Tuesday, September 09, 2025
 

نیپال میں سوشل میڈیا پابندی پر ہنگامے پھوٹ پڑے؛ کرفیو نافذ؛ 14 مظاہرین ہلاک

 



نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف بڑے نوجوان بڑے پیمانے پر سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا جس نے تشدد کی شکل اختیار کرلی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق "جنریشن زی" احتجاج نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے علاقے مائتیگھرا میں ایک قومی یادگار کے مقام سے شروع ہوا۔ اس احتجاج کا انعقاد نوجوانوں کے سماجی تنظیم ہامی نیپال نے کیا جسے 2015 میں قائم کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا بنیادی مطالبہ "قانون کی بالادستی، شفافیت اور انصاف" ہے۔ مظاہروں میں ہزاروں نوجوان اسکول اور کالج یونیفارم پہن کر جمع ہوگئے اور سڑک کو بلاک کرکے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے۔ نوجوانوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف بھی ناراضی کا اظہار کیا اور بدعنوان حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی وصولی تو کی جاتی ہے لیکن ان کا حساب کتاب موجود نہیں۔ علاوہ ازیں سیاستدانوں کے بچوں کی شاہانہ زندگیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس نے عوامی غصے کو مزید بڑھایا۔ صورتحال اس وقت بگڑی جب کچھ مظاہرین پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے۔ جس پر پولیس آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ عینی شاہدین کے مطابق کئی افراد خون آلود حالت میں ایمبولینسوں میں لے جائے گئے۔ اب تک 14 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ درجنوں زخمی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ نیشنل ٹراما سینٹر کے ڈاکٹر دیپیندرا پانڈے نے بتایا کہ کم از کم 10 افراد کو سر اور سینے میں گولیاں لگیں اور ان کی حالت نازک ہے۔ ان جھڑپوں کے بعد دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا لیکن اب تک صورت حال پولیس کے قابو سے باہر ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برسوں میں کئی بڑے اسکینڈلز منظرعام پر آئے لیکن اب تک کسی تحقیقات کے شفاف نتائج سامنے نہ آئے۔ کرپشن کے ان کیسز میں 2017 کا ایئربس معاہدہ بھی شامل ہے جس میں نیپال ایئرلائنز کو دو A330 طیارے خریدنے پر قومی خزانے کو 1.47 ارب روپے (10.4 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا تھا۔ کئی اعلیٰ حکام کو کرپشن کے الزام میں سزا بھی سنائی گئی لیکن عوامی اعتماد بحال نہ ہوسکا۔ یاد رہے کہ نیپال میں حکومت نے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، لنکڈ اِن اور یوٹیوب سمیت 26 بڑی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی عائد کردی۔ حکومت نے ان پلیٹ فارمز کو 3 ستمبر تک رجسٹریشن کی مہلت دی تھی تاکہ وہ مقامی نمائندہ اور شکایات کے ازالے کے لیے ذمہ دار شخص مقرر کریں۔ چند پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک اور وائبر نے رجسٹریشن کرائی بھی تھی لیکن اکثر نے حکومتی احکامات پر کان نی دھرے جس پر اُن ویب سائٹس پر پابندی لگا دی گئی۔ واضح رہے کہ نیپال کی 30 ملین آبادی میں سے تقریباً 90 فیصد افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور تقریباً 7.5 فیصد لوگ بیرونِ ملک مقیم ہیں یہ پابندی عوام کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنی ہے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل