Loading
اظہارِ رائے انسانی فطرت کی ایک باطنی آواز ہے، مگر ہر پکار کا ایک موقع، ہر آواز کا ایک مقام اور ہر اظہار کا ایک ظرف ہوتا ہے۔ ہماری تہذیبی روایت میں ’’کتمان‘‘ اور ’’اخفاء‘‘ صرف اقدار ہی نہیں بل کہ علم و حکمت کے دروازوں کے محافظ رہے ہیں۔ جس طرح علم کو ’’حامل‘‘ چاہیے، نہ کہ صرف ’’ناشر‘‘ اسی طرح اظہار کو ’’اہلِ ظرف‘‘ اور ’’اہلِ وقت‘‘ کی تمیز کے ساتھ ادا کیا جانا ہماری تہذیبی روایت کی ایک بنیادی شرط تھی۔ مگر موجودہ عہد میں جس شے نے اس روایت کو سب سے زیادہ زک پہنچائی ہے، وہ ’’سوشل میڈیا کلچر‘‘ ہے۔ ایک ایسا مظہر جو اظہار کے نام پر تخریبِ معنی، تشہیر کے نام پر نفسیاتی انکشاف اور ربط کے نام پر فکری تنہائی کو جنم دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی پیدائش بہ ظاہر ایک معصوم سی تکنیکی ضرورت کی تکمیل تھی ’’عوامی رائے کا آزادانہ تبادلہ‘‘ مگر جلد ہی یہ ایک ایسی تہذیبی صورت اختیار کر گیا جس میں ’’اظہار‘‘ ایک مقصد ِحیات بن گیا اور ’’خاموشی‘‘ گویا جرم ٹھہری۔ وہ اخفاء جو کبھی روحانی ارتقاء کا زینہ تھا، اب معاشرتی پسپائی کی علامت قرار پایا۔ انسان کے لیے موجود ہونے کا معیار اب اس کا جسمانی وجود نہیں بل کہ اس کی ڈیجیٹل موجودی بن گیا۔ جو تصویر میں ہے وہ ہے، جو ویڈیو میں ہے وہ معتبر ہے اور جو یہاں نہیں، وہ معاشرے کا عضوِ معطل ہے۔ سوشل میڈیا کلچر ایک عجیب قسم کی ہمہ وقت حاضری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں غیاب کوئی روحانی کیفیت نہیں بل کہ ’’سوشل موت‘‘ ہے۔ اب انسان اپنی پوسٹ میں زندہ ہے، اپنے لائکس اور شیئرز میں نمایاں ہے۔ یہ ایک ایسا ہجوم ہے جو ہر لمحہ بولتا ہے مگر سنتا نہیں لیکن ہر وقت نظر آنا چاہتا ہے مگر کسی کی نظر میں نہیں رہتا۔ صورت اور حقیقت کی تفریق اس تہذیبی بحران کا مرکزی نکتہ ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں حقیقت وہ نہیں جو اصل ہے بل کہ وہ ہے جو دکھائی دیتی ہے۔ اب کسی خیر کے لیے نیت کافی نہیں، اس کا منظر بھی ضروری ہے۔ نیکی اگر ریکارڈ نہ ہو تو ناقابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے اور گناہ اگر ’’وائرل‘‘ ہو جائے تو بعض اوقات شہرت کی سیڑھی بن جاتا ہے۔ یہاں خلوص کی جگہ چالاکی، اخلاص کی جگہ تکنیک اور صدق کی جگہ سکرولنگ نے لے لی ہے۔ پہلے انسان بات کرتا تھا، اب کمنٹ کرتا ہے۔ پہلے وہ خط لکھتا تھا، اب ری ایکشن بھیجتا ہے۔ اس تبدیلی نے زبان کو ربط کا ذریعہ نہیں بل کہ ردِعمل کا میدان بنا دیا ہے۔ اب کلام کا مقصد فہم نہیں بل کہ فوری اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فکری گہرائی کی جگہ جذباتی سطحیت نے لی ہے۔ یہ کلچر محض اخلاقی زوال نہیں بل کہ ایک وجودی بحران ہے۔ انسان اب اندر سے نہیں جیتا بل کہ باہر سے مرتب ہوتا ہے۔ وہ اپنی تصویر، اپنی پروفائل اور اپنی سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف دوسروں کے لیے بل کہ خود اپنے لیے بھی ’’ہونے‘‘ کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس کا دل، اس کی تنہائی اور اس کی خاموشی اب اس کے وجود کا حصہ نہیں رہی۔ وہ سب کچھ جو غیر مرئی تھا، اب غیر ضروری قرار پا چکا ہے۔ سوشل میڈیا نے روایت کی اُس معنویت کو یک سر بدل ڈالا ہے جو کبھی ’’کلام‘‘ کے تقدس پر قائم تھی۔ اب ہر بات کہی جاتی ہے اور بار بار کہی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کا مفہوم مٹنے لگتا ہے۔ اظہار کی کثرت نے سکوت کی قدر چھین لی ہے اور سکوت ہی وہ زمین تھی جس پر فکر کی کونپلیں پھوٹتی تھیں۔ آج جب ہم اس کثیر الاصوات فضا میں کھڑے ہیں تو ہمیں یہ سوال خود سے کرنا ہوگا کہ ہم بول کیوں رہے ہیں؟ کس سے مخاطب ہیں؟ اور کیا جو ہم کہہ رہے ہیں وہ واقعی ہمارا ہے یا محض ایک ردِعمل، ایک گونج یا ایک ضرورت؟ سوشل میڈیا کو محض فنی سہولت سمجھنا خود فریبی ہے، یہ ایک نئی تہذیب کا پیش خیمہ ہے۔ ایک ایسی تہذیب جو تصویر کو حقیقت، آواز کو دلیل اور ہجوم کو صداقت مانتی ہے۔ اس کلچر کا سب سے پہلا شکار وہ انسان ہے جو کبھی تنہائی، خاموشی اور اخفاء سے حکمت کشید کیا کرتا تھا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس طوفانِ صورت کے بیچ کچھ لمحے اخفاء کی طرف لوٹیں، اپنے باطن کی طرف پلٹیں اور وہ خاموشی تلاش کریں جس میں صداقت سانس لیتی ہے۔ سوشل میڈیا کو رد کرنا حل نہیں، مگر اسے بغیر شعور کے اختیار کرنا ایک گہری فکری خودکشی ہے۔ اس بحران کی جڑیں صرف ظاہری عادات یا ڈیجیٹل مشغولیات میں نہیں بل کہ اس داخلی انہدام میں پیوست ہیں جو انسان کو تدبر، توازن اور ترتیب سے محروم کر رہا ہے۔ جب وجود کا مرکز نفسِ امارہ کے بعد ڈیجیٹل آئینہ بن جائے، تو شخصیت کا توازن منتشر ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں نہ صرف دوسروں کی نگاہ کا اسیر بنایا ہے بل کہ خود اپنی نظر میں بھی اجنبی کر دیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو دوسروں کی ’’اسٹوری‘‘ اور اپنی شناخت کو فالوورز کی’’تعداد‘‘ میں تلاش کرتے ہیں۔ ہم اپنے حقیقی صورت کو اسکرین پر ترمیم شدہ چہروں اور فلٹر زدہ مسکراہٹوں سے چھپاتے ہیں اور باطنی انتشار کو بیرونی ترتیب سے دھوکا دیتے ہیں۔ اس کلچر المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کی اخلاقی اور فکری تربیت کا متبادل بن رہا ہے۔ اب نوجوان نسل کے لیے قدریں، مثالیں اور معیارات، خاندان، اساتذہ یا کتابوں سے نہیں بل کہ سوشل میڈیا سے متعین ہوتے ہیں۔ انفلوئنسر کو اب مربی کا مقام حاصل ہے اور ٹرینڈ اب اصول کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک ایسا تہذیبی لمحہ آن پہنچا ہے جہاں غلط اور صحیح کا فیصلہ ضمیر نہیں بل کہ الگورِتھم کرتا ہے۔ انسان کی فکری آزادی جو کبھی تنہائی میں پروان چڑھتی تھی، اب تباہ کن ہجوم میں گم ہو رہی ہے۔ ایسا ہجوم جو مسلسل متحرک ہے مگر فکری طور پر جمود کا شکار ہے۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا کلچر نے ہماری یادداشت، ہمارے طرزِ احساس اور حتیٰ کہ ہماری نیّت کو بھی ڈیجیٹل ڈھانچے میں قید کر دیا ہے۔ اب یادداشت بھی ’’کلاؤڈ‘‘ کی محتاج ہے، احساس بھی ’’ایموجیز‘‘ میں ظاہر ہوتا ہے اور نیّت بھی پوسٹ کی ’’ریچ‘‘ سے پہچانی جاتی ہے۔ ہم نے اپنی روحانیت کو میکانکی عادتوں میں بدل دیا ہے۔ ’’تدبر‘‘ اب طویل مطالعہ نہیں بلکہ کسی پانچ سیکنڈ کی ویڈیو کلپ میں سمٹ گیا ہے اور ’’تاثر‘‘ وہی معتبر ہے جو بصری ہو، نہ کہ فکری۔ غور و خوض، جسے ہماری علمی روایت میں ایک عبادت سمجھا جاتا تھا، اب ’’لوڈنگ اسکرین‘‘ سے بھی زیادہ ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے۔ یہ سب صرف ایک فرد کا بحران نہیں بل کہ تہذیب کا المیہ ہے۔ وہ معاشرہ جو گفت گُو کو مزاج، ادب کو کردار اور خاموشی کو شعور سمجھتا تھا، اب وہ خود نمائی، ردِعمل اور نمائشی علم کا شکار ہوگیا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم محض ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت نہ دیں بل کہ ایک ایسا جامع فکری شعور پیدا کریں جو اظہار اور سکوت، موجودی اور پس پردہ تنہائی، مقبولیت اور معنویت کے درمیان فرق کرنا جانتا ہو۔ ایسے ماحول میں سچ بولنا، خاموش رہنے سے بھی زیادہ جُرم بن گیا ہے کیوں کہ سچ کی قدر اب وائرلٹی سے مشروط ہے اور خاموشی کی عظمت لائکس اور کمنٹس نہ کرے میں کھو گئی ہے۔ انسان کی گفت گُو اب اس کے دل کی گہرائی سے نہیں بل کہ ڈیجیٹل الگورِتھم کی ترجیحات سے جنم لیتی ہے۔ اس کا تجزیہ اب اس کے خیالات سے نہیں بل کہ اس کے ٹرینڈز سے کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی فکری خودی کو لائک کے بٹن کے نیچے دفن کر دیا ہے اور اپنی علمی روایت کو اسٹوریز کی وقتی لہر میں بہا دیا ہے۔ اب وہ کتابیں نہیں کھولتا، نوٹی فکیشنز چیک کرتا ہے۔ وہ سوال نہیں اٹھاتا بل کہ رائے کا اعلان کرتا ہے، ایسی رائے جو اکثر سننے سے پہلے ہی طے شدہ ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کلچر نے ہمیں گفت گُو کے آداب سے نہیں بل کہ چیخنے کے انداز سے واقف کیا ہے، جہاں دلیل کی جگہ طنز، وضاحت کی جگہ میمز اور تحقیق کی جگہ ریپوسٹ نے لے لی ہے۔ یہ تہذیبی انتشار ہمیں محض اظہار کے بحران میںہی نہیں بلکہ شعور کے انہدام کے کنارے لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جہاں ہر شخص کسی نہ کسی چینل سے جڑا ہوا ہے مگر کسی کے دل تک نہیں پہنچتا، ہر گفت گُو شراکت داری کا دھوکا دیتی ہے مگر درحقیقت تنہائی کا اعلان ہوتی ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا کے پردے پر ’’ربط‘‘ کا جو تماشا رچایا ہے، وہ دراصل ہمارے باطن کی ویرانی کو چھپانے کی ایک غیر محسوس کوشش ہے۔ ہم جن لمحات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں مصروف ہیں، وہ اکثر ہمیں خود سے تنہا کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جو مسلسل مصروف ہے مگر بے حد بے فیض، جو مسلسل مربوط ہے مگر بے حد منقطع۔ یہاں خلوت کا مفہوم مسخ ہو چکا ہے اور جلوت ایک تماشا دکھائی دیتی ہے۔ انسان اب خود سے ملاقات کے قابل نہیں رہا، کیوں کہ ہر لمحہ وہ کسی اور کو متوجہ کرنے میں مصروف ہے۔ یہ ایک ایسی داخلی شکست ہے جو دکھائی نہیں دیتی مگر محسوس ہوتی ہے، ایک ایسی تھکن جو جسم سے نہیں، روح سے لپٹی ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں رک کر اپنے وجود، اپنے روابط اور اپنے اظہار پر دوبارہ نظر کرنا ہوگی، کیوں کہ مسلسل بولتے چلے جانا، سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے نہ صرف ہماری نجی زندگی کو متاثر کیا ہے بل کہ علم کے فہم، حصول اور اشاعت کو بھی ایک تماشائی عمل میں بدل دیا ہے۔ اب علم وہی معتبر سمجھا جاتا ہے جسے جلدی پڑھا جا سکے، جلدی شیئر کیا جا سکے اور جس پر فوراً ردعمل آ جائے۔ تدبر اور تحقیق جیسے الفاظ اب یا تو ناپید ہو چکے ہیں یا فقط تعلیمی اشتہارات میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ سچائی، جسے کبھی صدیوں کی فکری ریاضت سے تراشا جاتا تھا، اب چند لمحوں میںaccept یا reject کر دی جاتی ہے۔ سوالات کا مقصد اب فہم نہیں بل کہ بحث میں پچھاڑنا ہے اور دلائل کا مصرف قائل کرنا نہیں بل کہ لاجواب کرنا ہے۔ سوشل میڈیا نے مکالمے کوmonologue میں بدل دیا ہے، ایسا monologue جو اپنی بازگشت خود ہی سنتا ہے اور خود ہی اس پر فخر کرتا ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس میں فکری بالیدگی کے بہ جائے فوری ردعمل، علمی شعور کے بہ جائے معلوماتی ہجوم اور حکمت کے بہ جائے جذباتی ردّعمل در آئی ہے۔ ایسی فضا میں سنجیدہ بات کرنا ’’بے وقت کی راگنی‘‘ ہے۔ بالآخر ہم اپنی بات و جذبات کا عکاس یہ شعرسمجھتے ہیں: اِک تم ہو کہ شہرت کی ہوس ہی نہیں جاتی اِک ہم ہیں کہ ہر شور سے اکتائے ہوئے ہیں
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل