Loading
پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ ایچ پی وی (Human Papilloma Virus) ایک ایسا وائرس ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے اور انسانی صحت کے لیے ایک نہایت بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وائرس دراصل سو سے زائد اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے چند اقسام خاص طور پر خطرناک ہیں اور انسانوں میں مختلف اقسام کے کینسر پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ عورتوں میں رحمِ مادر کے کینسر (Cancer Cervical) کی بنیادی وجہ یہی وائرس ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقات کے مطابق تقریباً 99 فیصد کیسز ایسے ہیں جو براہِ راست ایچ پی وی کے انفیکشن سے منسلک پائے گئے ہیں۔ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 6 لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار خواتین اپنی جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار عالمی سطح پر اس وائرس کے پھیلاؤ اور خطرناک اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ ممالک زیادہ متاثر ہیں جہاں ایچ پی وی ویکسین عام دستیاب نہیں یا پھر اسکریننگ اور بروقت تشخیص کے مناسب وسائل موجود نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ویکسینیشن، آگاہی مہمات اور طبی سہولیات کی بدولت اس مرض پر قابو پانے میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ یہاں ہر سال اندازاً 5 ہزار خواتین اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے 3 ہزار سے زائد خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف افسوسناک ہیں بلکہ ایک سوالیہ نشان بھی ہیں کہ کیا ہماری خواتین کی صحت کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں یا نہیں؟ رحمِ مادر کا کینسر پاکستان میں خواتین میں سب سے زیادہ ہونے والے کینسرز میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود عوامی سطح پر آگاہی اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور نہایت کم ہے۔ یہ بیماری عموماً اس وقت زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے جب اس کی تشخیص دیر سے کی جائے۔ ابتدائی مرحلے پر ایچ پی وی کے انفیکشن کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے خواتین اکثر لاعلم رہتی ہیں، یہی لاعلمی مرض کو بڑھا دیتی ہے اور جب تک مریضہ ڈاکٹر کے پاس پہنچتی ہے، بیماری اکثر آخری اسٹیج پر جا چکی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر وقت پر اسکریننگ ہو اور بروقت علاج شروع کیا جائے تو اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خواتین کے لیے باقاعدہ اسکریننگ اور ویکسینیشن کو عام کیا جائے تاکہ اس مہلک مرض کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ ایچ پی وی کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر ویکسین موجود ہے، جو دنیا کے کئی ممالک میں لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس ویکسین کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اور اکثر لوگ اس پر سرمایہ خرچ کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اگر یہ ویکسین عام ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو دستیاب کرائی جائے تو مستقبل میں ہزاروں قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ صوبہ سندھ کی خواتین بھی اسی خطرے میں ہیں، کیونکہ یہاں بھی اس کینسر کی تشخیص عام طور پر دیر سے ہوتی ہے، جس کے سبب سندھ حکومت نے ’’بیٹیوں کی صحت، سندھ کی ترجیح‘‘ کے نعرے کے تحت فیصلہ کیا ہے کہ 9 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کو ایچ پی وی ویکسین مفت فراہم کی جائے تاکہ آئندہ نسل کو اس خطرناک مرض سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس کے علاوہ ایچ پی وی ویکسین عورتوں کو کچھ اور کینسرز جیسے گلے، منہ اور تولیدی اعضاء کے کینسرز سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ سندھ کے تناظر میں اس ویکسین کی اہمیت کیوں ہے؟ سندھ میں لاکھوں نوجوان لڑکیاں ایسی عمر میں ہیں، جہاں مذکورہ ویکسین سب سے زیادہ فائدہ دیتی ہے، اگر یہ ویکسین بڑے پیمانے پر دی گئی تو آئندہ پندرہ سے بیس سال میں سندھ میں رحمِ مادر (Cancer Cervical) کے کینسر کے کیسز میں نمایاں کمی آئے گی، اس سے نہ صرف خواتین کی جانیں بچائی جا سکیں گی بلکہ خاندان اور معاشرہ بھی معاشی اور ذہنی دباؤ سے محفوظ ہوگا۔ ایچ پی وی ویکسینیشن مہم (15 ستمبر تا 27 ستمبر 2025ء) خواتین کی صحت کے تحفظ کی جانب سندھ حکومت کا تاریخی قدم ہے،اس مہم کا بنیادی مقصد سندھ بھر میں 9 سال سے14 سال کی عمر کی تقریباً 4.1 ملین (41 لاکھ) بچیوں کو ایچ پی وی ویکسین فراہم کرنا ہے، یہ عمر ویکسین کے مؤثر ہونے کے لیے سب سے موزوں سمجھی جاتی ہے اور مستقبل میں بچہ دانی کے کینسر (Cancer Cervical) کے خلاف بہترین تحفظ فراہم کرتی ہے۔- ایچ پی وی یکسینیسثن کا جغرافیائی دائرہ کار یہ مہم سندھ کے تمام 30 اضلاع اور 1,190 یونین کونسلز میں شروع کی جائے گی۔ اس وسیع جغرافیائی دائرہ کار کی بدولت نہ صرف شہری بلکہ دیہی اور پسماندہ علاقوں کی بچیوں کو بھی ویکسین تک مساوی رسائی حاصل ہو سکے گا۔ مہم کے دوران مجموعی طور پر 3,611 ویکسینیشن ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جو مختلف مقامات پر خدمات انجام دیں گی، ان ٹیموں کی ذمہ داری صرف ویکسین لگانا ہی نہیں بلکہ والدین اور کمیونٹی کو اعتماد میں لینا اور آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔ مہم میں خصوصی موبائل ٹیمیں بھی شامل کی گئی ہیں تاکہ وہ دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں تک پہنچ سکیں۔ یہ ٹیمیں گھر گھر جا کر یا مقامی کمیونٹی پوائنٹس پر بچیوں کو ویکسین فراہم کریں گی۔ اس مہم کے دوران ای پی آئی مراکز، اسکولز، دینی مدارس ودیگر منظم مقامات کو بھی فکسڈ سائیٹس کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جہاں بچیوں کو ویکسین لگائی جائیں گی۔ ویکسینیشن کے بعد ممکنہ ردِ عمل سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی اسٹیئرنگ کمیٹی برائے حفاظتی ٹیکہ جات ادارہ جاتی میکانزم کو فعال بنانے پر زور دیا ہے، تربیت یافتہ عملہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری طبی امداد فراہم کرے گا۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو بطور صوبائی وزیر برائے صحت و بہبود آبادی سندھ نا صرف مرکزی قیادت فراہم کر رہی ہیں بلکہHPV ویکسینیشن مہم کے ہر مرحلے کی بذات خود نگرانی بھی کر رہی ہیں۔ ان کی سرپرستی میں محکمہ صحت سندھ نے عالمی معیار کی حکمتِ عملی اپنائی ہے تاکہ مہم مؤثر اور کامیاب ہو سکے۔ وزیر صحت نے والدین، اساتذہ، اور مقامی برادریوں کو اعتماد میں لینے کے لیے واضح پیغام پر زور دیا ہے، جس سے عوام میں HPV ویکسین کے بارے میں اعتماد اور قبولیت بڑھی ہے۔ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کی قیادت میں سندھ صوبہ، پاکستان میں سرویکل کینسر (Cervical Cancer) کی روک تھام کے لیے ایک مثال قائم کر رہا ہے۔ دوسری طرف محکمہ صحت سندھ کے سیکریٹری جناب ریحان اقبال بلوچ نے انتظامی اقدامات اور لاجسٹک سپورٹ (Support Logistic) فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ تمام ویکسینیشن ٹیمیں اپنے علاقوں میں وقت پر پہنچیں تاکہ ویکسینیشن کے متوقع احداف حاصل کیے جا سکے۔ اس ضمن میں گرلز اسکولوں، مدارس اور صحت مراکز کو فعال کرنے کے لیے خصوصی پلاننگ کی گئی ہے۔ سیکریٹری صحت کی خصوصی ہدایت پر مہم کے دوران رئیل ٹائم مانیٹرنگ اور ڈیٹا کلیکشن (Collection Data) کے جدید طریقے متعارف کرائے گئے ہیں۔ ان کی محنت اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مہم کو مؤثر انداز میں آگے بڑھانے میں مدد مل سکی۔ وزیر صحت اور سیکرٹری صحت سندھ کی بھرپور کاوشوں کی بدولت محکمہ صحت سندھ نے HPV ویکسینیشن مہم کے کامیاب نفاذ کے لیے عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر بین الاقوامی سفارشات پر مبنی حکمتِ عملیاں اپنائی ہیں، جس بناء پر 9 سے 14سال کی بچیوں پر فوکس (Focus) کیا گیا ہے تاکہ آئندہ نسلوں کومحفوظ بنایا جا سکے، اس ضمن میں ٹیموں کی تربیت کی گئی ہے تا کہ وہ درست معلومات اور ویکسین مہارت سے فراہم کر سکیں۔ عوامی آگاہی (Awareness) کے لیے الیکٹرونکس،پرنٹ،سوشل میڈیا، اسکولز اور کمیونٹی لیول پر مہمات شروع کی گئیں۔ اس مہم کی کامیابی میں ڈونر ایجنسیز (Agencies Donor) کا تعاون بھی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)، UNICEF، اور GAVI جیسے اداروں نے مالی وتکنیکی مددفراہم کی اور ویکسین کی فراہمی اور کولڈ چین مینجمنٹ (Cold Chain Management) میں تکنیکی تعاون بھی فراہم کی۔ عالمی سطح پر آگاہی مہمات اور تربیتی پروگرام (Programs Training) سندھ کی ٹیموں کو فراہم کیے، یہ تعاون سندھ حکومت اور عالمی اداروں کے درمیان مضبوط شراکت داری کی نشانی ہے، جو نہ صرف HPV بلکہ آئندہ دیگر ویکسینیشن مہمات کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ ایچ پی او ویکسین کے بارے میں انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے عمومی سوالات کیا یہ ویکسین محفوظ ہے؟ جی ہاں، یہ عالمی سطح پر منظور شدہ اور پہلے ہی لاکھوں بچیوں کو دی جا چکی ہے کیا ویکسین کے بعد بچی اپنی روزمرہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے؟ جی بالکل، پڑھائی اور کھیل پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ ویکسین کتنی بار لگتی ہے؟ 9سے14سال کی بچیوں کے لیے ایک یا دو خوراکیں کافی ہوتی ہیں والدین / سر پر ستوں اور بزر گوں کیلیے اہم پیغام اپنی بیٹیوں کو اس ویکسین سے ضرور مستفید کریں، یہ صرف ایک انجکشن نہیں، بلکہ زندگی کا تحفہ ہے، یہ مہم آنے والی نسل کی صحت کا تحفظ ہے، معاشرے کی خواتین کو کینسر سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آئیں! ہم سب مل کر اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ایچ پی او ویکسین لگوائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل