Sunday, September 07, 2025
 

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025ء .....

 



پاکستان کیلئے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا بڑا چیلنج ہوگا، چین نے خود کو دنیا کی سپر پاور کے طور پر ثابت کیا۔  پاک بھارت جنگ میں کامیابی سے ہمیں سفارتکاری میں برتری حاصل ہے، نریندر مودی کی باڈی لینگوئج ہارے ہوئے شخص کی تھی، ہمیں اپنی بہتر عالمی ساکھ اور علاقائی تعلقات سے فائدہ اٹھانے کیلئے خود کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہوگا، پولرائزیشن ختم کرنا ہوگی  ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہا رخیال چین کے شہر تیانجن میں 31 اگست تا یکم ستمبر 2025ء شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا 25واں سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جسے تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جا رہا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومتی وفود نے شرکت کی اور اختتامی سیشن میں ’’تیانجن اعلامیہ‘‘جاری کیا گیا جبکہ آئندہ صدارت کرغزستان کے سپرد کی گئی۔ اجلاس کے دوران علاقائی سلامتی، انسداد دہشت گردی کے انسداد، تجارتی و اقتصادی تعاون، توانائی و گرین ٹرانزیشن، ڈیجیٹل معیشت، خلائی تعاون اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔ چین نے اس موقع پر ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک اور انرجی کوآپریشن پلیٹ فارم کے قیام کی تجویز دی، بیڈو سیٹلائٹ نظام کی رکن ممالک تک رسائی بڑھانے اور مقامی کرنسی میں لین دین کے فروغ پر بھی زور دیا گیا۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف اور ترجیحات کو اجاگر کیا اور سائیڈ لائنز پر چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن سمیت مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جن میں سی پیک کے اگلے مرحلے، توانائی و تجارتی تعاون اور خطے میں امن و استحکام کے امکانات پر بات چیت ہوئی۔ ملاقاتوں میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل حافظ عاصم منیر اور وفاقی وزراء بھی موجود تھے۔ اس سربراہی اجلاس کو نہ صرف خطے کے امن و ترقی بلکہ اقتصادی و تزویراتی تعاون کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔اس اہم اجلاس کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’SCO سمٹ اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد (ماہر امور خارجہ و ڈین سوشل سائنسز جامعہ پنجاب) گلوبل آرڈر میں تبدیلی اب زیادہ دور نہیںہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کونسے عوامل اہم ہیں۔ کیا اس میں صرف چین کا کردار ہے یا امریکی صدر کا بھی ہے؟ امریکی صدر مستقل مزاج نہیں ہیں، ان کی پالیسیوں میں بھی بے یقینی کی کیفیت ہے، اس کی ایک مثال بھارت کے ساتھ ٹیرف کے معاملے پر تناؤ ہے۔ امریکی صدر جب بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے تناظر میں ہوتی ہے، بھارت کو ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے مسلسل اس کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے چین اور روس کی طرف جھکاؤ کیا ہے۔ نریندر مودی 7 برس کے بعد چین گئے لیکن ان کی باڈی لینگوئج میں وہ جوش و ولولہ نظر نہیں آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔پاکستان کی اس وقت عالمی ساکھ بہتر ہے، ایس سی او سمٹ میں بھی ہمیں پذیرائی ملی۔ وزیراعظم پاکستان کی مختلف ممالک کے سربراہان ، وفود اور چینی کمیونٹی کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ پاکستان کیلئے اہم موقع ہے کہ وہ اس کانفرنس سے فائدہ اٹھائے، اس میں ہونے والی تمام گفتگو اور ملاقاتوں کا ریکارڈ بنایا جائے اور پھر فالو اپ کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھایا جائے۔ پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہوئی۔ پاکستان گزشتہ 6 ماہ سے لائم لائٹ میں ہے، ہمیں اپنی اس ساکھ کو کیش کرانا چاہیے ، دیکھنا یہ ہے کہ سول قیادت کتنی دیر تک اسے برقرار رکھ پائے گی۔ میرے نزدیک اب یہ سول قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ایس سی او سمٹ سے چین نے دنیا کو بڑی طاقت ہونے کا پیغام دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین واحد عالمی طاقت کے طور پردنیا کی قیادت کرنے کیلئے تیار ہے؟ چین نے پریڈ میںجدید ٹیکنالوجی سے لیس ہتھیاروں، میزائل، ڈرونز کے ساتھ ساتھ اپنی بری، فضائی اور بحری دفاعی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، اس نے خطے اور دنیا کو پیغام دیا کہ جو اس کے ساتھ چلے گا، اسے معاشی اور دفاعی لحاظ سے فائدہ ہوگا۔ پریڈ میں چینی لیڈر ماؤ زے تنگ کا لباس زیب تن کرکے دنیا پر واضح کیا گیا کہ چین اپنی شناخت اور اپنے لیڈر کی پالیسی کو برقرار رکھے گا۔ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ ہم چین کو جس سطح پر چاہیں لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس وقت امریکی میڈیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا چین امریکا مخالفت میں یہ سب کر رہا ہے یا پھر واقعی وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ کون کون ہے؟ ایس سی او سمٹ کے بعد امریکا کی چین اور روس پر تنقید بلاوجہ اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ دنیا اس وقت عدم توازن سے دو چار ہے۔ طاقت کا مرکز بدل رہا ہے اور اس میں چین کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ چین اپنے مقصد میں واضح ہے اور اس پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے۔ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی مختلف نوعیت ہوتی ہے، حالات و واقعات کے ساتھ تعلقات کبھی وقتی ہوتے ہیں اور کبھی دیر پا۔ ہم مشکل حالات میں بھی اپنے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ امید ہے اب بھی فیصلہ ساز ملکی مفادات کو دیکھتے ہوئے اچھے فیصلے کریں گے، کسی ایک کی طرف زیادہ جھکاؤ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ چین اپنے مفادات کیلئے خطے کے ممالک کے آپسی مسائل حل کرنے میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاک افغان تعلقات کی بہتری میں میں بھی اس کا کردار ہے۔ بھارت کو خطے میں یہ سسٹم نہ پہلے منظور تھا اور نہ ہی اب، بلکہ اس کی آئندہ آنے والی قیادت کو بھی یہ قابل قبول نہیں لہٰذا ہمیں چین کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان خطے کے امن میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ہمیں بھارت کو اس کی حرکتوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ چین بھی بھارتی سوچ کو بخوبی جانتا ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ اندرونی مسائل ہیں۔ ہم دنیا میں اس وقت ہی مضبوط ہوں گے جب اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے۔ اس وقت ضروری ہے کہ آپسی اختلافات اور وہ تمام مسائل جن سے فائدہ اٹھا کر دشمن یہاں سرائیت کر سکتا ہے، کا خاتمہ کریں اور آپس میں اتحاد پیدا کریں۔ اس وقت سیلاب ہمارے لیے بڑا مسئلہ ہے لیکن آنے والے دنوں میں معاشی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ڈاکٹر محمد ارشد (سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی) پاک بھارت جنگ پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوئی۔ ہماری بہادر اور قابل افواج نے جس انداز میں بھارت کو منہ توڑ جواب اور شکست دی، دنیا اس کی معترف ہے۔ اس نے ہماری عالمی ساکھ کو اتنا بہتر کیا کہ ایس سی او سمٹ میں چار بڑی طاقتوں میں کھڑا کر دیا۔ پاک بھارت جنگ میں بھی چین کی سپورٹ پاکستان کو حاصل تھی۔ ہم نے نہ صرف بھارت کے طیارے گرائے بلکہ اس کے سارے نظام کو مفلوج کر دیا۔ ہمارا ایئر ڈیفنس سسٹم بہترین ہے، پاکستان اس وقت دنیا میں لیڈ کر رہا ہے۔ ہمارے انجینئرز، ٹیکنالوجی کے ماہرین، آئی ٹی و دیگر ایکسپرٹس نے ایسا بہترین سسٹم تیار کیا ہے جس پر دنیا حیران ہے اور ہماری تعریف بھی کر رہی ہے۔ بھارت کی مشکل حالت دیکھ کر امریکا نے اسے بچایا اور اب تک بھارت کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ چین اس وقت دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔ چین پر ایک روپیہ بھی قرض نہیں جبکہ امریکا پر 37 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے جس میں سے 6.5 ٹریلین ڈالر بیرونی جبکہ باقی سارا قرض اندرونی ہے لہٰذا چین کو امریکا پر معاشی برتری حاصل ہے، اب اس نے پریڈ میں دفاعی پاور شو کرکے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ معاشی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک بڑی فوجی طاقت بھی ہے۔ امریکا کی معیشت جنگی ہتھیار اور تیل پر چل رہی ہے۔ اب جنگیں ختم، دنیا امن کی طرف بڑھ رہی ہے لہٰذا اس کی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس کے علاوہ چین پٹرول کے متبادل انرجی کے ذرائع کے فروغ کیلئے تیزی سے کام کر رہا ہے۔ دنیا کا پٹرول پر انحصار کا خاتمہ امریکا کی معاشی موت ہے۔ آنے والے وقت میں پٹرول کو ماحول کو آلودہ کرنے والا مادہ قرار دیا جائے گا اور دنیا اس کا استعمال بالکل چھوڑ دے گی، سب کچھ متبادل ذرائع پر منتقل ہو جائے گا۔ افغانستان، ایران اور پاکستان، خصوصاََ بلوچستان ایسے معدنیات کے حوالے سے ذرخیز ہے جو توانائی کے متبادل ذرائع کیلئے اہم ہیں۔ چین بھی یہ حقیقت جانتا ہے، ہمیں اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ چین معاشی حوالے سے امریکا کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے، اب اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ چین دنیا میں یوان میں تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ چین کی گارنٹی ہے کہ ایک سال تک ریٹ فکس رکھے گا۔ پاکستان اور چین، دفاعی ٹیکنالوجی میں ایک ہیں، آنے والے وقت میں پاکستان کی ’وار اکانومی‘ ہوگی، ہم دنیا کو جنگی ٹیکنالوجی اور ہتھیار بیچ کر پیسہ کمائیں گے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ جمہوری ادوار اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ نئی حکومت، سابق حکومت کی تمام پالیسیوں کو یکسر بدل دیتی ہے لہٰذا ہمیں اچھی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا، اس سے نہ صرف عوام اور سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھے گا بلکہ ملک ترقی بھی کرے گا۔ سلمان عابد (سینئر تجزیہ کار) ایس سی او سمٹ میں چین نے خود کو دنیا کے سامنے ایک بڑی عالمی طاقت اور سپر پاور کے طور پر پیش کیا۔ اس نے پہلی مرتبہ واضح کر دیا کہ وہ خود کو ایک سپر پاور کے کردار میں دیکھ رہا ہے۔ امریکا کی طرف سے بھارت کے ساتھ معاشی جنگ کے اعلان کے بعد سے خطے میں چین کی اہمیت بڑھ گئی ہے، اب بھارت کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہے۔ پاک چین تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں لہٰذا چین اب ایک بڑی حقیقت بن چکا ہے۔ پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کو سفارتکاری میں برتری حاصل ہے اور یہ سول ملٹری دونوں اعتبار سے ہے۔اس کے علاوہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی بھی کم ہوئی ہے۔ ہمیں امریکا بھارت سردمہری کا یہ فائدہ ہواکہ اب دونوں سپر پاورز پاکستان کے قریب ہیں۔ خود فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں دونوں طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس وقت خطے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ امریکا اور بھارت کے سفراء مل کر لابنگ کر رہے ہیں تاکہ حالات میں بہتری لائی جاسکے، دونوں ملک ایک دوسرے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ چین کیلئے بھی بھارت تجارتی منڈی ہے لہٰذا وہ بھی اسے نظرانداز نہیں کر سکتا ۔ میرے نزدیک آنے والے دنوں میں امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا پاکستان کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔امریکا چاہے گا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ اس انداز میں تعلقات آگے نہ بڑھیں جس سے اس کے مفادات کو نقصان پہنچے، یہی صورتحال امریکا کے حوالے سے چین کی بھی ہوگی۔ سفارتی تعلقات میں معاشی مفادات سب سے اہم ہوتے ہیں۔ چین اس وقت پاک افغان تعلقات بہتر کروانے میں بھی کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان بھی چاہتا ہے کہ خطے میں امن قائم ہو ، یہ پاکستان اور خطے کے مفاد میں بہتر ہے۔ یہاں امن قائم ہوگا تو خطے میں معاشی ترقی کا سفر تیز ہوجائے گا۔ ایس سی او سمٹ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی، مصافحہ بھی نہیں ہوا۔ اس وقت چین اور امریکا اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر کروا سکتے ہیں۔ پاکستان کو امریکا کی سپورٹ نے بھارت کو دھچکا دیا اور بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کہ بعد سے اس کی پالیسی میں جارحیت نظر نہیں آرہی۔ دہشت گردی اس خطے کا مجموعی مسئلہ ہے لہٰذا ایران، افغانستان، پاکستان اور بھارت سمیت خطے کے تمام ممالک کو علاقائی تعاون کے ذریعے اسے ختم کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک آنے والے وقت میں دہشت گردی کا خاتمہ بھی ایس سی او کاایجنڈا بنے گا۔ امریکا اور چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی مزید بہتر ہوئے ہیں جبکہ بھارت کو علاقائی سطح پر مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کے آرمی چیف نے ایس سی او سمٹ میں شرکت کی، چین بھی جانتا ہے کہ سکیورٹی کا مسئلہ فوج نے حل کرنا ہے۔ سی پیک کی گارنٹی بھی پاک فوج نے ہی دی تھی۔ ماضی میں دہشت گردی کے واقعات اور چینی باشندوں کی ہلاکت پر آج بھی چین میں تشویش پائی جاتی ہے، ہمیں سکیورٹی صورتحال مزید بہتر بنانے پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارا گورننس سسٹم مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، اس پر چین اور آئی ایم ایف بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں لہٰذا ہمیں مصلحتوں سے نکل کر بیوروکریٹک ریفارمز لانا ہوں گے۔ ملک میں سیاسی پولرائزیشن زیادہ ہے، جب تک ہم اندرونی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے، ہمیں اپنے علاقائی تعلقات اور بین الاقوامی ساکھ سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ معاشی صورتحال کی بات کریں تو ہم ڈیفالٹ سے بچے ہیں لیکن کوئی بڑی گرانٹس تاحال موصول نہیں ہوئیں، صرف وعدے اور ’ایم او یوز‘ ہی ہوئی ہیں۔ 2022ء میں جب سیلاب آیا تو بلاول بھٹو نے مہم چلائی اور فنڈز اکٹھے ہوئے لیکن وہ بیشتر منصوبے نہیں بن سکے۔ اس طرح کی صورتحال سے اعتماد کم ہوتا ہے۔ امریکا کی پاکستان کو حد سے زیادہ سپورٹ بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ پاکستان نیشنل سکیورٹی پالیسی میں واضح کر چکا ہے کہ وہ خطے کے معاشی مفادات کو فروغ دے گا اور کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ امریکا ہم سے کیا چاہتا ہے؟ کیااس سب سے امریکا ایران کشیدگی کا کوئی تعلق تو نہیں؟بھارت یہاں افغانستان کے ذریعے پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی سکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل