Loading
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچاؤ کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر موثر حکمت عملی اور خطرے سے دوچار علاقوں میں جامع منصوبہ بندی تشکیل دے رہے ہیں، جب کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ دوسری جانب پنجاب کے بعد تباہ کن سیلابی ریلے سندھ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، گڈو بیراج پر پانی کی آمد میں اضافے سے درمیانے درجے کا سیلاب ہے جب کہ پانی کا بہاؤ بڑھ کر 3 لاکھ 90 ہزارکیوسک ہوگیا ہے۔ وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف کا موسمیاتی تبدیلی اور خطرے سے دوچار علاقوں میں جامع منصوبہ بندی تیار کرنے کا بیان حقیقت پر مبنی بہترین حکمت عملی کی علامت ہے۔ پاکستان خود ماحولیاتی آلودگی میں بہت محدود حصہ رکھتا ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں میں اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک خطے میں جغرافیائی نازک صورتحال، بگڑتے ہوئے موسموں اور حکومتی انتظامی کمزوریوں کا مجموعی اندازہ پیش کرتا ہے۔ رواں برس میں پاکستان کو گزشتہ برسوں سے کہیں زیادہ تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔ جون سے شروع ہونے والا موسمی سلسلہ اب تک جاری ہے اور مجموعی طور پر ملک کے مختلف خطوں خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سندھ ایک بڑے انسانی اور ماحولیاتی بحران کے دہانے پرکھڑا ہے۔ ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق گڈو بیراج پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے جو ان دنوں ہونے والی طوفانی بارشوں کے ساتھ ٹکرا جائے گا۔ دریاؤں کے شریانی بہاؤ اور موسلا دھار بارشوں کا یہ خطرناک امتزاج نچلے علاقوں کو ڈبو سکتا ہے اور صوبے کی پہلے سے ہی نازک صورتحال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ یہ موسمی نظام، جو بھارت کے مدھیہ پردیش سے اٹھا ہے، تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپور خاص، حیدرآباد، کراچی، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور دیگر اضلاع میں مسلسل بارشیں لائے گا، اگرچہ صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے سرخ انتباہ جاری کردیا ہے، لیکن ماضی کے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست تیزی اور مؤثر انداز میں جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ عوام کو خدشہ ہے کہ ناقص انتظام، کمزور نکاسی آب اور غیر مستحکم ڈھانچے ان بارشوں کو ایک اور تباہی میں بدل سکتے ہیں جو روکی جا سکتی تھی۔ گڈو بیراج پر پانی کا بہاؤ پہلے ہی 3 لاکھ 37 ہزار کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے جس سے خطرہ ہے کہ اگر اچانک پانی چھوڑا گیا تو پورے اضلاع ڈوب سکتے ہیں، اگرچہ حکام بدنظمی کی تردید کررہے ہیں، مگر ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کو روک کر پھر یکبارگی چھوڑنا تباہی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں بلدیاتی تیاریوں کی کمی پہلے ہی سنگین صورتحال کو جنم دے چکی ہے اور شہری سیلاب کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ بیراج جو بیسویں صدی کے وسط میں تعمیر کیے گئے تھے، اب موسمیاتی شدت کے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ماحولیاتی تبدیلی، تیز رفتار شہری آبادی اور ادارہ جاتی سستی نے مل کر سندھ کو ایک ایسے محاذ میں بدل دیا ہے جہاں انسانی تکالیف کو روکا جا سکتا تھا مگر نہیں روکا گیا۔ 2010 کے مہلک سیلابوں سے لے کر 2022 کی تباہ کن بارشوں تک، اس ملک نے سبق نہیں سیکھا۔موجودہ صورتحال اپنی شدت میں 1988 کے سب سے بڑے سیلاب کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔ یہ کربناک حالات اس حقیقت کی علامت ہیں کہ پاکستان کی موسمیاتی کوتاہی صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ منظم حکومتی نظام کی ناکامی بھی ہے۔ موسم کی غیر متوقع صورتحال، موسمیاتی شدتوں میں اضافہ، بگڑے دریاؤں کے معاملات اور انتظامی ناکامی کے امتزاج نے اس سنگینی کو جنم دیا ہے۔ یہ صورتحال محض مقامی یا وقتی نقصان سے بڑھ کر ہے، یہ سماجی و معاشی ڈھانچے، زر مبادلہ، پیداوار اور ریاستی قوتِ کار پر ایک مستقل اور گہرے اثر کا باعث بن رہی ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق مالی سال 26-2025 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کی شرح نمو صفر سے ایک فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جو کہ عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کی 3.6 فیصد کی پیش گوئی سے کہیں کم ہے۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ 4.2 فیصد شرح نمو کا ہدف زمینی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ زرعی شعبہ بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار ہو رہا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا تھا جو جی ڈی پی کے 7 سے 8 فیصد کے برابر تھا، اس بار بھی معیشت کو زیرو گروتھ تک گرنے کا خطرہ ہے جب تک دیگر شعبے غیر معمولی بحالی نہ دکھائیں۔ خوراک کی شدید قلت، مہنگائی میں بے پناہ اضافہ اور روزمرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ عوام پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔ دوسری جانب وسطی اور جنوبی پنجاب میں چاول کی فصل کا تقریباً 60 فیصد، کپاس کا 35 فیصد اور گنے کا 30 فیصد ضایع ہو چکا ہے۔ چناب، راوی اور ستلج کے کنارے 18 لاکھ سے زائد افراد شدید متاثر ہوئے ہیں، جب کہ سیلابی ریلے اب دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے لیے مقررہ زرعی اہداف اب حاصل نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ نقصانات پہلے ہی اربوں روپے تک پہنچ چکے ہیں، جس سے دیہی معیشت خطرے میں ہے اور مجموعی معیشت پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے، اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ایک طویل انسانی اور معاشی ایمرجنسی کی بنیادی وجہ بنے گا۔ بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث پاکستان میں کپاس کی فصل اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب میں کپاس کی سب سے زیادہ پیداوار کے حامل ضلع بہاولنگر میں کپاس کی فصل 50 فیصد تک متاثر ہوچکی ہے اور اب پنجاب و سندھ کے تمام بڑے کاٹن زونز جن میں ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، گھوٹکی، خیرپور میرس، نواب شاہ، سانگھڑ، میر پور خاص، حیدر آباد اور عمر کوٹ شامل ہیں۔ یہ علاقے بھی کپاس کی فصل سیلاب اور بارشوں کی لپیٹ میں ہیں، متعدد کاٹن زونز میں مزید تیز بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے جس کے باعث پاکستان میں کاٹن ایئر 2025۔26 کے دوران کپاس کی فصل کو خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیلاب ایک بڑھتا ہوا خطرہ بن چکا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ سیلاب صرف قدرتی آفات نہیں رہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص منصوبہ بندی نے ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کی منصوبہ بندی اس کی قسم کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ شہروں میں اربن فلڈ کا بڑا سبب ناقص نکاسی آب کا نظام ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے شہروں میں نکاسی آب کا جدید نظام بنانا، پرانی سیوریج لائنوں کی مرمت کرنا اور نکاسی کے نالوں کی بر وقت صفائی کرنا ضروری ہے۔ اربن فلڈنگ کا ایک اور جدید حل زیر زمین اسٹوریج ٹینک کا قیام بھی ہے جس سے نہ صرف سیلاب پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ سیلابی پانی کو استعمال میں لا کر بہت سا پیسہ اور وسائل کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اربن فلڈنگ کے مسئلے کا ایک اور قابل عمل حل زیر زمین پانی کا ریچارج ہے، اس مقصد کے لیے پانی کے اکٹھے ہونے والی جگہوں پر ریچارجنگ بور نصب کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں آبی وسائل کے انتظام کو قومی ترجیح بنانا ہوگا۔ دریاؤں کے کناروں پر حفاظتی بند مضبوط کرنے اورکچے علاقوں میں زمین کے استعمال کے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ندی نالوں کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ دوسری طرف بڑے پیمانے پر شجر کاری ناگزیر ہے تاکہ بارش کے پانی کو جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت بحال ہو سکے، اگر ہم درختوں کو محض ایندھن اور لکڑی کے کاروبار کے لیے کاٹتے رہے تو زمین ہر سال ہماری بستیاں ہم سے چھین لے گی۔ سیلابی پانی کو عموماً تباہی کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر جدید طریقوں سے اسے ذخیرہ کیا جائے تو یہ زیر زمین پانی کی ریچارجنگ، آبی ذخائر اور آبپاشی کے لیے قیمتی وسیلہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کے دوران سمندر میں ضایع ہوجاتا ہے، جب کہ ملک کو سال بھر پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے، اگر اس پانی کو ڈیمز اور تالابوں میں محفوظ کیا جائے تو خشک موسم میں کھیتوں کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح بڑھانے کے لیے ریچارجنگ بور اور تالاب بنائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان اگر بروقت منصوبہ بندی کرے تو سیلابی پانی کو قیمتی وسیلے میں بدل کر پانی کے بحران سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ سیلاب صرف قدرت کا اظہار نہیں ہیں بلکہ حکمرانوں کی غلطیوں کا نتیجہ بنے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم کا صوبائی حکومتی اداروں کے ساتھ ’’ موثر حکمت عملی اور مربوط منصوبہ بندی‘‘ پیدا کرنے کا اشارہ، نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک مثبت سمت میں قدم ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل