Loading
یہاں کے مقامی باشندے کہتے ہیں کہ یہ کبھی کُھلا ہی نہیں یعنی یہ ریسرچ سینٹر جو لوگوں کو یا ہمارے طالب علموں کو اس نیت کے ساتھ بنا کردیا گیا تھا کہ یہاں وہ ریسرچ کریں۔ ریسرچ تو خیر کیا کرتے ہیں، ایک دروازے کو باہر سے تالا لگا ہوا تھا اور دوسرے دروازے کو اندر سے تالا لگا ہوا ہے، یعنی کوئی صورت نہیں کہ آپ اس کے اندر جاکر اس عمارت کو دیکھ سکیں۔ اندرونی دیواروں پر متعدد پورٹریٹ آویزا ہیں جن میں دریائے جہلم کی جنگ کے علاوہ الیگزینڈر کے حوالے سے دیگر معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ ان تصاویر میں شہنشاہ Darius سوم کے ایک اہم خط کا متن بھی شامل ہے جس میں اس نے راجا پورس سے الیگزینڈر سے مقابلے کے لیے جنگی ہاتھی منگوائے تھے۔ راجا پورس نے ہاتھی فوراً روانہ کردیے لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہیDarius کو الیگزینڈر نہ صرف عبرت ناک شکست دے چکا تھا بلکہ فرار ہوتا ہوا وہ اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں مارا بھی جا چکا تھا۔ یہاں دریائے جہلم کی جنگ کے نقشے، مناظر اور شکست کے بعد راجہ پورس اور الیگزینڈر کی ملاقات کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ یادگار کے ایک پلیٹ فارم پر وہ مشہور نقشہ موجود ہے جس میں سکندرِاعظم کی عظیم سلطنت اور اس کی پیش قدمی کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ الیگزینڈر 20 جولائی 376 قبل مسیح کو بادشاہ فلپ اور ملکہ اولمپیس کی پہلی اور واحد اولاد کے طور پر پیلہ کے محل میں پیدا ہوا۔ اکتوبر 336 قبل مسیح میں اپنے باپ کے قتل پر وہ 20 سال کی عمر میں مقدونیہ کا بادشاہ بنا اور محض ڈیڑھ سال بعد وہ دنیا فتح کرنے کے لیے نکل پڑا۔ اپنی فوج کو ایشیائے کوچک کے ساحلوں پر اتارا۔ الیگزینڈر دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ Alexian جس کا مطلب ہے دفاع کرنا اور Andros جس کا مطلب ہے مرد۔ یعنی مردوں کا دفاع کرنے والا۔ اسے یونانی شہنشاہوں نے سرکاری طور پر دی گریٹ کا خطاب دیا جو بعد میں اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ قدیم اور جدید مورخین، محققین اور مصنفین نے اسے روئے زمین کا سب سے عظیم فوجی جرنل، جنگجو اور فاتح قرار دیا ہے۔ 336 قبل مسیح سے 323 قبل مسیح تک کل 12 سال آٹھ ماہ وہ حکم راں رہا جس میں سے 11 سال تین مہینے اس نے گھوڑے کی زِین پر گزارے۔ اس عرصے میں اس نے اپنی جائے پیدائش اور دارالحکومت پیلہ سے بسترمرگ یعنی بابل تک سیکڑوں بڑی اور چھوٹی جنگیں لڑیں اور ہر ایک میں کام یاب رہا۔ اس کی بیوی رخسانہ کو دنیا کی سب سے خوب صورت عورت قرار دیتے ہوئے لکھا جاتا ہے کہ الیگزینڈر کو اس سے پہلی نظر میں ہی محبت ہوگئی تھی۔ جہلم کے کنارے راجا پورس کے خلاف الیگزینڈر کی لڑائی کو دنیا کی عظیم ترین جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق الیگزینڈر نے ایک کروڑ 18 لاکھ 89 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد کا علاقہ فتح کیا۔ یہاں اب دنیا کے 25 کے لگ بھگ ملک آباد ہیں۔ قسمت کی دیوی تو الیگزینڈر پر مہربان رہی لیکن قدرت نے اس کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔ وہ کسی جنگ میں نہیں مارا گیا لیکن دریائے بیاس کے کنارے اپنی فوج کے ہاتھوں ہار گیا جب اس کی فوج نے دریا پار کرنے سے انکار کردیا۔ وہاں سے دوبارہ پیچھے کی جانب لوٹا اور کشتیوں کا ایک بیڑا بنا کر دریائے چناب اور سندھ سے ہوتا ہوا مکران اور ایران کے درمیان پھیلے صحرا کو پار کیا۔ الیگزینڈر مشرقی وسطیٰ کی فتح کے لیے جانا چاہتا تھا لیکن 10 یا 11 جون 323 قبل مسیح کو اس وقت اس دنیا سے رخصت ہوگیا جب وہ اپنی محبوبہ روکشن (رخسانہ) کے بطن سے اپنی عظیم سلطنت کے ولی عہد کی پیدائش کا منتظر تھا۔ ہم بدقسمت قوم ہیں جو تاریخی کی قدر نہیں کرتے۔ ہم نے تاریخ کو تالے لگائے ہوئے ہیں اور وہ بدقسمتی یہاں بھی ظاہر ہوئی۔ ہم بہت دور سے آئے۔ ایک تو راستہ اس کا اتنا خراب ہے۔ دوسرا اس عمارت کے بند ہونے کا دکھ۔ یہ ریسرچ سینٹر اسی لیے بنایا گیا تھا کہ الیگزینڈر زندہ رہے گا۔ الیگزینڈر تو کہانیوں میں زندہ ہے لیکن ہم نے اپنی تاریخ کو مردہ کردیا ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ نہ ہم زندہ قوم تھے، نہ ہیں اور نہ شاید کبھی رہیں گے کیوں کہ جو قوم اپنی تاریخ کو مردہ کردیتی ہے، وہ قوم زندہ نہیں رہتی۔ ان قوموں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ 75 سال میں قوموں کی تاریخ نہیں بنتی۔ جو بچی کھچی تاریخ ہمارے پاس ہے، اگر ہم اسی کو سنبھال لیں تو بہت ہے۔ مگر افسوس کہ اسے ہم نے اس طرح سنبھال رکھا ہے کہ اس کے چاروں طرف جھاڑیاں بچھا دی گئی ہیں۔ دروازوں کو ہم نے تالے لگائے ہوئے ہیں۔ عرصۂ دراز سے نہ کوئی اندر گیا ہے اور نہ ہم کسی کو جانے دیتے ہیں۔ دربار جلال پور شریف ہم الیگزینڈر مونومنٹ سے باہر نکلے تو بالکل ایک یا دو کلومیٹر کے بعد جلال پور شریف شہر تھا۔ جلال پور شریف شہر کوئی اتنا بڑا یا مالی لحاظ سے کوئی اتنا اچھا شہر نہیں ہے یا عین ممکن ہے کہ ہم لوگ ہی جس علاقے سے گزر رہے ہوں وہ ایک عام سا علاقہ ہو۔ جلال پور شریف سے گزرتے ہوئے ہمیں چند دروازے نظر آئے۔ پاس کھڑے لوگوں سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ اس شہر میں کل اٹھ دروازے تھے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے چلے گے۔ اب ان دروازوں کی صرف محرابیں ہی باقی ہیں جنہیں جدید دور کے ٹائل لگا کر مضبوط کردیا گیا ہے۔ ہم شہر سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ بلند ٹیلے پر بنے ایک مزار پر نظر پڑی۔ دو سے ہی یہ ایک دربار معلوم ہوتا تھا ہم دونوں میں سے کوئی بھی اس دربار سے واقف نہیں تھا۔ گرمی سے میری تھوڑی بہت طبیعت خراب ہونے لگی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی۔ سلمان دربار کو دیکھنے کی ضد کرنے لگا۔ میں نے سلمان سے کہا کہ وہ دربار دیکھ آئے۔ میں دربار کے باہر ہی موٹر سائیکل پر بیٹھوں گا۔ اصل بات کچھ یوں تھی کہ مجھ میں چلنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ میں نے سلمان کو اندر بھیج دیا۔ دربار کے قریب ہی ایک دکان تھی، وہیں سے ایک پانی کی بوتل پی مگر کچھ خاص افاقہ نہ ہوا۔ میں نے سلمان کو خاص تقید کی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ دس منٹ کے لیے اس دربار کے اندر جائے اور پھر واپس آ جائے۔ سلمان تقریباً دس سے پندرہ منٹ کے اندر اندر واپس آگیا مگر میری طبیعت اس قدر خراب ہونے لگی تھی کہ مجھ سے شاید موٹرسائیکل پر ابھی سفر بھی نہ ہوتا۔ سلمان نے مجھے دربار کے اندر بنے کچھ خوب صورت ڈیزائن کی تصاویر دکھائیں۔ میں نے سلمان سے کہا کہ اسے دربار کو اچھی طرح سے ایکسپلور کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ تصاویر بنانی چاہییں۔ میرا اپنا مقصد کچھ یوں تھا کہ اسی بہانے مجھے کچھ آرام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ ہم دربار کے اندر گئے اور التجا کی کہ ہم بہت دور سے صرف اور صرف دربار کو ہی دیکھنے کے لیے آئے ہیں حالاں کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی اس سے پہلے دربار سے واقف نہیں تھا۔ میں نے دربار کے اندر جا کے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پیا اور پنکھے کے نیچے لیٹ گیا، فوراً ہی میری آنکھ لگ گئی۔ سلمان دربار کی فوٹوگرافی کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد سلمان نے مجھے اٹھایا۔ اس دوران سلمان دربار بھی اچھی طرح سے دیکھ چکا تھا، اس کی فوٹوگرافی بھی کرچکا تھا اور دربار سے کھانا بھی کھا چکا تھا۔ اصل میں مجھے کہنا تو یہ چاہیے کہ وہ لنگر بھی کھا چکا تھا مجھے بھی لنگر کے بارے میں کہا گیا مگر مجھ میں ایک نوالہ کھانے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ تقریباً ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد دربار والوں نے ہمیں دربار سے چلے جانے کے لیے کہا۔ میرے اندر چلنے کی ہمت بالکل بھی نہیں تھی مگر میں پھر بھی بہ مشکل دربار سے نکل کر مسجد کی طرف گیا۔ وہاں دو رکعت ظہر کے ادا کیے اور ہم دربار سے باہر نکل آئے۔ سورج ایسے تھا جیسے سوا نیزے پر چمک رہا ہو اور ہماری اگلی منزل ابھی بہت دور تھی۔ اگر آپ کبھی جلال پور شریف کے پاس سے گزریں تو آپ کو یہ دربار ضرور دیکھنا چاہیے۔ یہ دربار حضرت پیر سید غلام حیدر علی شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے اور اس دربار کی تاریخ 100 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ پیر سید غلام حیدر علی شاہ صاحب نے برصغیر میں مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے ایمان کو بیدار کیا۔ اس دربار کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے بہت ہی قیمتی اور نایاب پتھروں سے بنایا گیا ہے اور سنگ مرمر کا استعمال بھی کثرت سے کیا گیا ہے۔ قلعہ نندنہ جلال پور شریف دربار سے باہر نکلنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ طبعیت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ ایک واحد اچھا کام میں مسلسل کر رہا تھا، یہ پانی کا بہ کثرت استعمال تھا۔ سڑک کا کوئی حال نہ تھا۔ مزید یہ بھی کہ کوئی درخت بھی نہ تھا۔ مرتے مرتے بھی میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور باغباں والا سے ہوتے ہوئے قلعہ نندنہ پہنچ گئے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر قلعہ نندنہ بہت مشہور ہے مگر یہاں آنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آپ پنڈ دادن خان کی طرف سے آئیں تو یہاں سے یہ 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سڑک کا اتنا برا حال ہے کہ آتے ہوئے آپ کی پسلیاں اگر ٹوٹیں گی نہیں تو کم از کم ہل ضرور جائیں گی اور اگر آپ جہلم کی طرف سے آتے ہیں تو جہلم کی بعد جلال پور شریف اور جلال پور شریف سے آگے پھر ایک طویل راستہ اور پھر مسئلہ یہ کہ سڑک اکھاڑ کر پھینک دی گئی ہے۔ نہ قلعے تک آنے تک کا راستہ سلامت ہے اور نہ وہ سڑک سلامت ہے۔ بڑے بڑے گڑھے ہیں، کچی سڑک ہے، کیچڑ ہے۔ بہت سی جگہوں پر بارش نہ ہونے کے باوجود سڑک پر پانی کھڑا ہے یعنی آپ کسی بھی طرح صحیح سلامت یا چند گھنٹوں میں یہاں نہیں پہنچ سکتے۔ جہلم سے آنے کے لیے آپ کو گاڑی پر کم از کم یہ تھوڑا سا فاصلہ میرا خیال ہے کوئی 60 سے 70 کلومیٹر کا بنتا ہے، اس کے لیے آپ کو پانچ سے چھے گھنٹے درکار ہیں۔ اسی طرح چوہ سیدن شاہ سے یہ مشرق کی جانب تقریباً بیس کلومیٹر ہے۔ مشہور ہونے کے باوجود قلعہ نندنہ کی تاریخ بے حد مشکوک اور متنازع ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے راجا نند لال نے 855 عیسوی میں تعمیر کرایا تھا اور اسی کا نام پر یہ نندنہ کہلوایا جب کہ دوسری روایت یہ ہے کہ ہندو شاہی خاندان کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام تھا راجا اِندر پال۔ اسی راجا نے اسے تعمیر کروایا۔ ایک ہندو بھگوان، اس کا نام بھی اِندر تھا بلکہ اِندر ہے۔ وہ بڑے دیوتاؤں میں شمار تو نہیں ہوتا لیکن ایک زمانے میں شِیو کے ساتھ ساتھ راجا اِندر دیوتا کا نام بھی لیا جاتا تھا۔ یہ ہندو شاہی خاندان کا دارالحکومت بھی رہا لیکن جس زمانے میں اس کے بنانے کا بتایا جاتا ہے اس دور میں نندنہ قلعے میں ہندو شاہی خاندان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہندو شاہی خاندان کی 843 عیسوی میں بنیاد راجا کِلر نے رکھی تھی جن کا دارالحکومت موجودہ اٹک شہر سے 14 میل اوپر کی جانب دریائے سندھ کے کنارے تھا۔ اسی ہندو شاہی خاندان کا چھٹا بادشاہ جے پال 964 عیسوی میں برسراقتدار آیا اور 1001 عیسوی میں اسے پشاور کے قریب محمود غزنوی سے شکست ہوئی۔ یہ جنگ 27 ستمبر 1001 کو لڑی گئی اور کہتے ہیں کہ جے پال اپنے 15 رشتے داروں کے ساتھ گرفتار ہوا۔ اس کے ساتھ 10 لاکھ فوج تھی جسے غلام بنا لیا گیا۔ محمود غزنوی کے سپاہیوں نے بچ کر بھاگ جانے والوں کا پیچھا کیا اور چُن چن کر راجا جے پال کے سپاہیوں کو قتل کیا۔ جتنی قتل و غارت کرسکتا تھا محمود غزنوی نے کی اور اگلے سال یعنی 1002 میں بعض شرائط کے ساتھ کچھ قلعے اور سونا محمود غزنوی کے حوالے کیا گیا۔ اس طرح راجا جے پال کو رہائی مل گئی لیکن ہندو تاریخ کے مطابق راجا جے پال بہت ہی انا پرست بادشاہ تھا، چناںچہ وہ غزنی سے واپس آیا، چِتا جلوائی اور اس میں کود کر اپنی جان دے دی۔ جے پال کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا انند پال 1002 میں حکم راں بنا اور اسی نے نندنہ کو ہندو شاہی حکومت کا دارالحکومت قرار دیا۔ لہٰذا اگر یہ روایت تسلیم کرلی جائے کہ اسے انند پال نے ہندو شاہی سلطنت کا دارالحکومت قرار دیا تھا تو پھر اس کی 855 عیسوی میں تعمیر مشکوک ہوتی ہے۔ 2021 میں محکمۂ آثارقدیمہ نے اس کی بنیادیں دریافت کیں اور وہ اس کی باقیات اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ کاربن ٹیسٹنگ کے ذریعے یہ پتا چلایا جا سکے کہ اس قلعے کی بنیاد کب رکھی گئی تھی۔ اس کی رپورٹ سے کم از کم میں ابھی تک ناواقف ہوں لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ جے پال کے زمانے میں نندنہ ہندو شاہی حکومت کا دارالحکومت نہیں تھا۔ انند پال کے برسراقتدار آنے کے چھے سال بعد یعنی 1008 عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوستان پر اپنا چھٹا حملہ کیا۔ اس وقت تک انند پال نندنہ کو اپنا دارالحکومت قرار دے چکا تھا۔ انند پال نے اپنے بیٹے کی یہ ذمے داری لگائی کہ محمودغزنوی کو کسی صورت بھی دریائے سندھ پار نہ کرنے دے کیوںکہ اگر وہ دریائے سندھ پار کرلیتا تو اس کے بعد تو پھر اس کے سامنے کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں۔ وہ براہ راست نندنہ پہنچتا اور اس قلعے برباد کردیتا، مگر ایک بار پھر ہندو شاہی خاندان کو شکست ہوئی۔ اس لڑائی کے لیے محمود غزنوی 31 دسمبر 1006 کو غزنی سے روانہ ہوا اور ایک سال ان علاقوں کو فتح کرنے میں لگا جو آج کل خیبر پختون خواہ کا حصہ ہیں۔ 1008 کے اوائل میں اس کا انند پال کے بیٹے کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔ یہ انند پال اور محمود غزنوی کے درمیث آخری لڑائی تھی۔ کہتے ہیں کہ انند پال اس کے دو سال کے بعد مرگیا۔ اس کی موت ریکارڈ پر تو نہیں ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ 1010 میں وہ مارا گیا تھا۔ محمود غزنوی نے انند پال کے ایک بیٹے کو یرغمال بنالیا اور اسے غزنی بھجوا دیا۔ محمودغزنوی مہینوں تک ہندوشاہی فوجوں کا پیچھا کرتا رہا اور جہاں اسے ان کا کوئی گروہ نظر آتا تھا، اس کے فوجیں انھیں پکڑ کر مار دیتی تھیں۔ یعنی کسی قسم کا کوئی قیدی بنانے کا رواج نہیں تھا بلکہ وہ تلوار لے کے نکلتے تھے اور جو بھی سامنے آتا تھا اسے مار دیتے تھے لیکن ایک بڑی دل چسپ بات یہ ہے کہ جب 1010 میں انند پال کا بیٹا جسے محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی، وہ برسراقتدار آیا تو اس کے اور محمود غزنوی کے درمیان ایک معاہدۂ امن طے پا گیا۔ یعنی محمودغزنوی نے اپنی سرحد طے کرلی اور جے پال نے اپنی سرحد طے کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے باپ کے برعکس انندپال مسلمانوں کے حق میں تھا اور ایک عرصے تک وہ اس معاہدے پر قائم بھی رہا۔ محمود غزنوی صرف ہندو شاہی کو ختم نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کی نظر تو پورے ہندوستان پر تھی۔ اسے جہاں پتا چلتا تھا کہ کسی مندر میں دولت موجود ہے یا کہیں خزانہ موجود ہے تو وہ وہاں حملہ کرتا۔ اسی طرح کا ایک علاقہ ہریانہ میں تھا جسے اُس زمانے میں تھانی سر کہا جاتا تھا۔ محمود غزنوی کی خواہش تھی کہ تھانی سر کے خزانے کو حاصل کیا جائے لیکن تھانی سر جانے کے لیے اسے ہندو شاہی کے علاقے سے گزرنا پڑتا تھا یعنی انند پال کے علاقے سے۔ محمود غزنوی نے ہندو شاہی خاندان کے سامنے یہ بات رکھی کہ اسے اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دی جائے جہاں بے شمار مندر تھے اور مندروں میں بہت سا خزانہ دفن تھا۔ ہندو شاہی خاندان اور محمود غزنوی میں امن معاہدے کے باوجود، ہندو شاہی خاندان نے میں محمود غزنوی کو راستہ دینے سے انکار کردیا۔ اس سب کے باوجود محمود غزنوی نے تھانی سر پر حملہ کیا اور لوٹ مار کر کے واپس غزنی چلا گیا۔ ہندو شاہی خاندان کی جانب سے امن معاہدہ ختم کرکے، محمود غزنوی کو دیا جانے والا خراج بند کردیا گیا۔ اس طرح محمود اپنے آٹھویں حملے کے لیے 1013 عیسوی میں نندنہ پہنچا اور قلعے کو مکمل تباہ کرنے کے بعد اسے آگ لگا دی۔ حملے کے بعد ہندو شاہی خاندان کشمیر بھاگ گیا۔ محمود غزنوی نے اب باقاعدہ اپنا گورنر نندنہ میں تعینات کردیا۔ چھے سال کے بعد کشمیر کے ہندو راجا اور ہندو شاہی خاندان کے آخری راجا بھیم پال کی فوجوں نے مشترکہ طور پر نندنہ کے قلعے پر حملہ کیا مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1021 میں راجا بھیم پال بھی مرگیا اور اس کے بعد یہ ہندو شاہی خاندان کبھی برسرِاقتدار نہ آسکا۔ نندنہ ہندو شاہی خاندان نے آباد کیا، اسے دارلحکومت بنایا اور یہی نندنہ ہندو شاہی خاندان کا قبرستان بھی ثابت ہوا۔ آج جنجوعہ راجپوت برادری نندنہ قلعہ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے اور وہ یہ کہتی ہے کہ آخر میں نندنہ انہوں نے ہی آباد کیا تھا۔ لیکن جنجوعہ تاریخ اور جو عام تاریخ ہے اس میں بہت فرق ہے۔ جنجوعہ ذرائع اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ 1013 میں محمود غزنوی نے یہاں پر حملہ کیا تو بھیم پال بھاگ کر کشمیر چلا گیا اور بقول ان کے محمود نے اس کا پیچھا بھی کیا۔ جنجوعہ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ راجا نند لال نے اسے تعمیر کرایا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ راجا نند لال نام کا کوئی بھی شخص ہندو شاہی حکم راں تھا ہی نہیں۔ تاریخ میں اس خاندان کا اس نام کا کوئی راجا نہیں گزرا۔ کسی اور خاندان کا گزرا ہو تو ممکن ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نے قلعے کا نام اپنے نام پر نندنہ رکھا لیکن تاریخ کہتی ہے کہ ہندوؤں کے بھگوان اِندر کے نام پر اس کا نام نندنہ رکھا گیا۔ جنجوعہ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ اس کا رقبہ 46 کنال تھا مگر اب یہ تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ ایک پہاڑی پر البیرونی کی رسد گاہ بنی ہوئی ہے، پیچھے مندر ہے اور مندر کے بالکل ساتھ ہی ایک مسجد ہے۔ یہ تین چیزیں ایک پہاڑی پر ہیں۔ محمود غزنوی کے سپاہیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی قبریں بھی یہاں ہیں لیکن جنجوعہ ذرائع یہ کہتے ہیں کہ یہ محمود غزنوی کے سپاہیوں کی نہیں بلکہ جنجوعہ راجپوت سپاہیوں کی قبریں ہیں۔ جنجوعہ برادری کے بقول اس کے تین دروازے تھے۔ ایک شمالی دروازہ کہلاتا تھا، ایک جنوبی دروازہ کہلاتا تھا اور ایک مندر دروازہ کہلاتا تھا۔ جنجوعہ محققین کہتے ہیں کہ نند لال کی دو پشتوں نے اس پر حکومت کی اور کچھ برسوں کے لیے ایاز یہاں کا حکم راں مقرر ہوا۔ ایاز کا جب نام آتا ہے تو پھر سلطان محمود غزنوی کا وہی غلام ایاز کا نام ذہن میں اتا ہے لیکن ایاز یہاں کا حاکم کبھی نہیں رہا۔ کچھ روایات میں یہ ہے کہ ایاز کو کچھ عرصے کے لیے لاہور کا حکم راں مقرر کردیا گیا تھا لیکن نندنہ کا حاکم ایاز کسی تاریخ میں درج نہیں ہوا۔ ایاز کے بعد پھر اسی خاندان یعنی نند لال کا خاندان حکومت میں آیا۔ نندنہ پہاڑی کی چوٹی پر دو تین چیزیں ہی محفوظ رہ گئی ہیں بلکہ ان کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مندر ہے، ایک مسجد ہے اور ایک البیرونی کی رصدگاہ ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے یہیں زمین کے قطر کی پیمائش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو شاہی خاندان شِیو ازم کا پیروکار تھا لہٰذا اس نے جو مندر بنوایا تھا وہ بنیادی طور پر شیو مندر ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب یہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا سوائے کھنڈرات کے۔ یہ ایک دو منزلہ مندر تھا لیکن اس کے بعد یہ ویران ہوگیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی نے اسے برباد کردیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جنجوعہ سردار یہاں آئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تو پھر مندر کی اہمیت ختم ہوگئی لہٰذا یہ مندر اپنی شکل و صورت کھوتا چلا گیا۔ نندنہ کی مسجد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی کے دور میں اس مسجد کی بنیاد پہلی بار رکھی گئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ شہید ہوگئی اور پھر اس کی جگہ ایک نئی مسجد تعمیر کی گئی۔ سامنے پہاڑی کی چوٹی پر کچھ قبریں بنی ہوئی ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ محمود غزنوی کے سپاہیوں کی قبریں ہیں۔ باقی کچھ کھنڈر ہیں۔ یہ وہ کھنڈر ہیں جن کی وجہ سے قلعہ نندنہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس کھنڈر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابوریحان محمد بن احمد البیرونی کی رصدگاہ تھی جس نے آج سے ایک ہزار سال پہلے زمین کا قطر معلوم کیا تھا۔ آج کی پیمائش میں یہ فرق بہت کم ہے۔ البیرونی نے 146 کتابیں لکھی جن میں سے 95 فلکیات ریاضی اور جغرافیے کے بارے میں تھیں۔ محمودغزنوی نے جب 1017 میں ایک ایرانی شہر پر حملہ اور قبضہ کیا تو البیرونی سمیت متعدد دانش وروں کو غزنی لے آیا۔ اس وقت البیرونی کی عمر 44 سال تھی۔ 1017 میں انہوں نے زمین کا قطر دریافت کیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ ہندوستان کے بارے معلومات حاصل کریں۔ پہلے انھوں نے کٹاس راج میں بیٹھ کر سنسکرت سیکھی۔ البیرونی سے پہلے مسلمانوں کے خلیفہ مامون رشید نے زمین کا قطر معلوم کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے ماہرین کے دو گروہوں کو زمین کی پیمائش کا کام سونپا تھا۔ ان ماہرین نے صحرا میں شمال اور جنوب کی طرف سفر کیا اور دوپہر کے وقت سورج کے زاویے کی بار بار پیمائش کرکے زمین کا رداس معلوم کیا۔ البیرونی بھی ان ماہرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور زمین کی پیمائش مزید درستی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن سرمائے اور صحرا میں سفر جیسے مشکل اور خطرناک کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ تب البیرونی نے الجبرا اور جیومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی پیمائش کی اور ایک ایسے طریقے کا کھوج لگایا جو نسبتاً آسان اور نتائج کے حوالے سے انتہائی کارگر تھا۔ اس دور کی تاریخی تذکروں اور البیرونی کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ا افق کا زاویہ ماپنے کے لیے پہاڑی کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ پہاڑی کی بلندی ماپنے کا تھا۔ البیرونی نے متعلقہ فارمولے سے پہلے پہاڑی کی بلندی معلوم کی اور پھر زاویہ معلوم کرنے کے لیے البیرونی نے ایک آلہ استعمال کیا جس کے درمیان میں گھڑی کی سوئی جیسے ہی ایک ناپ لگی ہوئی ہوتی تھی۔ اس نے زاویہ نوٹ کرلیا۔ اس کے بعد البیرونی نے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر آلے کی مدد سے دور نظر آنے والے افق یعنی وہ جگہ جہاں زمین اور آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کا زاویے معلوم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیمائش کے لیے البیرونی نے کافی عرصہ نندنہ کے قلعے میں گزارا۔ ہے کئی بار یہ عمل دہرایا افقی زاویہ معلوم کر لینے کے بعد البیرونی نے حساب کتاب کیا اور زمین کا رداس دریافت کیا۔ البیرونی نے ٹریگنو میٹری اور اپنے بنائے ہوئے آلے کی مدد سے پہلے قلعے کے شمال میں ایک پہاڑی کی بلندی ماپی پھر وہ اس پہاڑی پر خود چڑھا اور افق کے ڈوبنے کی پیمائش کی۔ واضح رہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے مطابق زمین کا رداس 6378 کلومیٹر ہے جب کہ البیرونی نے بنا کسی جدید آلے کے یہ زمین کا رداس 6335 کلومیٹر ناپا تھا۔ قلعہ نندنہ اچھی خاصی اونچائی پر ہے۔ میں نے پارکنگ میں اپنی بائیک کھڑی کی اور اللّہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کردیا۔ مجھے قلعہ تک پہنچنے میں شاید ایک گھٹنے سے زیادہ ہی لگا ہوگا۔ میں اوپر پہنچا اور پہنچتے ہی مندر کے سائے میں سوگیا۔ سلمان اپنی فوٹو گرافی کرتا رہا۔ فوٹو گرافی سے فارغ ہوکر سلمان میری طرف آیا۔ میں نے بہ مشکل تین چار تصاویر بنوائیں۔ طبعیت اتنی بوجھل تھی کہ کوئی ویڈیو ریکارڈ نہ کی۔ حالاں کہ میں مختلف باتیں سوچ کر نکلا تھا۔ رفتہ رفتہ چلتا ہوا میں پھر سے نیچے اتر آیا۔ پارکنگ فیس ادا کی اور پھر ہم اپنے سفر کے آخری مرحلے کی طرف چل پڑے۔ اب ہمارا رخ ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی طرف تھا۔ ہم قلعہ نندنہ سے نکلے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ ہمیں اب پھر سے مرکزی شاہراہ پر آتے ہوئے ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی طرف جانا تھا۔ ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف خود ایک جنکشن ہے بلکہ دو جنکشنز کے درمیان بھی ہے۔ ہرن پور کے پیچھے والا ریلوے اسٹیشن ملک وال ہے جو کہ بذات خود ایک جنکشن ہے اور ہرن پور سے آگے چالیسا ہے یہ بھی ایک ریلوے جنکشن ہے۔ ملک وال کی ایک بہت بڑی خاص بات یہاں کا ڈائمنڈ کراس ہے۔ ریلوے کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والے دوست احباب جانتے ہیں کہ پاکستان میں صرف اور صرف دو ریلوے اسٹیشن اسٹیشنوں پر ڈائمنڈ کراس بنا ہوا ہے ایک ملک وال ریلوے اسٹیشن پر اور دوسرے روہڑی ریلوے اسٹیشن پر۔ آپ ملک وال سے دریائے جہلم کی طرف آئیں تو دریائے جہلم سے ذرا پہلے آپ کو بہ مشکل ایک ترک شدہ ریلوے اسٹیشن چک نظام ملے گا جس کی گری ہوئی دیواروں کی اینٹیں بھی اب لوگ لے جاچکے۔ چک نظام کے قصبے سے گزرتے ہی آپ دریائے جہلم پر بنے ایک انتہائی مضبوط اور خوب صورت وکٹوریہ پل سے گزرتے ہیں۔ آپ یقین مانیں وکٹوریہ پل سے ملک وال کی طرف ایک الگ پنجاب ہے اور وکٹوریہ پل پار کرتے ہی دوسری طرف پس ماندہ سا ایک الگ پنجاب ہے۔ انگریز کو ہم لاکھ برا بھلا کہہ لیں مگر انگریزوں کی دوراندیشی کا آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ جب دریائے جہلم پر وکٹوریہ پل کو بنایا گیا تو ریل کی پٹری کے ساتھ پیدل گزرنے والوں کے لیے دونوں جانب ایک چوڑا راستہ چھوڑ دیا گیا، یعنی ریل بھی دریائے جہلم اسی پل سے پار کرتی اور پیدل چلنے والے بھی۔ اب بائیک والے افراد بھی اسی وکٹوریہ پل سے دریائے جہلم پار کرتے ہیں مگر تقسیم سے لے کر اب تک ہم ملک وال کو ہرن پور کے ساتھ سڑک کے ذریعے جوڑ نہیں سکے۔ اس علاقے سے جو بھی معدنیات نکلتی تھیں، انھیں ہرن پور کے ذریعے ہی ملک وال لایا جاتا اور پھر ملک کے باقی حصوں میں ترسیل کی جاتی۔ ہرن پور سے اس کام کے لیے ایک الگ برانچ لائن نکالی گئی تھی جو غریب وال سیمنٹ فیکٹری تک جاتی تھی۔ اب دوسری بہت سی برانچ لائنوں کی طرح یہ برانچ لائن بھی بند ہے۔ حالاں کہ میرے خیال میں ٹرکوں کی بجائے اگر ریلوے لائن سے غریب وال سیمنٹ فیکٹری میں سامان کی نقل و حرکت ہو تو شاید یہ زیادہ منافع بخش رہے۔ ہرن پور سے آگے پاکستان کا سب سے چھوٹا ریلوے جنکشن ہے، چالیسا۔ چالیسا کی عمارت بہت ہی چھوٹی سی ہے۔ چالیسا سے ایک برانچ لائن کھیوڑہ کو نکلتی ہے۔ یقیناً اس برانچ لائن کا بھی مقصد یہی تھا کہ کھیوڑہ اور اس کے اطراف سے نمک اور دوسری معدنیات نکال کر انھیں پہلے ملک وال لایا جاتا اور پھر وہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں اس کی ترسیل ہوتی۔ چالیسا سے یہ برانچ لائن شروع ہوتی ہے اور ڈنڈوت تک جاتی ہے۔ اس برانچ لائن پر صرف چار ہی ریلوے اسٹیشن ہیں۔ چالیسا، سودے، کھیوڑہ اور ڈنڈوت۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پیچھے والی برانچ لائن ہرن پور سے شروع ہوکر چنوں وال پر ختم ہوجاتی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی ریلوے اسٹیشن نہیں۔ پیچھے سے یعنی ملک وال اور ہرن پور سے جو ریلوے لائن آتی ہے وہ چالیسا سے ہوتے ہوئے سیدھا پنڈ دادن خان اور خوشاب کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہم چالیسا نکلے تو میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔ چالیسا جنکشن پر ہی سورج تقریباً ڈوبنے کے قریب تھا۔ تبھی یہ خیال آیا کہ مجھے ORS پینا چاہیے۔ چالیسا سے ملک وال کو جاتے ہوئے ہمیں وکٹوریہ پل پار کرنا پڑا۔ ایک تنگ لوہے کی سڑک پر دریا کو پار کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ دریا دو حصوں میں تقسیم تھا۔ درمیان میں ایک دریائی جزیرہ تھا۔ دریا کا پہلا حصہ تو میں نے کسی طرح پار کرلیا مگر دوسرے حصے کو پار کرتے ہوئے نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں باقاعدہ کانپنے لگا۔ ملک وال پہنچتے ہی ORS کا پیکٹ ایک بڑی بوتل میں ڈال کر پیا تو جان میں کچھ جان آئی اور میں گھر پہنچنے کے قابل ہوا۔ ابھی ملک وال ریلوے اسٹیشن اور اس سے جڑی بہت سے چیزوں کو دیکھنا باقی تھا مگر سورج مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ موسم اچھا ہونے پر ایک بار پھر سے بائیک پر نکلوں اور ڈنگہ سے ہوتا ہوا ملک وال جاؤں۔ اسی بہانے میں ڈنگہ بھی دیکھ لوں گا۔ ( ختم شد)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل