Sunday, September 07, 2025
 

کوچۂ سخن

 



غزل اک سراب ِآرزو، دلدار سا تھا سامنے زہر میں ڈوبا وہ خنجر، پیار سا تھا سامنے ہیولا تھا، خواب تھا، اک گل تھا یا کوئی خیال  رات کے پہلو میں کوئی، یار سا تھا سامنے میں جسے سمجھا تھا ہوگا اک گل تازہ کوئی دل میں چبھنے پر کھلا وہ، خار سا تھا سامنے  عکس اپنا دیکھنے پر باب حیرت اک کھلا مبتلائے ہجر میں، بیمار سا تھا سامنے تھی کوئی دیوار اپنے درمیاں تفریق کی یعنی یہ رنگ و نسل، دیوار سا تھا سامنے مل رہی تھی مشکلوں میں تھوڑی راحت بھی ہمیں خار مثل گل کوئی، غمخوار سا تھا سامنے اس بت کافر نے اپنے پاؤں سے روندا اسے اک دلِ ناکارہ، جو بیکار سا تھا سامنے (عامرمعان۔ؔ کوئٹہ) غزل اجداد کے نقوش مٹاکر دیے گئے   ہم کو ہمارے حق بھی ستاکر دیے گئے تم پر تو برق عشق گری ناگہاں مگر  ہم کو تو یہ عذاب بتاکر دیے گئے قدآوروں نے سائے دیے ہیں بلند تر  لیکن ہمارے قد کو گھٹا کر دیے گئے دفتر میں شب کی شمس و قمر کا تھا اجتماع اول وہ رازدار بجھاکر دیے گئے جو لائقِ اڑان تھے وہ قید کرلئے  پنچھی جو پرکٹے تھے رہا کردیے گئے جو بھی حسین شخص ملا بے وفا ملا شیشے میں ہم کو سنگ سجاکر دیے گئے تاوانِ حریت یوں وطن کا لیا گیا  سر طشت میں بیٹوں کے سجاکر دیے گئے اعزاز میں ہماری سجائی گئی جو بزم  ہم اس میں سب سے پیچھے کھڑا کردیے گئے (محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ، مہاراشٹر، انڈیا) غزل ترے جہاں میں اگر چہ قلیل وقت رہے دو لخت، باہم و یکتا و ایک لخت رہے کیا ہم سے پہلے بھی تھا تیرا انتخاب کوئی یا بس ہمیں پہ ترے امتحان سخت رہے کہ جب تلک تھے تری دل کی مسندوں پرہم ہمارے پاؤں کے نیچے ہزاروں تخت رہے اُدھر تُو اوروں کی آنکھوں سے جام بھرتا رہا اِدھر فقیر تیری مے کشی میں مست رہے اُس اِک گلی میں اگر چہ خدا کا گھر بھی تھا دراز دست فقیروں کے کورے دست رہے مرے ہی بخت میں تھا کوئی مسئلہ،ورنہ رقیب اچھے رہے جن کے تیز بخت رہے ہمارے قصے بچھڑنے کے بعد بھی جگنوؔ  نہ جانے کتنی زبانوں کی باز گشت رہے  (جگنو چٹھہ۔ جھنگ) غزل ایک مجبورہارا جو حالات سے  لوگ کھیلے بہت اس کے جذبات سے تجھ کو معلوم کیا دل لگی سے تری  کوئی گزرا ہے کتنے ہی صدمات سے تو نے ہنس کر کسی سے کہا حالِ دل میری روح مر گئی بس اسی بات سے بازیٔ پیار میں میرا سب کچھ لٹا اک ذرا ڈر نہیں اب کسی مات سے ٹوٹا دل لے کے جائے نزاکتؔ کہاں فیض پائے ہیں کیا کیا تری ذات سے (نزاکت ریاض۔ پنڈ مہری،حسن ابدال ) غزل شام ڈھلے یوں گھر کھاتا ہے جیسے دیمک در کھاتا ہے دل کا رونا بعد میں رونا عشق تو پہلے سر کھاتا ہے عین عبادت پہلی سیڑھی شین کا نقطہ شر کھاتا ہے اس پنچھی نے کب تک اڑنا جو اپنے ہی پر کھاتا ہے اس کے نام کی جھوٹی قسمیں شہر کا نامہ بر کھاتا ہے ماں جنت کی پہلی سیڑھی اور جو دھکے نر کھاتا ہے اس کا وصل ادھورا فیصلؔ جس کو ہجر کا ڈر کھاتا ہے (فیصل عزیز اعوان۔ دوحہ، قطر) غزل بیٹھ کر رات بھر اکیلی وہ بس تکے ہاتھ کی ہتھیلی وہ کل تلک جس میں قہقہے گونجے آج خاموش ہے حویلی وہ جیت کر بھی نہ جیت میری ہوئی شاطرانہ ہے کھیل کھیلی وہ اس پہ لکھ کے حنا سے نام مرا چومتی اب بھی ہے ہتھیلی وہ اک زمانہ تھا روز آتی تھی لے کے میرے لیے چنبیلی وہ دور بچپن کا خوبصورت تھا یاد آتے ہیں یار بیلی وہ آتا ہو گا خیال راحلؔ کا بیٹھتی ہو گی جب اکیلی وہ (علی راحل۔ بورے والا، پنجاب) غزل گلابی تتلیوں میں گھِر گیا ہے مچھیرا مچھلیوں میں گھر گیا ہے الہی خیر فرما دے کہ میرا گھروندا بارشوں میں گھر گیا ہے یقیناً بادشہ کی موت ہوگی پیادہ سازشوں میں گھِر گیا ہے مکاں پہلے ہی خستہ تھا کہ اب کے ادھوری آہٹوں میں گھر گیا ہے محبت کے لئے دنیا بنی تھی زمانہ نفرتوں میں گھر گیا ہے مثلث توڑنے کی جستجو میں مربع زاویوں میں گھر گیا ہے کہانی ایک فرضی واقعہ تھی یہ قصہ راویوں میں گھِر گیا ہے مرے مولا عصا میں جان دے دے کہ موسیٰ ساحروں میں گھِر گیا ہے ابھی تک تھا مگر اب تیرا فیضیؔ بڑی لاچاریوں میں گھر گیا ہے (سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن) غزل یہ سامنے کا نظارہ ہوا تو جاتا ہے دعا سے آنسو ستارا ہوا تو جاتا ہے بجا یہ بات محبت فریب ہے لیکن فریب سے بھی گزارا ہوا تو جاتا ہے خبر نہیں کہ مقدر یہ ہونے دے کہ نہیں وہ ایک شخص ہمارا ہوا تو جاتا ہے ہوا تھا تیرہ برس پہلے دیکھ کر جو تجھے وہ دل کا حال دوبارہ ہوا تو جاتا ہے نہ جانے تجھ سے محبت ہے یا عقیدت ہے تُو مجھ کو جان سے پیارا ہوا تو جاتا ہے نہیں اے دنیا ضرورت تری نہیں کہ وہ شخص اکیلا ہو کے بھی سارا ہوا تو جاتا ہے (سید عون عباس۔ فیصل آباد) ’’ساونوں کی ہوا‘‘ شاعرانہ سی ہے زندگی کی فضا چھو رہی ہے مجھے ساونوں کی ہوا پھول مہکے، گھٹا چھا گئی ہر طرف دے گئی خامشی بھی عجب اک عطا رنگ برسے، تصور میں اک عکس تھا تیرے آنے کی ہر سمت پھیلی ندا یاد کی نرم چاپوں سے جاگا تھا دل جھوم اٹھنے لگی خوابوں کی بھی فضا پھر وہی دھیمے موسم کی ہے مدھ فضا چھو کے جاتی ہے مجھ کو یہ بھیگی ہوا سائے میں بھی ہیں کچھ داستانیں چھپیں خود ہوا کی زباں میں ہے ایک دعا بارشوں میں ہے بھیگے چمن کی طرح دل میں آئی تری یاد کی اک عطا تو جفا سے ملا، ہم وفا کے رہے کیا یہ عشقِ صمیمی بھی تھی اک خطا؟ چاند بھیگے ہوئے ساونوں میں ملا دل نے مانا کہ یہ بھی ہے ایک رضا خوف، تنہائیاں، فاصلہ، درد، غم سب کو دے دی ترے وصل نے کچھ سزا اب نہ موسم بدلتا ہے تیرے بغیر اب تو ہر سانس میں تو ہی تو کی ندا (بتول مسرت ۔ راول پنڈی) غزل روشنی طور پہ اوڑھے جو قبا اتری ہے ہر نفس پر نئی تفسیرِ ہدیٰ اُتری ہے نقطۂ وقت کے پیکر سے صدا جاگی تھی آدمی کی رگِ جاں میں وہ انا اتری ہے لا مکاں کا جو تسلسل تھا رواں صدیوں سے ہر مکاں پر وہی تکرارِ بقا اتری ہے کون سا نور تھا سینے کی دراڑوں میں مقیم؟ کس طرف سے وہ حقیقت کی ضیا اتری ہے ذرے ذرے پہ کھلا باطنِ ہستی آخر ذات کے غار میں اک چشمِ خدا اتری ہے (زبیر احد۔ فیصل آباد) غزل خمارِ عشق سے پہلے سکندری کی ہے  جنونِ عشق میں آ کر گداگری کی ہے  ابھی کھڑا جو ہوا تو سنبھل نہ پاؤں گا  ابھی تو پیارے صنم نے ستم گری کی ہے وصالِ یار کی چاہت تھی اس قدر یارو! درِ رقیب پہ جا کر بھی نوکری کی ہے  اسی کے ہجر میں کچھ شعر ہم نے لکھے تھے  اسی کے عشق میں ہم نے سخن وری کی ہے  ابھی جو پیچھے ہیں تسکین تو اسی کے لیے  وگرنہ پہلے تو ہم نے بھی رہبری کی ہے  (مزمل رضا تسکین ۔جھنگ) غزل  دیکھنے میں بھی اچھی خاصی ہے یہ جو چہرے پہ گھپ  اداسی ہے میری  آنکھیں  ٹٹولتی  ہیں  تجھے میری آنکھوں میں  بدحواسی ہے تجھ سے مل بیٹھنا  بھی میرے لیے عام  لفظوں میں  خود  شناسی ہے اس  نے   اعلی  لباس   پہنا   ہے یعنی  ساری  ہی  بے  لباسی  ہے یار  آ  پھر  سے گائوں  چلتے   ہیں شہر  بھر کی ہوا  یہ  باسی  ہے (تیمور ساکت۔ ڈیرہ غازی خان )  سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘  روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل