Sunday, September 07, 2025
 

بُک شیلف

 



تبصرہ نگار: حسان خالد تاریخ کی دلدل یا ایک نیا نظریہ تاریخ مصنف: ڈاکٹر خلیل احمد ناشر: کتاب ترنجن، میاں چمیبرز، 3 ٹیمپل روڈ لاہور (0345-4029632) ڈاکٹر خلیل احمد سیاسی مفکر، معیشت دان، ادیب اور سول پاکستان پارٹی کے چیف کنوینر ہیں۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ’’پاکستان کی ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘ ، ’’سیاسی پارٹیاں یا سیاسی بندوبست‘‘ ، ’’عمرانی معاہدے کی تشکیل نو‘‘ ، ’’ریاستی معیشت و شہری معیشت‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’تاریخ کی دلدل یا ایک نیا نظریہ تاریخ‘‘ میں مصنف نے، جو فلسفے کی تعلیم کا پس منظر رکھتے ہیں، تاریخ کے تصور سے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا اور اس کی وضاحت کی ہے۔ ڈاکٹر خلیل احمد کے بقول، ’’تاریخ ایک نامختتم تصویر ہے۔ وقت کا ایک لامحدود کینوس ہے، جس پر انسان چل پھر رہے تھے، چل پھر رہے ہیں، اور چلتے پھرتے رہیں گے۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ مورخین، جنھیں تاریخ کے مصور کہنا درست ہے، کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ تاریخ کی تصویر کو حقیقت سے قریب تر رہتے ہوئے مسلسل مصور کرتے رہیں۔ اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں، ’’تاریخ کا یہ نیا نظریہ اس بات کا متقاضی ہے کہ مورخ محض مصور نہ بنے، بلکہ وہ جو ہوبہو تصویر کھینچنے کا جتن کرنے والے مصور ہوتے ہیں، ان کی پیروی کرے۔ نہ اصل سے کم، نہ اصل سے بہتر۔‘‘  مصنف کی رائے میں تاریخ کو کسی آئیڈیالوجی کا ایندھن، کسی نظریے کا مواد یا کسی خواہش کا سامان نہیں بنانا چاہیے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ مستقل طور پر تاریخ کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔ یعنی تاریخ کی من چاہی تعبیر (جس کا حقیقت سے واسطہ نہ ہو) پیش کرنے کا رویہ، تاریخ کو ہمارے لیے ایک دلدل بنا دیتا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’یہ دلدل قومی ریاست اور قوم پسندی کے ساتھ زیادہ گہری اور زیادہ وسیع ہوئی۔‘‘ مصنف کہتے ہیں، ’’جو نہایت ہولناک سلوک تاریخ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، اور کیا جاتا ہے، وہ ہے کسی ’’حالیہ‘‘ مقصد کے حصول کی خاطر اسے اپنے چھکڑے کے آگے جوت لینا اور ہانکنا شروع کر دینا۔ یہ تاریخ کا قتل ہے، سوچا سمجھا سفاکانہ قتل۔‘‘ تاریخ کو کسی بھی قوم کا حافظہ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خلیل احمد کے بقول، ’’اگر یوں خیال کیا جائے کہ ایک صبح سب انسان بیدار ہوں اور پتہ چلے کہ سب کے سب اپنے ماضی کو طاق نسیاں پر رکھ چکے ہیں، تو زندگی کیسی محسوس ہو گی؟ بہت کچھ اس طرح کی، جیسی غالباً حیوانوں کی ہوتی ہے، کسی تاریخ کے بغیر۔‘‘ چنانچہ ’’تاریخ کی دلدل‘‘ سے بچنا ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں مصنف سمجھتے ہیں کہ مورخوں کو اپنے آلات، اپنی منہاجیات کو تیز کرتے رہنا چاہیے۔ مورخ کا کام زیادہ سے زیادہ تفصیلات اکٹھی کرنا ہے تاکہ تصویر زیادہ واضح اور قابل فہم بن سکے۔ کتاب میں آگے چل کر مصنف ’’نظریہ سازش‘‘ کو بھی، جسے عام طور پر تاریخ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، زیر بحث لے آئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ’’پاکستان کے ضمن میں بہت آسانی سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہاں سازشی نظریات کی آفاقیت مسلم ہے۔ پاکستان میں ہر خاص و عام کا من پسند کھاجا، سازشی نظریات ہیں۔ خواہ یہ گلی کا دانشور ہو، یا میڈیا پر چھایا ہوا دانشور، دونوں کی فکری زندگی، سازشی نظریات سے عبارت ہے۔‘‘ سازشی مائنڈسیٹ کی وضاحت میں کہتے ہیں، ’’سازشی ذہن ایسا ذہن ہوتا ہے، جو چیزوں اور واقعات کو ان چیزوں اور واقعات کے ماورا جا کر ان کی توجیہہ کرنے پر مائل ہوتا ہے۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ذہن، ماضی کی بازیافت کو مسترد کرتا ہے، اور مستقبل کو پہلے سے ہی جاننے کا دعوی کرتا ہے، اور حال کی حد تک ایک ایسی سازش کے اندرون میں زندہ رہتا ہے، جو اس نے اپنے اوپر خود ہی مسلط کی ہوتی ہے۔ گویا تاریخ کو اس سازشی مائینڈسیٹ کے زیر اثر دیکھنا بھی خود کو تاریخ کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔  آگے مصنف نے مختلف فلسفیانہ پہلوئوں سے ’’تاریخ کے تصویری نظریہ‘‘ کی وضاحت کی ہے۔  ’’تاریخ کا تصویری نظریہ‘‘ فلسفہ تاریخ کو سمجھنے کی ایک بامعنی اور مفید کوشش ہے، جس سے تاریخ نویس اور تاریخ کے قارئین دونوں استفادہ کر سکتے ہیں۔ 72 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دو سو روپے درج ہے۔ تبصرہ نگار: حارث بٹ  قصور مارشل لاء 1919 ناشر: لاہور شناسی فاؤنڈیشن ، مصنف: امجد ظفر علی سادہ سا سوال ہے کہ ایک اچھی کتاب کیا ہوتی ہے؟  سوال جتنا سادہ ہے ضروری نہیں کہ جواب بھی اتنا ہی سادہ ہو۔ ایک اچھی کتاب آپ کے علم و بصیرت کا اضافہ تو کرتی ہی کرتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ نیا علم، مختلف سوچنے کا زاویہ اور اس سے منسلک تاریخ کے کچھ ایسے پردے بھی ہٹاتی ہے، جن سے آپ پہلے ناواقف ہوتے ہیں۔ تاریخ سے جڑی ہوئی کتابیں مجھے ہمیشہ ہی بہت دل چسپ لگتی ہے۔ ان سے آپ کا وقت تو اچھا گزرتا ہی ہے مگر ماضی کے ایسے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں جن پر پہلے تو بہت سے پردے ہوتے ہیں مگر مطالعہ کے ساتھ ساتھ آپ کے سامنے سے وہ پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔  جلیاں والا باغ ہمارے پنجاب کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر ہر دور میں ہی کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے خواہ وہ کسی کتاب یا مضمون کی صورت میں ہو یا پھر ڈرامہ کی شکل میں مگر قصور کے محقق امجد ظفر علی صاحب نے "قصور مارشل لاء 1919" کے نام سے جو کتاب ترتیب دی کہ اس میں صرف جلیاں والا باغ ہی نہیں بلکہ یہ کتاب اس واقعہ سے پہلے اور بعد کے اثرات اور اس سے پہلے لگنے والے مارشل لاء کے اثرات اور پھر عوامی رد عمل سمیت بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔  کتاب نا صرف آپ کو قصور کی شان دار تاریخ بتاتی ہے بلکہ اس شہر کے عروج و زوال کی کچھ منفرد داستانیں بھی سناتی ہے۔ قصور شہر میں تعمیر ہونے والے قصر ہوں یا پھر شہر کے لیے لڑی جانی والی جنگیں، تمام کا احوال آپ کو مکمل تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں ملے گا۔ جلیاں والا باغ کی بنیاد مارچ اور اپریل 1919 میں بننے والا رولٹ ایکٹ بنا۔ یہ ایک ایسا قانون تھا جس میں حکومت کے آفیسروں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ وجہ بتائے بغیر کسی بھی فرد کو نظر بند کر سکتے ہیں۔ اس کے علاؤہ اخباروں کو بند کرنا بھی اس میں شامل تھا۔ رولٹ ایکٹ کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا مسودہ ایک سرکاری کمیٹی کی سفارشات پر بنا تھا جس کے صدر کا نام سر سڈنی رولٹ تھا۔  قانون سازی نے کچھ سیاسی معاملات کے ٹرائل کی اجازت بھی دی اور وارنٹ کے بغیر ہی مشتبہ افراد کو بغیر کسی مناسب عدالتی مقدمے کے قید کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ اس ایکٹ نے حکومت کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ دہشت گردی کی سرگرمیوں یا بغاوت کو فروغ دینے والی کسی بھی شخص کی جائیداد اور اثاثوں کو بھی ضبط کر سکتی ہے۔ اس رولٹ ایکٹ کے ہندوستان کی سیاسی ماحول پر بہت سے اثرات مرتب ہوئے۔ لوگوں کی دکانیں بند اور پھر مسمار کر دی گئیں۔ بھارتی اہلکاروں کو سلاخوں ں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ لوگوں نے جگہ جگہ ہڑتالوں کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح ریلوے کی ایک بڑی ہڑتال بھی ہو گئی۔ جب رولٹ ایکٹ کا مسودہ سامنے آیا تو عوام کو اس سے یہی تاثر ملا کہ حکومت اپنے بہت سے وعدوں سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے اور ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کو دبانا چاہتی ہے۔ بہت سے ہندوستانی رہنماؤں نے اس ایکٹ پر کھلے عام نفرت کا اظہار بھی کیا۔  یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ اس کتاب کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ رولٹ ایکٹ کے نتیجے میں ہونے والے تمام فسادات اور احتجاجات کے بارے میں بھی یہ کتاب آپ کو مکمل طور پر آگاہی دیتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ صرف جلیاں والا باغ ہی ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ اور بھی بہت سے واقعات درج ہوئے جب اس ایکٹ کے خلاف احتجاج ہوتا رہا مگر جس ایک واقعہ نے تاریخ میں اپنے نقوش سب سے زیادہ چھوڑے وہ یہ جلیاں والا باغ کا واقعہ ہی تھا۔  قصور مارشل لاء 1919 ایک ایسی شان دار کتاب ہے جو ماضی سے لے کر موجودہ قصور کا حال احوال سب کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ صرف یہی ایک کتاب نہیں بلکہ "قصور تاریخ کے آئینے میں" ایک ایسی کتاب ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جناب امجد ظفر علی صاحب اپنی زمین سے جڑے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی زمین کے ماضی سے واقف ہیں بلکہ اس کے حال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر مصنف جیسا زمین سے جڑنے والا شخص پاکستان کے ہر شہر کو میسر آ جائے تو اس شہر کی تاریخ ایسے نکھر کر سامنے آئے گی جیسے قصور کی تاریخ نکھر کر امجد ظفر علی صاحب کی بدولت ہمارے سامنے آئی ہے۔ تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد  ماں، عظمتوں کی داستان مصنف: علامہ عبدالستار عاصم، قیمت: درج نہیں ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ رابطہ نمبر(0300-0515101) ماں—ایک ایسا لفظ جو جذبات کی دنیا میں سب سے بلند مقام رکھتا ہے۔ یہ محض ایک رشتہ نہیں بلکہ محبت، ایثار، قربانی اور شفقت کا استعارہ ہے۔ جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو سب سے پہلے ماں کی گود کی گرمائش محسوس کرتا ہے، جو زندگی بھر اس کے وجود کو سنبھالے رکھتی ہے۔  علامہ عبد الستار عاصم نے اپنی تصنیف ’ماں: عظمتوں کی داستاں‘ میں اسی مقدس رشتے کو ادبی و فکری انداز میں امر کر دیا ہے۔ یہ کتاب ماں کی عظمت کو محض جذباتی انداز میں نہیں، بلکہ تاریخی، مذہبی، نفسیاتی اور سائنسی حوالوں سے اجاگر کرتی ہے۔ مصنف واضح کرتے ہیں کہ ماں صرف جسمانی پرورش نہیں کرتی بلکہ بچے کی فکری و روحانی تعمیر کا واحد ذریعہ ہے۔ کتاب میں درج مواد قاری کو یاد دلاتا ہے کہ: ٭ماں کی گود ہی پہلا مدرسہ ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ٭ اسلام نے ماں کو قدموں تلے جنت کا درجہ دیا ہے، جیسا کہ قرآن اور احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ٭ انسانی تاریخ، جنگوں اور معاشرتی تغیرات کے باوجود، ماں کا کردار ناقابلِ بدل ہے۔ جناب عطا الحق قاسمی کے مطابق، علامہ عبد الستار عاصم نے ماں کی عظمت کو نہایت محبت اور عقیدت کے ساتھ الفاظ میں ڈھالا ہے، اور یہ تحریر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج کتاب کے ہر صفحے پر جھلکتا  ہے۔  جناب سعد اللہ جان برق اپنی تنقید میں ایک تلخ مگر حقیقت پسندانہ پہلو اجاگر کرتے ہیں کہ جدید دور میں عورت کو مختلف کرداروں میں دھکیل کر اس سے اس کا اصل اور سب سے مقدس کردار—ماں کا کردار—چھین لیا گیا ہے، جس کا نقصان معاشرے کے اخلاقی و انسانی زوال کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ کتاب میں آیات قرآنی، احادیث، معروف شعراء کے اشعار، اور ادیبوں کی تحریریں شامل ہیں، جو اسے صرف ایک ادبی یا جذباتی تحریر سے بڑھا کر ایک جامع فکری دستاویز بنا دیتے ہیں۔ زاہد فخری کے پنجابی اشعار اس میں مقامی رنگ اور جذبات کی شدت کا اضافہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ ٭ ماں کا کوئی متبادل نہیں—نہ دولت، نہ تعلیمی ادارے، نہ ہی جدید سہولیات۔ ٭ ماں کے کردار کو کمزور کرنا دراصل آنے والی نسلوں کے اخلاق و کردار کو کمزور کرنا ہے۔ ٭ ماں کی عظمت کا اعتراف محض الفاظ میں نہیں بلکہ عمل میں ہونا چاہیے۔ ’ماں: عظمتوں کی داستاں‘ ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف پڑھنے والے کو اپنی ماں کی یادوں میں ڈبو دیتی ہے بلکہ اسے اس رشتے کی قدر اور ذمہ داری کا نیا شعور بھی عطا کرتی ہے۔ یہ کتاب ہر عمر اور ہر طبقے کے قاری کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جو دل پر گہرا نقش چھوڑتی ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل