Tuesday, September 09, 2025
 

ہم نے اپنے قیمتی پچاس سال ضایع کر دیے

 



ہم اگر اپنی 78 سالہ سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یقیناً احساس ہوگا کہ جمہوریت کے شوق میں ہم نے اپنی معاشی ترقی و خوشحالی کو قربان کر دیا اور ستم یہ کہ جمہوریت کے ثمرات بھی ابھی تک صحیح معنوں میں سمیٹ نہ سکے۔ ایوب خان کے آمرانہ دور میں بے شک جمہوریت پسندوں کو ٹائٹ کر کے رکھا گیا تھا لیکن کم از کم اتنا تو ضرور ہوا کہ اس دس سالہ دور میں ہم نے معاشی اور اقتصادی استحکام حاصل کر لیا تھا۔ ہم ایک بہت جلد تیزی سے ترقی کرتے پاکستان کے نام سے جانے اور پہچانے جانے لگے تھے۔ دنیا ہمارے پروگراموں کی معترف ہونے لگی تھی اورکوریا جیسے کئی ممالک ہمارے پانچ سالہ اور دس سالہ ترقیاتی منصوبوں سے متاثر ہو کر اُنہیں اپنے یہاں بھی اپنانے لگے تھے۔ یہ وہ دور تھا جو سیاسی اتھل پتھل کے کئی سال ضایع کرنے کے بعد حاصل ہوا تھا۔ قوم نے باوجود اختلاف کے اس غیر جمہوری دور کو اس لیے قبول اور منظور کر لیا کیونکہ اس نے ملک کے اندر ایک استحکام پیدا کیا تھا۔ لوگ روز روز کے تماشوں سے بیزار ہوچکے تھے اور وہ جمہوریت کے نام پر مزید بربادی کے متحمل ہونا نہیں چاہتے تھے۔ دنیا میں آج بھی بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں جمہوری نظام نہیں ہے لیکن وہ ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے ایک ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ قوموں کی ترقی کے لیے جمہوریت لازم وملزوم ہے ہمارے خیال میں درست توجیح نہیں ہے۔ ہاں البتہ کسی آمرانہ دور سے جمہوریت یقینا ایک بہتر نظام حکومت ہے، مگر ہمارے یہاں اس کا غلط مطلب لے لیا گیا کہ کسی بھی اچھے آمرانہ دور کے مقابلے میں بری جمہوریت بھی ایک بہتر نظام حکومت ہے۔ ہم جمہوری دور کو ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔ ہمارے یہاں تمام جاگیردار اور مالدار لوگ اس جمہوری نظام کا حصہ بن کر اس سے مستفید ہونے لگے اور اپنے جائز اور ناجائز مفادات کا تحفظ کرنے لگے، جو چند لوگ غریب اور متوسط طبقہ سے اس میں شامل بھی ہوئے تو وہ بھی اس نظام کے اسیر بن کر مال بنانے لگے۔ جن کے پاس کل تک ایک کارخانہ یا کوئی فیکٹری تک نہیں تھی آج کئی کئی ملوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ وہ اِن ناجائز پیسوں کے بل بوتے پر اس قدر طاقتور اور بااثر ہوچکے ہیں کہ وقت کے حکمرانوں کو بھی بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں۔ بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لے کر معاف کروانے والوں میںہم بہت سے نام ایسے ہی لوگوں کے دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد کتنے امیروں کو دیکھ لیں جنھوں نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے بڑی بڑی جاگیریں بنا ڈالی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر یہ ساری بربادی اور تباہی ایوب خان دور کے بعد ہی شروع ہوئیں، اس سے پہلے سیاست کا اتنا برا حال نہیں تھا۔ ایوب کابینہ سے بغاوت کا علم بلند کر کے ذوالفقار علی بھٹو نے سب سے پہلے جمہوریت کے نام پر ایک بھرپور تحریک شروع کی اور پھر یحییٰ خان کو مجبور کر کے ملک کے اندر فوراً بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کروائے، لیکن جب یہ عام انتخابات مقررہ تاریخ پر ہوگئے اور جن کے صاف اور شفاف ہونے پر کسی کو بھی شک و شبہ نہیں تھا سابقہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی واضح اکثریت سے جیت گئی تو بھٹو صاحب کو اپنے ارمانوں پر پانی پھرتا دکھائی دینے لگا اور اُنھوں نے اقتدار کی پرامن منتقلی میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے۔  پیپلز پارٹی اپنے اس ناجائز اقدام کے دفاع میں کچھ بھی کہتی رہے لیکن ہم اس تاریخی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو صاحب کا یہ اقدام بنیادی حیثیت کا حامل تھا۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ اس کے نتائج کے طور پر ہوا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد اس بچے کچے پاکستان میں معروضی حالات کے نتیجے میں بھٹو صاحب اس ملک کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹر بن گئے۔ اس منصب پر فائز ہوتے ہوئے اس تباہ شدہ پاکستان کو شکست کے اثرات سے باہر نکالنا اب ان کی لازمی مجبوری اور ضرورت بن چکی تھی۔ اُنھوں نے بہرحال اس موقع کو اپنے سوشلسٹ نظریات کے مطابق پاکستان کے خدو خال بدلنے کے لیے استعمال کیا اور ہنگامی بنیادوں پرکام شروع کر دیا۔ قوم کو یہ باورکرانے کے شوق میں کہ ملک کی ساری دولت چند امیر لوگوں کی بجائے اُس کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے تمام فیکٹریاں، کارخانے ، بینکس اور یہاں تک کہ اسکول اور کالجز بھی نیشنلائزڈ کردیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائیویٹ سیکٹر سے یہاں سرمایہ کاری اور پیسہ لگانا اب مکمل طور پر بند ہوگیا تو دوسری طرف سرکار کی تحویل میں لیے گئے، اداروں کا حال بھی دیگر سرکاری محکموں کی طرح برباد ہو کر رہ گیا۔ اُن کے جانے کے بعد یہاں ایک بار پھر گیارہ سالہ دور ایک غیر جمہوری شخص جنرل ضیاء کا آگیا۔ اس شخص نے بھی اپنے گیارہ سال افغان جنگ کی نذر کردیے اور جاتے جاتے آئین میں ترمیم کر کے ایسی بارودی سرنگ بچھا دی جس نے کسی بھی اگلے جمہوری دور کو اپنی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی۔ دو دو اور ڈھائی سالوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگی حکومتوں کو فارغ کیا جاتا رہا تاکہ یہاں سیاسی اور معاشی استحکام قائم ہو ہی نہ سکے اور عوام سیاستدانوں سے بیزار ہوجائیں۔ پھر پرویز مشرف کا آمرانہ دور شروع ہو جاتا ہے اور وہ بھی دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بن کر نہ صرف اپنے ملک کو بھول جاتے ہیں بلکہ یہاں بھی بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ ہماری تباہی کے یہ دس سال بہت ہی بھیانک تھے ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہم ابھی تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ پھر 2011 میں پس پردہ قوتوں نے ایک نئے سیاسی فریق کا ہاتھ پکڑ کر اسے طاقتور بنانا شروع کردیا۔ وہ جو دس پندرہ سالوں سے سیاسی میدان میں قدم جمانے کے لیے جہاں جہاں کی خاک چھان رہا تھا مگر کامیابی اس کے قدم چوم نہیں رہی تھی، اس قدر عظیم بنا دیا گیا کہ وہ غرور اور تکبر میں مبتلا ہوکر یہ سمجھنے لگا کہ وہ اب کچھ بھی کر لے کوئی اسے چھو نہیں سکے گا، مگر زمینی خداؤں کو بہرحال اپنے اس غرور اور تکبر کی سزا تو ملا ہی کرتی ہے۔ ہم نے 2017 ء میں اچھے بھلے پھلتے پھولتے پاکستان کو زوال اورپستی کی راہ پر ڈال دیا اور آج آٹھ سال گزر جانے کے باوجود ہم اس دلدل سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ دیکھا جائے کہ جمہوریت کے شوق میں ہم نے بہت سے نقصانات اٹھائے ہیں۔ ہر بار ہمیں کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے کا فلسفہ بیان کر کے الو بنا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا انتقام ہے جس میں قوم کے ہاتھ تباہی کے سوا کچھ نہیں آتا ہے مگر ہاں سیاسی شہیدوں کے لواحقین ضرور سرشار ہو جایا کرتے ہیں۔ سترہ سالوں سے صوبہ سندھ میں صرف ایک پارٹی کی حکومت ہے جس نے جمہوریت کے ثمرات واقعی اس طرح سمیٹے ہیں کہ اس کا ہر وزیر اور رکن اس قدر مالدار ہوگیا ہے کہ اگلے الیکشنوں میں اس کے لیے ووٹ لینا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ یہ وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جسے الیکشن سے پہلے ہی سندھ صوبے میں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین ہوتا ہے۔ اسے اپنے شہیدوں کے غم سے زیادہ اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اب اسے عوام کی ہمدردی سمیٹ لینے سے کوئی بھی محروم نہیں کرسکتا ہے۔ وہ نئے سرے سے عوام کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے اگلے اقتدار کی تیاریاں کرنے لگتی ہے، لہذا وہ پھر کیوں نہ کہے کہ جمہوریت ہی ایک بہترین انتقام ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل