Loading
پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیلاب ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔ ہر سال مون سون میں مختلف اقسام کے سیلاب ملک کے بیشتر حصوں کو متاثر کرتے ہیں، جن سے انسانی جانوں، فصلوں اور معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں رہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی نے ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو ایسی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو انسانی زندگیوں اور ملکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ہوں گی۔ اس تحریر میں ہم سیلاب کی اقسام، ان سے بچاؤ اور انتظام کے طریقے، اور سیلابی پانی کے مؤثر استعمال پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ سیلاب کی اقسام ویسے تو عالمی سطح پر سیلاب کو بہت ساری اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن اس تحریر میں ہم پاکستان میں درپیش آنے والی اقسام کا ہی ذکر کریں گے۔ فلیش فلڈز فلیش فلڈز سے مراد اچانک اور تیز رفتاری سے آنے والے سیلاب ہوتے ہیں۔ یہ سیلاب کم وقت میں انتہائی شدید بارش کے ہونے یا کسی ڈیم کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس مون سون میں شمالی پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں آنے والے سیلاب فلیش فلڈز تھے جنہوں نے بہت ساری سڑکوں، پلوں اور مکانات کو تباہ کیا۔ فلیش فلڈز کی شدت اور رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع تک نہیں دیتے۔ فلیش فلڈز کی ایک بڑی وجہ کلاؤڈ برسٹ بھی ہے۔ کلاؤڈ برسٹ ایک قدرتی عمل ہے جس میں مختصر وقت میں کسی چھوٹے علاقے پر بے تحاشا بارش ہوتی ہے جو کہ اکثر لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بھی بنتی ہے۔ اگرچہ یہ عمل محدود علاقے میں ہوتا ہے، لیکن اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ چند لمحوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دیتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال بونیر میں آنے والا سیلاب ہے۔ ریورائن فلڈز ریورائن فلڈز سے مراد وہ سیلاب ہیں جو پانی کے دریاؤں کے کناروں سے باہر آنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سیلاب مسلسل بارش کے ہونے یا بالائی علاقوں سے پانی کے اضافی اخراج کے نتیجے میں آتے ہیں۔ حالیہ مون سون میں دریائے چناب، راوی اور ستلج میں آنے والے سیلاب دراصل ریورائن فلڈز ہیں۔ اس طرح کے سیلاب کا دورانیہ کئی دن یا ہفتے تک ہوسکتا ہے۔ یہ سیلاب بڑے پیمانے پر آبادی، کھیتوں، مویشیوں اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کی مثال 2010 کا سیلاب ہے، جس میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور ملکی معیشت کو تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اربن فلڈز اس سے مراد شہری علاقوں میں آنے والے سیلاب ہیں جو کہ زیادہ بارش کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ شہری علاقوں میں سیلاب کی سب سے بڑی وجہ ناقص نکاسیٔ آب اور بے ہنگم تعمیرات ہیں۔ حالیہ مون سون میں کراچی، اسلام آباد اور پنجاب کے کئی بڑے شہروں بشمول لاہور، راولپنڈی سیالکوٹ میں اربن فلڈنگ دیکھنے ملی۔ اربن فلڈنگ اگرچہ قلیل وقت کےلیے ہوتی ہے لیکن شہری علاقوں میں نظام زندگی کو مفلوج کرنے اور جانی و مالی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات سیلاب سے بچاؤ کی منصوبہ بندی اس کی قسم کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ مثلاً فلیش فلڈز سے بچاؤ کےلیے وہ عوامل درکار ہیں جو بارش سے بہنے والے پانی کی رفتار کو کم کرنے میں مددگار ہوں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام جنگلات کا بڑھانا اور درخت کاٹنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اس طرح پہاڑی علاقوں میں چیک ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کےلیے چھوٹے ڈیم بنانا ضروری ہے۔ فلیش فلڈز سے نقصان کی ایک اور بڑی وجہ پانی کے قدرتی راستوں پر بننے والی غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ اس طرح کی تعمیرات کا خاتمہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ ریورائن فلڈز سے بچاؤ کےلیے دریاؤں کے پشتے مضبوط کرنا اور حفاظتی بند بنانا ناگزیر ہیں۔ ڈیم پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن دریائے چناب، راوی اور ستلج پر ڈیم کےلیے مطلوبہ جغرافیہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیں بہاؤ کنٹرول کرنے کے متبادل طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسے دریاؤں میں پانی کے کنٹرول کےلیے ویرز کی تعمیر، سیلابی نالوں کا قیام اور سیلابی پانی کے روکنے کےلیے بڑے تالابوں کی تعمیر کرنا ضروری ہے۔ اربن فلڈ کا بڑا سبب ناقص نکاسیٔ آب کا نظام ہے۔ اس سے بچاؤ کےلیے شہروں میں نکاسی آب کا جدید نظام بنانا، پرانی سیوریج لائنوں کی مرمت کرنا، اور نکاسی کے نالوں کی بروقت صفائی کرنا ضروری ہے۔ اربن فلڈنگ کا ایک اور جدید حل زیر زمین اسٹوریج ٹینک کا قیام بھی ہے جس سے نہ صرف سیلاب پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ سیلابی پانی کو استعمال میں لا کر بہت سا پیسہ اور وسائل کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اربن فلڈنگ کے مسئلے کا ایک اور قابل عمل حل زیر زمین پانی کا ریچارج ہے، اس مقصد کےلیے پانی کے اکٹھے ہونے والی جگہوں پر ریچارجنگ بور نصب کیے جا سکتے ہیں۔ سیلابی انتظام اور حکمت عملی سیلاب کے بعد نقصان کم کرنے کےلیے فوری اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیلابی صورتحال میں متاثرہ علاقوں تک بروقت اطلاع کا نہ ہونا زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے، اس سلسلے میں سب سے اہم کام لوگوں تک جلد از جلد سیلاب کی اطلاع کا پہنچانا اور انہیں متاثرہ علاقوں سے باہر نکالنا ہے۔ سیلاب کی پیش گوئی کےلیے جدید وارننگ سسٹم، مصنوعی سیاروں اور ریڈار ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پیغامات کی رسائی کےلیے ایس ایم ایس الرٹس، مساجد کے لاؤڈ اسپیکر اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں بلند مقامات پر محفوظ پناہ گاہیں قائم کی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں اور مویشیوں کو بروقت وہاں منتقل کیا جاسکے۔ ایمرجنسی انخلا کےلیے کشتیاں اور ریسکیو گاڑیاں دستیاب ہوں۔ سیلاب کے بعد امدادی ٹیمیں کھانے پینے کا سامان، ادویہ اور صاف پانی فراہم کریں اور پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو روکنے کےلیے میڈیکل ٹیمیں تعینات کی جائیں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی طرز پر فلڈ شیلٹرز کا قیام بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ سیلابی پانی کا مؤثر استعمال سیلابی پانی کو عموماً تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر جدید طریقوں سے اسے ذخیرہ کیا جائے تو یہ زیر زمین پانی کی ریچارجنگ، آبی ذخائر اور آبپاشی کے لیے قیمتی وسیلہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کے دوران سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ ملک کو سال بھر پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔ اگر اس پانی کو ڈیمز اور تالابوں میں محفوظ کیا جائے تو خشک موسم میں کھیتوں کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح بڑھانے کے لیے ریچارجنگ بور اور تالاب بنائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان اگر بروقت منصوبہ بندی کرے تو سیلابی پانی کو قیمتی وسیلے میں بدل کر پانی کے بحران سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل