کے مطابق اس سرمایہ کاری پر منافع چھ سے آٹھ فیصد کے درمیان ہے۔ چونکہ یہ نظام بڑی حد تک شروع سے بنایا گیا ہے، اس میں ہوائی اڈے کے ٹرمینلز کے سائز کے بالکل نئے اسٹیشن بھی نظر آتے ہیں۔ ٹرینیںجو 200 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں، آرام دہ اور صاف ہیں۔ سواری اتنی ہموار کہ رفتار تقریباً محسوس ہی نہیں ہوتی۔ یہ صرف ٹرینیں نہیں ہیں، پورے چین میں ہوائی اڈوں کا جال بھی بچھ چکا جو یورپ میں بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح بڑا اور شاندار ہے۔ ایک بار پھر یہ بالکل نئے ہیں۔ ریلوے کے ساتھ ساتھ طویل فاصلوں تک جانے والی موٹرویز اور صوبائی اور مقامی جدید سڑکوں کا ایک گھنا نیٹ ورک بھی وجود میں آچکا جو ایک لاکھ چودہ ہزار میل پر محیط ہے۔ جبکہ قومی شاہراہوں کا کل نظام انیس لاکھ میل تک پھیلا ہوا ہے۔ ریل کے نظام کی طرح اس کو بھی مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔میرے خیال میں بڑا انتباہ یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ایک چیز ہے (اور مغربی ممالک کی اکثریت یہ کام نہیں کر رہی) جبکہ اصل چیلنج اس کو بہترین طریقے سے برقرار رکھنا ہے۔ انفراسٹرکچر کا دوسرا پہلو جس کا چین آنے والا کوئی بھی شخص نوٹس لیتا ہے ،وہ شہری ترقی ہے۔ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں شہری ترقی کا ایک ڈرامائی و زبردست عمل دیکھا ہے جہاں ہر جگہ نئے شہر ابھر رہے ہیں اور پرانے شہروں میں بھی لاکھوں نئے ہاؤسنگ یونٹس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس عمل کی خاص پہچان یہ ہے کہ عمارتیں زیادہ بلند بنی ہیں اور وہ کافی چوڑی بھی ہیں۔ گویا چینی شہر اور قصبے اتنے ہی اوپر کی طرف بڑھے ہیں جتنے باہر کی طرف۔ شہروں میں بلند و بالا میناروں کے جنگلات اگ آئے ہیں جو عام طور پر تیس سے چالیس منزلیں رکھتے ہیں۔ ابتدائی تاثر یکسانیت کا ہے لیکن قریب سے جائزہ لینے پر منظر بدل جاتا ہے۔ زیادہ تر ٹاور سادہ رہائشی یا دفتری ڈبے نہیں، ڈیزائن کے طور پر ان میں آرائشی خصوصیات رکھی گئی ہیں۔ بہرحال شروع میں یہی لگتا ہے کہ سامنے بڑے پیمانے پر ملتے جلتے اسٹائل والے ٹاورز کے گروہ سر اٹھائے استادہ ہیں۔ زمینی سطح پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر ٹاور کے گرد باڑ لگا دی گئی ہے۔ ٹاور کی نچلی منزلوں میں دکانیں اور دفاتر واقع ہیں ، بالائی منازل میں خاندان رہتے بستے ہیں۔ گویا چین میں نئے شہر اس طرح بسائے گئے ہیں کہ سبھی شہریوں کو گھروں کے قریب ہی تمام ضروریات زندگی آسانی سے میسّر آ جائیں۔ چینی شہری ترقی کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شہر و قصبے بہت سر سبز ہو چکے۔ ہر جگہ درخت اور سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ تر درخت پچھلے تیس سال میں لگائے گئے ہیں۔ ایکسپریس ویز اور بڑی سڑکوں پر سہارا دینے والے ستونوں کے اطراف پھولوں، پودوں اور بیلوں کی قطار در قطار نظر آتی ہے۔ ان کو بہت اچھے طریقے سے رکھا گیا ہے۔ نئی آبادیاں تعمیر کرنے کا یہ نمونہ یا پیٹرن وہ ہے جسے "سپنج سٹی" کہا جاتا ہے۔اس نمونے میں اونچے بنے نئے محلوں اور پرانے نشیبی علاقوں اور بہت اونچے تجارتی مراکز کے درمیان ہریالی و سبزے کے وسیع قطعے اور کھلی جہگیں رکھی جاتی ہیں۔ اس شہری نمونے میں امریکہ کے برعکس کاریں استعمال کرنے کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں۔ گو چینی شہروں میں بہت سی کاریں موجود ہیں لیکن فی الحال وہ نقل و حمل کا بنیادی ذریعہ نہیں۔ زیادہ تر چینی باشندے الیکٹرک سکوٹر پر گھومتے پھرتے ہیں جس کے جھنڈ گلیوں میں دکھائی دیتے ہیں۔بقیہ چینی پبلک ٹرانسپورٹ لیتے یا پیدل چلتے ہیں۔ چینی شہروں اور بہت سے مغربی شہروں کے درمیان ایک اور فرق ان کی ترتیب ہے۔ چین میں بے گھر لوگ دکھائی نہیں دیتے اور بھکاری بھی نہیں ہیں۔ چینی شہر جاندار اور متحرک ہیں ، اس کے باوجود آپ کو سماج مخالف رویّہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی ملتا ہے۔ عوامی جگہیں بے داغ اور صاف ہیں۔ جزوی طور پر گلیوں میں صفائی کرنے والوں کی ایک حقیقی فوج کی وجہ سے (جن میں سے زیادہ تر بوڑھے لوگ ہیں ) بلکہ اس وجہ سے بھی کہ عام چینی راہ چلتے کوڑا نہیں پھینکتے۔ اس کی ایک وجہ کم اہم لیکن وسیع پیمانے پر پولیس کی موجودگی بھی ہے۔ ہر چھوٹے محلے کا اپنا ایک پولیس افسر ہوتا ہے۔محلے کے سبھی باشندے اس افسر کا موبائل نمبر رکھتے ہیں تاکہ وقت ضرورت اس سے ترنت رابطہ ہو سکے۔ سڑکوں و محلوں میں پولیس خاصی نظر آتی ہے۔ تاہم شواہد سے پتا چلتا ہے کہ پولیس محض عوامی رویّے کے مضبوط سماجی اصولوں کو سہارا دیتی ہے جو سماج مخالف طرز عمل سختی سے ناپسند کرتے ہیں۔ چین میں اس کڑے نظم و ضبط کا مگر تاریک پہلو حد سے زیادہ کنٹرول ہونا ہے۔ تمام ٹرانسپورٹ ٹرمینلز اور سب بڑے تاریخی مقامات یا عوامی عمارتوں پر سیکورٹی چیک پوسٹیں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر جانے کے لیے تصویری شناخت… غیر ملکیوں کے لیے پاسپورٹ اور مقامی لوگوں کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس کے لیے ایک اہم اہلیت ہے: یہ کہ سیکیورٹی چیک اور شناختی نظام تو یکساں اور قومی ہے،مملکت کا مشہور سوشل کریڈٹ سسٹم یہ خاصیت نہیںرکھتا … یہ ایک صوبے یا علاقے سے دوسرے میں کافی حد تک مختلف ہے۔ یہ فرق چینی ریاست کی ایک بڑی خصوصیت کی عکاسی کرتا ہے یعنی اس میں وفاق یا وفاقی حکومت کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی دراصل کٹر نظریات اور کوئی جامد نظام نہیں رکھتی۔ اگرچہ پارٹی قومی حکمت عملی اور پالیسیاں نمایاں ہیں، لیکن ہر صوبائی حتیٰ کہ شہر کی سطح پر پارٹی راہنماؤں کے پاس بہت زیادہ خود مختاری ہے اور وہ اپنی حکمت عملی کافی حد تک اپنا سکتے ہیں۔نتیجے میں چین کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پالیسی اور حکمت عملی کی تفصیلات میں کافی فرق ہے۔ یہ کوئی تصّوراتی بات نہیں… یہ 221 قبل مسیح میں اپنی تشکیل کے وقت سے چینی ریاست کی پوری تاریخ میں پائے جانے والے نظامِ حکمرانی کی عکاس ہے۔چین میں میرے تمام حیران کن مشاہدات میں سے ایک مشاہدہ یہی ہے کہ بیشتر چینیوں نے نہ صرف سوچنے اور زندگی گزارنے کے پرانے چینی طریقوں کو اپنا رکھا ہے بلکہ وہ انھیں ہر قیمت پر برقرار بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کے شہر اور ان کا بنیادی ڈھانچہ متاثر کن ہے، لیکن نمایاں خصوصیت دیہی علاقوں کی خوشحالی اور کامیابی ہے۔ چین کے بیشتر دیہی قصبوں اور دیہاتوں میں نئے، جدید مکانات بنے ہوئے ہیں جن کی تزئین وآرائش اکثر نجی بچتوں سے ہوتی ہے۔ بڑی سڑکوں کے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ چھوٹی پکی سڑکوں اور راستوں کا ایک مربوط ڈھانچا ہے جو دیہی علاقوں کو قومی نظام سے جوڑ دیتا ہے۔تقریباً ہر قصبے بلکہ دیہات میں بھی بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ چین میں زراعت کا چلن بھی بہت روایتی اور مغربی ماڈل سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ دیہی زمین (اور شہروں کے ارد گرد اور اندر کھلی جگہ بھی ) چھوٹے کھیتوں پر مشتمل ہے۔کسان باری باری مختلف فصلیں اور سبزیاں بوتے ہیں۔ زراعت کا یہ نمونہ پیداوار کے لحاظ سے بہت کارآمد ہے لیکن اعلی توانائی پر انحصار نہیں کرتا۔ تاہم یہ اب بھی بہت محنت طلب ہے لیکن شہری کاری کے ساتھ ساتھ بدل رہا ہے۔ گو دیہی علاقوں اور شہروں کے درمیان اب بھی بہت مضبوط روابط موجود ہیں۔ بہت سے چینی جو شہر منتقل ہوئے ہیں، وہ دیہی اراضی کے کچھ حصوں کے ساتھ تعلق اور ذمے داری کا معاہدہ برقرار رکھتے اور وہاں اب بھی کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ کھیتی باڑی کا نظام بہت اچھا ہے… کاشتکاری کے لیے موزوں ایک مربع انچ زمین بھی بے کار نہیں چھوڑی جاتی چاہے وہ کہیں بھی ہو۔ زراعت ان بہت سے طریقوں میں سے صرف ایک ہے جس میں پرانا چین برقرار رہتا اور دوبارہ ابھرتا ہے۔ روایتی خیالات، جیسے ین اور یانگ کی اہمیت ہمیشہ کی طرح برقرار ہے۔چینی نوجوان روایتی مذہبی اعتقادات پر یقین رکھتے اوران کی پیروی کرتے ہیں، خاص طور پر بدھ مت بلکہ تاو ازم اور کنفیوشس ازم میں بھی یہ چلن نمایاں ہے۔ بدھ مندر نوجوانوں، خاص طور پر خواتین سے، جو سیاحوں کے طور پر نہیں بلکہ دعا کرنے آتی ہیں، بھرے ہوتے ہیں۔ حکمران کیمونسٹ پارٹی اس امر سے راضی ہے اور بہت سے علاقوں میں اس چلن کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔وہ بدھ مندروں اور یہاں تک کہ کنفیوشس کے مندروں کی تعمیر نو کر رہی ہے۔ (یہ حیران کن ہے کیونکہ کنفیوشس ازم چینی بادشاہوں کا سرکاری فلسفہ رہا ہے۔) درحقیقت مجھے یہ تاثر ملا ہے کہ ریاست کی نظریاتی بنیاد آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر ایک ایسے ہائبرڈ ماڈل پر استوار ہو رہی ہے جو کنفیوشس ازم اور قانونیت(Legalism) کی تاریخی روایات کا اتنا ہی مرہون منت ہے جتنا کہ جدید فکر کا۔ ماؤ کا فرقہ سرکاری طور پر ہمیشہ کی طرح مضبوط ہونے کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی انکار کی وجہ سے دھیرے دھیرے معدوم ہو رہا ہے۔ ماؤ محض ایک اور بڑی تاریخی شخصیت بنتے جا رہے ہیں جو کئی لحاظ سے پہلے شہنشاہ چن شی ہوانگ تی کی طرح اہل چین کے رول ماڈل بن چکے۔ چین کا موجودہ نظام اب بھی مضبوط قانونی حیثیت رکھتا ہے لیکن ثقافتی انقلاب پر افسوس ظاہر کیا جاتا ہے۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں میں جس شخصیت کی تعریف کی جاتی ہے وہ ڈینگ ژیاوپنگ ہے جس کے سر یہ سہرا بندھتا ہے کہ اس نے چین کو باقی دنیا کے لیے کھولا اور اقتصادی نظام کو سرکاری سرخ فیتے کے چنگل سے نکال کر خاصی آزادی دے دی۔ ایک اور قابل احترام شخصیت سن یات سین ہیں جو 1920ء کی دہائی میں جمہوریہ چین کے بانی تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ آبنائے تائیوان کے دونوں جانب ان کی عزت کی جاتی ہے۔چین اور تائیوان ، دونوں ممالک میں ریاست کی اصل پالیسی ان کے دئیے "تین اصولوں" کی مقروض ہے یعنی سوشلزم ، قوم پرستی یا منزو(Minzu) اور عوامی فلاح و بہبود (Minsheng)۔ چین کے لوگ اپنے ماضی میں وسیع پیمانے پر دلچسپی رکھتے اور اپنی تاریخ کے بیشتر حصے کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ نوجوان خاص طور پر خواتین تاریخی مقامات کا دورہ کرتے ہوئے تاریخی دور کا لباس پہنتے ہیں۔ یہ خطے کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ بیجنگ میں یہ بنیادی طور پر چنگ خاندان کا مانچو درباری لباس ہوتا ہے،ژیان میں تانگ دور کا لباس مقبول ہے، جبکہ یانگسی ڈیلٹا کے شہروں میں سونگ دور کے ملبوسات پہنے جاتے ہیں۔ ماضی پر تنقید ہوتی ہے لیکن عام طور پر اس کی تعریف اور احترام کیا جاتا ہے۔ ماضی کی وہ شخصیات جن کی بڑے پیمانے پر تعریف کی جاتی ہے، وہ ہیں منگ خاندان کے چِن شی ہوانگ ٹی( Huang Ti Ch’in Shi)، ہانگ وو (Hongwu)اور یونگل( Yongle) شہنشاہ اور تانگ خاندان سے تعلق رکھنے والے تائیزونگ (Taizong) شہنشاہ اور مہارانی وو(Wu)۔ عام طور پر، ہان، تانگ اور منگ شاہی خاندانوں کی تعریف کی جاتی ہے، سونگ اور کنگ کی کم ہی۔ چین کے عوام وخواص میں جن شخصیات اور خاندانوں کا احترام کیا جاتا ہے، ان کی بابت رائے یہ ہے کہ انھوں نے باقی دنیا کے لیے کھلے پن کا ثبوت دیا اور اس کے ساتھ چین کی خوشحالی اور طاقت کو فروغ دیتے رہے۔ جب کہ ناپسندیدہ حکمران وہ ہیں جنھوں نے باقی دنیا کے مقابلے میں کمزوری دکھائی اور ثقافتی زوال کا سبب بھی بن گئے۔ یہ فکر وسوچ اس قدیم نظریے کو ازسرنو زندہ کر رہی ہے کہ ریاست کی کامیابی کے لیے اہم چیز ادارے یا پالیسی نہیں بلکہ قیادت کا معیار ہے۔ چین ایک انتہائی متحرک اور اختراعی معاشرہ ہے جو انفرادی اور خاندانی سطح پر بھی شدید مسابقتی ہے۔ یہ انتہائی مستقبل اور آگے کی طرف دیکھنے والا ہے لیکن اپنے ماضی سے بھی جڑا ہوا ہے، جس کی مختلف طریقوں سے تعظیم کی جاتی ہے۔ اس کی ایک آمرانہ لیکن موثر اور اہل حکومت ہے۔ یہ نظام کب تک زندہ رہے گا ،یہ الگ بات ہے لیکن اس وقت چین "ریاستی قوت و صلاحیت" کے نظریے کا بہترین اشتہار ہے۔ عام چینی تعلیم اور خود کو بہتر بنانے کے نظریات سے مضبوط ثقافتی وابستگی رکھتے ہیں جو اکثر بہت مادّی ہوتی ہے۔ ذاتی سطح پر اس کی ایک شکل جسمانی تندرستی اور عمدہ صحت سے وابستگی ہے جس میں عوامی ورزش کی کلاسیں شہری زندگی کی بڑی خصوصیت ہے۔ یہ کام کی طاقتور اخلاقیات کے ساتھ مل کر دو آتشہ بن جاتی ہے۔ اہل چین کو چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ اخلاقی اجتماعیت اور کام کی اخلاقیات جدید سیلولر مواصلات اور سوشل میڈیا کے اثرات سے کب تک زندہ رہیں گی۔ سرکاری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ چین میں بھی کئی ملکوں کی طرح شرح پیدائش گھٹ رہی ہے کے بارے میں لیکن اس بات کا کوئی نشان نہیں ملتا کہ ریاست کی حامی پالیسیوں پر کوئی اثر ہو رہا ہے۔ عمر رسیدہ آبادی آگے بڑھنے میں ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن موجودہ شدید مسئلہ دنیا میں ہر ملک کی طرح یہ ہے کہ بڑے شہروں میں مکانات کی قیمت و لاگت مسلسل بڑھ رہی۔ شنگھائی میں گھروں کی قیمتیں شمالی امریکہ یا یورپ کے بڑے شہروں سے ملتی جلتی ہیں۔چین میں گو وسیع پیمانے پر گھر بن رہے ہیں مگر ان کی قیمت میں اضافہ جاری ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ سپلائی کی رکاوٹیں نہیں جن سے قیمتیں بڑھ گئیں بلکہ ہاؤسنگ کا کاروبار میں بدل جانا اور عالمی مالیاتی نظام کی خرابی گڑبڑ کر رہی ہیں۔ایک چیز جس پر بہت سے مقامی لوگوں نے تبصرہ کیا وہ تھا کوویڈ وبائی مرض کا مسلسل اثر… مثال کے طور پر اس نے مقامی طور پر ہوائی سفر کو آدھا کر دیا۔ چین اس وقت تمام ثبوت دیکھتے ہوئے ایک متحرک معاشرہ ہے جہاں فعال اور موثر حکومت و معیشت موجود ہے اور جو اپنے ماضی اور اپنی شناخت کے ساتھ آرام دہ ہے۔ ریاست باقی دنیا کے ساتھ مشغولیت اور کھلے پن کا پختہ عزم رکھتی ہے اور چین کو تانگ کے تحت جس طرح اہم بین الاقوامی پوزیشن حاصل تھی، اسے عالمی تہذیب کی سرکردہ ریاست کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند ہے۔ ہم یہ دیکھنا شروع کر رہے ہیں کہ اس ماڈل کا باقی دنیا پر کیا اثر پڑے گا۔ طویل عرصے تک چین نے خود کو دنیا کی مرکزی یا درمیانی مملکت کے طور پر دیکھا اور باقی دنیا اسے سب سے طاقتور اور سب سے مہذب ریاست کے طور پر دیکھتی تھی۔ یہ تاثر1770ء کی دہائی کے بعد تبدیل ہوا…مگر اب ہم تقریبا یقینی طور پر اس دور کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ چین کے پاس یہ طاقت ضرور ہے کہ وہ امریکہ کو اپنی مرضی مسلط کرنے سے روک سکے، لیکن اس کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ باقی دنیا پر اپنی مرضی اس طرح مسلط کر سکے جس طرح مرکزی (core) ریاستیں کرتی ہیں۔ یہ بیانیہ کہ چین کسی قسم کا عسکری خطرہ ہے، حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ درحقیقت صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ امریکہ کے دنیا بھر میں سینکڑوں فوجی اڈے اور تنصیبات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد چین کے قریب ، جاپان اور جنوبی کوریا میں تعینات ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کا صرف ایک غیر ملکی فوجی اڈہ ہے جو جبوتی میں واقع ہے اور امریکہ کی سرحدوں کے قریب چین کا کوئی فوجی اڈہ نہیں۔ مزید برآں چین نے گزشتہ 40 سال سے زائد عرصے میں بین الاقوامی جنگ میں ایک بھی گولی نہیں چلائی، جبکہ اسی دوران امریکہ نے درجنوں گلوبل ساؤتھ ممالک پر حملے کیے، بمباری کی، یا ان کی حکومتیں گرا کر نئی حکومتیں قائم کیں۔ اگر کوئی ریاست واقعی دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے، تو وہ امریکہ ہے۔ مغربی جنگ پسندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ چین خودمختار ترقی حاصل کر رہا ہے اور یہ اس سامراجی نظام کو کمزور کر رہا ہے جس پر مغربی سرمایہ داری کی بنیاد قائم ہے۔ یہ بھی مگر سچ ہے کہ مغرب اتنی آسانی سے عالمی معاشی طاقت کو اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل