Saturday, September 13, 2025
 

آئی جی سندھ عدالتی احکامات کے باوجود انڈرگریجویٹ ایس ایچ اوز ہٹانے میں ناکام

 



انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ عدالتی احکامات کے باوجود انڈر گریجویٹ ایس ایچ اوز کو ہٹانے میں ناکام ہوگئے، آئی جی سندھ کے پہلے ہی دو حکم ناموں پر عمل نہیں کیا گیا لیکن  9 ستمبر کو تیسرا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی جی سندھ کے پہلے ہی دو حکم ناموں پر عمل نہیں کیا گیا جبکہ 9 ستمبر کو تیسرا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا، 9 ستمبر 2025 کو نئے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے کے لیے اسپیشلائزڈ ٹریننگ ورکشاپ لازمی قرار دی گئی ہے اور یہ لازمی کورس تمام پولیس رینج سندھ پر فوری طور پر نافذ العمل ہے۔ واضح رہے بیشتر ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی ملازمت مکمل ہونے میں ایک سے دو سال باقی ہیں ایسے میں نئے کورس کا حکم نامہ جاری کیے جانے پر ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز میں تشویش پائی جاتی ہے۔ متعدد تھانیداروں کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او لگنے کے لیے وہ امتحان اور انٹرویو پاس کرتے ہیں اس کے باوجود بھی بغیر سفارش اور دیگر لوازمات کے ایس ایچ او لگنا ناممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیشتر تھانوں میں انڈر گریجویٹ پولیس افسران تاحال ایس ایچ اوز تعینات ہیں حالانکہ آئی جی سندھ نے عدالتی حکم پر 3 ستمبر کو ایک آرڈر نمبر 19344-79 جاری کیا تھا کہ انڈر گریجویٹ ایس ایچ اوز کو فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔ گزشتہ ادوار میں مڈل پاس کانسٹیبل اور انٹر پاس اے ایس آئی کو محکمے میں بھرتی کیا جاتا تھا، سابقہ ادوار کے کانسٹیبل اور اے ایس آئی اب ترقی کرتے ہوئے سب انسپکٹر، انسپکٹر اور ڈی ایس پی ہوگئے ہیں اور تقریباً اپنی ملازمت کے آخری مراحل سے گزر رہے ہیں۔ متعدد سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز تاحال اپنے ہوم ڈسٹرکٹ میں بطور ایس ایچ اوز تعینات ہیں حالانکہ 15 اکتوبر 2024 کو انسپکٹر جنرل آف پولیس کے توسط سے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا تھا کہ ہوم ڈسٹرکٹ میں اگر کسی کو ایس ایچ او تعینات کیا گیا تو وہ پولیس رول 1934 کی خلاف ورزی ہوگی، اس کے باوجود بیشتر تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوز اسی ڈسٹرکٹ میں تعینات ہیں جہاں ان کی رہائش گاہ ہے۔ اس حوالے سے سابقہ ادوار میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے والے ڈی ایس پیز اور انسپکٹرز کا کہنا تھا کہ تمام نئے رول رینکرز پولیس افسران کو تنگ کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں، پی ایس پی افسران کے لیے کوئی کورس لازمی نہیں ہوتا بس اس کی پہنچ اونچی ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمے میں اب نوکری کرنا مشکل ہوگیا ہے، کسی بھی علاقے میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری علاقے کے ایس ایچ او پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لی جاتی ہے، آیا کبھی کسی ایس ایس پی یا ڈی آئی جی نے اپنی ذمے داری قبول کی ہے یا اسے ذمہ دار ٹھہرا کر بلیک کمپنی بھیجا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کا ایک حاضر سروس ڈی ایس پی نے بتایا کہ نیب کو پولیس کے ہر افسر کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کو بھی چیک اینڈ بیلنس میں رکھانا چاہیے تاکہ اندازہ کرسکیں کہ اس میں کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل