Sunday, September 14, 2025
 

سماجی ہم آہنگی کی اہمیت اور بین العقیدہ تعاون کے فروغ میں مذہب کا کردار

 



سماجی ہم آہنگی کا مفہوم اور عصرِ حاضر کی ضرورت سماجی ہم آہنگی (Social Harmony) سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں مختلف طبقات، قومیتوں، مذاہب، ثقافتوں اور نظریات رکھنے والے افراد باہمی رواداری، باعزت تعلقات اور پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر زندگی گزاریں۔ موجودہ دور میں دنیا انتہاء پسندی، لسانیت، فرقہ واریت اور تعصب جیسی سماجی و فکری بیماریوں کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں مذہب، بالخصوص اسلام، ایک جامع اور عالم گیر اخلاقی نظام پیش کرتا ہے جو رنگ، نسل، زبان اور مذہب کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کو عدل، احسان اور اخوت کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔‘‘ (النحل) رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم) ٭ اسلام میں انسانی معاشرت کی بنیادیں اور اخوت کا پیغام: اسلام کی تعلیمات اخوت، مساوات اور عدل پر قائم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: ’’بے شک! تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات) اسلام، اخوت اور بھائی چارے کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھتا، بل کہ تمام انسانوں کے لیے عدل و احسان، ہم دردی اور خیر خواہی کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کے معاشرتی نظام میں مختلف قوموں، مذاہب اور طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کا عملی نمونہ پیش کیا، جہاں ہر فرد کو امن، احترام اور انصاف فراہم کیا گیا۔  قرآن کا تصورِ وحدتِ انسانی قرآن مجید انسانیت کو ایک ہی بنیاد پر جوڑتا ہے اور سب کو ایک ہی اصل کی طرف منسوب کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک! اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات) ’’اور یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔‘‘ (الإسراء) یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ انسان کی اصل کرامت اور برابری اﷲ کے نزدیک تقویٰ کی بنیاد پر ہے، نہ کہ نسل، رنگ یا زبان کی بنیاد پر۔ نبی کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ معاشرتی ربط اور احترام کی روشن مثالیں، رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں معاشرتی ہم آہنگی، عدل، اور باہمی احترام کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ جب مدینہ کے یہودی عالم (حضرت عبداﷲ بن سلامؓ) ایمان لائے تو آپ ﷺ نے ان کا خاص احترام فرمایا۔ صلح حدیبیہ دشمن کے ساتھ پرامن تعلقات اور اعتماد سازی کا بہترین نمونہ ہے، جس نے آئندہ کے امن و سلامتی کے دروازے کھولے۔ ایک موقع پر ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ ﷺ! یہ تو یہودی ہے۔‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ ایک جان نہیں؟‘‘ (صحیح بخاری۔ صحیح مسلم) یہ طرزِ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر انسان کی جان اور عزت قابلِ احترام ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتا ہو۔  اسلام اور دیگر مذاہب سے تعلقات کی تعلیمات اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانیت کے لیے عدل، رواداری اور بھلائی کے اصول سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مذہبی اختلافات کے باوجود انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کیا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اﷲ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ) یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اسلام امن اور بقائے باہمی کا قائل ہے۔ جو لوگ مسلمانوں کے دشمن نہیں، ان کے ساتھ عدل و احسان کا سلوک کرنا اسلامی کردار کا حصہ ہے۔ اس تعلیم سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے بل کہ معاشرے میں اعتماد، محبت اور امن کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔  بین العقیدہ رواداری، میثاقِ مدینہ کی روشنی میں میثاقِ مدینہ اسلامی تاریخ کا پہلا جامع اور تحریری معاہدہ تھا، جس نے مدینہ کی مختلف قبائل اور مذاہب پر مشتمل آبادی کو ایک منظم، پُرامن اور مضبوط معاشرتی ڈھانچے میں متحد کر دیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف مسلمانوں کے درمیان بل کہ یہود، نصاریٰ اور دیگر قبائل کے ساتھ بھی انصاف، رواداری اور امن قائم کرنے کا عملی نمونہ تھا۔ اس کی اہم شقیں درج ذیل ہیں: مذہبی آزادی کا احترام: ہر فرد اور گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی، اور کسی کو زبردستی دین بدلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا یعنی ’’دین میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ) سیاسی وحدت: تمام قبائل اور مذاہب کے لوگ ایک مشترکہ سیاسی امت (امۃ واحدہ) شمار ہوں گے، جو ظلم اور ناانصافی کے خلاف مل کر کھڑے ہوں گے۔ جان و مال کا تحفظ: سب کی جان، مال، عزت اور گھروں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی، اور کسی پر ناحق حملہ یا زیادتی نہیں کی جائے گی۔ مفہوم: ’’جو کسی ایک جان کو ناحق قتل کرے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ) باہمی دفاع: اگر مدینہ پر بیرونی حملہ ہو تو تمام مکاتبِ فکر اور مذاہب کے لوگ مل کر شہر کا دفاع کریں گے، چاہے ان کا مذہب یا قبیلہ کچھ بھی ہو۔ انصاف کی برابری: قانون سب کے لیے یک ساں ہوگا، اور کسی کو مذہب یا نسل کی بنیاد پر نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ مفہوم: ’’اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔‘‘ (سورۃ النساء) امن قائم رکھنے کی ذمہ داری: مدینہ کو امن کا مرکز بنایا جائے گا، اور فتنہ و فساد پھیلانے والے کے خلاف سب مل کر کارروائی کریں گے۔ عہد کی پاس داری: معاہدے کی ہر شق پر مکمل عمل کیا جائے گا، اور جو اس کو توڑے گا وہ معاہدے کا مخالف سمجھا جائے گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کرے یا اس کے حق میں کمی کرے تو قیامت کے دن میں اس کا حامی میں خود ہوں گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد) میثاقِ مدینہ صرف ایک تاریخی معاہدہ نہیں تھا بل کہ اسلامی تعلیمات کا ایسا عملی نمونہ تھا، جو آج بھی کثیر المذہبی معاشروں میں امن، انصاف اور رواداری قائم کرنے کے لیے ایک روشن مثال ہے۔  اخلاقِ حسنہ، معاشرتی ہم آہنگی کی روح رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کو کامل کر دوں۔‘‘ (مسند احمد) اخلاقِ حسنہ جیسے سچائی، برداشت، صبر، معافی، امانت داری اور دیانت داری، معاشرتی ہم آہنگی کے مضبوط ستون ہیں۔ یہ اوصاف نہ صرف فرد کے کردار کو سنوارتے ہیں بل کہ معاشرے میں اعتماد، محبت اور باہمی احترام کو پروان چڑھاتے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ اخلاقی اقدار پر قائم ہوتا ہے تو وہاں ناانصافی، نفرت اور ٹکراؤ کی جگہ کم رہ جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘ (الحجرات) اس لیے ہر شخص پر لازم ہے کہ اپنے معاملات اور تعلقات میں حسنِ اخلاق کو اپنائے، تاکہ معاشرہ امن، سکون اور بھائی چارے کا گہوارہ بن سکے۔  عدل و انصاف کا قیام، تمام مذاہب کے لیے مساوی حقوق عدل و انصاف اسلامی معاشرے کی مضبوط بنیاد ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’بے شک! اﷲ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل) رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مظلوم کی بددعا سے بچو، کیوں کہ اس کے اور اﷲ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ عدل و انصاف کا اصول ہر انسان پر یک ساں طور پر لاگو ہوتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ ایک منصفانہ نظام میں مذہب، رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر کسی سے امتیاز روا نہیں رکھا جاتا، بل کہ سب کو برابری کے ساتھ حقوق ملتے ہیں۔ یہی عدل و مساوات ایک پرامن اور ہم آہنگ معاشرے کی ضمانت ہے۔  اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق و احترام کا مقام اسلام ایک ایسا دین ہے جو عدل، انصاف، اور انسانی وقار کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ’’اﷲ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کرتے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ) رسول اﷲ ﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ پر نہایت واضح ہدایات دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کسی معاہد (غیر مسلم شہری) کو قتل کیا، وہ جنّت کی خوش بُو بھی نہ پائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) اسلامی تعلیمات کے مطابق غیر مسلم شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو، اور عبادت گاہوں کا تحفظ مسلمان حکم ران اور معاشرے کی ذمے داری ہے۔ یہ اصول نہ صرف معاشرتی امن و امان کو یقینی بناتا ہے بل کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دیتا ہے۔  بین المذاہب مکالمے کی اہمیت نبی کریم ﷺ نے غیر مسلم حکم رانوں کو اسلام کی دعوت بڑے ادب، حکمت اور دلیل کے ساتھ پیش کی۔ آپ ﷺ نے ہرقلِ روم، نجاشی حبشہ اور مقوقس مصر کو خطوط ارسال کیے، جن میں توحید، نبوت اور امن و انصاف کی تعلیمات بیان کیں۔ غیر مسلم وفود جب آپ ﷺ کی خدمت میں آتے تو آپؐ ان کا احترام فرماتے اور انھیں عزت کے ساتھ گفت گُو کا موقع دیتے۔ یہ طرزِ عمل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مکالمہ، باہمی احترام اور حکمت دینی دعوت کا بنیادی حصہ ہیں۔  اختلافات میں برداشت اور فہم کا رویہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا، مفہوم’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔‘‘ (سورۃ ہود) یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ فکری اور رائے کے اختلاف انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ اسلام ان اختلافات کو دشمنی یا فساد کا ذریعہ بنانے کے بہ جائے فہم، حکمت اور باہمی احترام میں بدلنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اختلاف کے باوجود عدل و انصاف قائم رکھنا اور دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہی حقیقی اسلامی کردار ہے۔  مساجد، کلیسا اور عبادت گاہوں کا احترام اسلام نہ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں بل کہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اگر اﷲ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ نہ روکتا تو گرجے، کلیسا، عبادت گاہیں اور مساجد گرادی جاتیں جن میں اﷲ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔‘‘ (الحج) یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کا تحفظ ایک اہم اصول ہے، جس کا مقصد معاشرتی ہم آہنگی اور امن کو قائم رکھنا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ اس بات کی تاکید کی ہے کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کا حق حاصل ہے اور ان مقامات کا احترام ہر حال میں لازم ہے۔ یہ طرزِ عمل بین المذاہب رواداری کو فروغ دیتا اور معاشرتی امن کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔  اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک اسلامی تعلیمات میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ عدل و احسان، تحفظ اور مذہبی آزادی کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا، مفہوم: ’’اﷲ تمھیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی تمھیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ) سیرت اور تاریخ میں بھی ہمیں اس کی درخشاں مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک نصرانی بزرگ کو بڑھاپے اور محتاجی کے باعث بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا۔ اسی طرح بیت المقدس کی پُرامن فتح پر اہلِ کتاب کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا ذمہ لیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی عام معافی کا اعلان کیا گیا، حالاں کہ مکہ کے بہت سے لوگوں نے ماضی میں مسلمانوں پر ظلم کیا تھا۔ یہ تمام واقعات اسلامی ہم آہنگی، رواداری اور انصاف کی ایسی روشن مثالیں ہیں جو آج بھی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آج کے دور میں ایک افسوس ناک رجحان یہ ہے کہ مذہب کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر ذاتی، سیاسی یا انتقامی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس طرزِ فکر نے معاشرے میں انتشار، بداعتمادی اور نفرت کو فروغ دیا ہے۔ حالاں کہ اسلام کا اصل پیغام امن، عدل، خیرخواہی اور ہم دردی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ عدل، احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور ظلم سے منع کرتا ہے۔‘‘ (النحل) رسول اﷲ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) اس تعلیم سے واضح ہوتا ہے کہ مذہب کسی کو دبانے یا انتقام لینے کا ذریعہ نہیں بل کہ انسانیت کو سنوارنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا نظام ہے۔  ذرایع تحریر و تقریر، نشر و اشاعت اور سوشل میڈیا کا کردار میڈیا ایک طاقت ور ذریعہ ابلاغ ہے، جو اگر دیانت داری اور حق پسندی کے ساتھ استعمال ہو تو معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ غلط فہمیوں کو دور کرنے، مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم بڑھانے، اور تعصب و نفرت کی جگہ امن و محبت کو عام کرنے کا مؤثر وسیلہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اور لوگوں سے گفت گوُ اچھی کرو۔‘‘ (البقرہ) دیانت دار میڈیا حقائق کو بغیر تحریف پیش کرتا ہے، اختلاف کو بڑھانے کے بہ جائے باہمی احترام پیدا کرتا ہے، اور کم زور طبقات کی آواز بن کر ان کے مسائل اجاگر کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ ایمان کا سب سے کم زور درجہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) لیکن جب ذرائع تحریر و تقریر، نشر و اشاعت اور سوشل میڈیا تعصب، جھوٹ یا سنسنی خیزی کو فروغ دیتا ہے تو حقائق مسخ ہو جاتے ہیں، سچائی دب جاتی ہے، اور معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کے صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ صرف تصدیق شدہ معلومات پھیلائیں، جیسا کہ قرآن میں حکم ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اچھی طرح تحقیق کر لو۔‘‘ (الحجرات)  فلاح و بہبود کے میدان میں مذہب کا مثبت استعمال مذہب، انسانیت کو محبت، ہم دردی اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والے تعلیم، صحت، اور فلاحی خدمات کے شعبوں میں مل جل کر کام کر سکتے ہیں، تاکہ انسانی بھلائی اور امن کی بنیاد مضبوط ہو۔ ضرورت مندوں اور محروم طبقات کی خدمت تمام آسمانی مذاہب کا مشترکہ پیغام ہے، جو معاشرے میں ہم آہنگی اور احترام کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو۔‘‘ (المائدہ) یہ اصول واضح کرتا ہے کہ دین، انسانی فلاح اور نیکی کے کاموں میں تعاون کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہے، اﷲ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) یہ تعلیم انسان کو خود غرضی اور بے حسی سے نکال کر ایثار، ہم دردی اور خدمت کے راستے پر گام زن کرتی ہے۔ حالیہ دور میں اس کی روشن مثالیں نظر آتی ہیں۔ ماضی میں کورونا وبا اور حالیہ سیلابی صورت حال کے دوران مختلف مذاہب اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے فلاحی اداروں نے مل کر طبی سہولتیں، خوراک اور دیگر ضروریات فراہم کیں۔ یہ عملی اقدامات نہ صرف انسانیت کی خدمت ہیں بلکہ امن و محبت کے مضبوط پل بھی تعمیر کرتے ہیں۔  قرآن و حدیث کی روشنی میں سماجی ذمہ داریاں اسلام ایک کامل اور متوازن ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی تلقین کرتا ہے بل کہ سماج اور انسانیت کے لیے بہترین کردار ادا کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ معاشرتی ذمے داریوں کی بنیاد امن، محبت، خیر خواہی اور باہمی تعاون پر قائم ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘ (سورۃ المائدہ) رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے صبح اس حال میں کی کہ وہ اپنے گھر میں امن کے ساتھ ہو، جسمانی صحت رکھتا ہو اور اس کے پاس اس دن کا کھانا موجود ہو، تو گویا اسے دنیا کی تمام نعمتیں دے دی گئیں۔‘‘ (جامع الترمذی) اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔‘‘ (مسند احمد) یہ تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اصل کام یابی صرف ذاتی آسائش حاصل کرنے میں نہیں بل کہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے خیر خواہی اور بھلائی کا جذبہ رکھے تو ایک مثالی اور پُرامن سماج وجود میں آ سکتا ہے۔ ہم آہنگ معاشرہ کیسے قائم کیا جائے؟ نتائج و تجاویز 1۔ مکالمہ اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینا، معاشرتی ہم آہنگی کے لیے سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ قرآن میں ارشاد کا مفہوم ہے: ’’اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔‘‘ (البقرہ) باہمی مکالمہ، غلط فہمیوں کو ختم کرتا اور دلوں کو قریب لاتا ہے۔ مذہب کی اصل تعلیمات کو عام کرنا اسلام امن، عدل اور احترامِ انسانیت کا دین ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) معاشرے میں دینی تعلیمات کی درست اور مثبت تشریح پھیلانا امن کے قیام کا ذریعہ ہے۔ تعلیمی اداروں، مدارس و مساجد میں رواداری کی تربیت نصابِ تعلیم میں اخلاق، برداشت، اور صلہ رحمی کے مضامین کو شامل کرنا ضروری ہے۔ مساجد اور مدارس میں نوجوانوں کو یہ سکھایا جائے کہ اختلاف دشمنی کا سبب نہ بنے بل کہ فکری ترقی کا ذریعہ ہو۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا: اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو ذمی (غیر مسلم شہری) پر ظلم کرے، میں قیامت کے دن اس کا مخالف ہوں گا۔‘‘ (سنن ابی داؤد) ہر شہری کو مذہبی آزادی اور عدل کا حق دینا معاشرتی امن کی بنیاد ہے۔ ذرایع ابلاغ (میڈیا) کا مثبت اور تعمیری کردار ذرایع ابلاغ (میڈیا) کو چاہیے کہ سنسنی پھیلانے اور نفرت انگیز مواد نشر کرنے سے گریز کرے اور اس کے بہ جائے اتحاد، بھائی چارہ، اور مثبت مکالمے کو فروغ دینے والے پروگرام نشر کرے۔ یہ معاشرے میں امن کی فضا قائم رکھنے میں مددگار ہوگا۔ ٭ حاصل مطالعہ ہم آہنگ معاشرہ صرف حکومتی اقدامات سے نہیں بنتا، بل کہ اس کے لیے ہر فرد کی اپنی ذمے داری کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے رویوں میں نرمی اختیار کریں، زبان میں شائستگی لائیں، اور دلوں میں خیرخواہی پیدا کریں تو معاشرہ خود بہ خود امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! اﷲ عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور زیادتی سے روکتا ہے۔‘‘ (النحل) یہ وہ الٰہی دستور ہے جو ایک مضبوط اور ہم آہنگ معاشرت کی اصل بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل