Loading
موجودہ دور میں ایسے اہل فن خال خال ہیں جو بہ یک وقت فطری طور پر عمدہ شاعر، ماہرعروض داں اور مختلف و متنوع معلومات کے حامل ہوں۔ قحط الرّجال ہے کہ اچھا شعر کہنے والے ہی نہیں ، سمجھنے والے اور سمجھ کر داد دینے والے بھی کم کم ہیں۔ (زوال کی بہت سی مثالوں میں کسی شعر پر داد کی بجائے تالیاں اور سِیٹیاں بجانے کی بدعت شامل ہے، آوازے بھی کسے جانے لگے ہیں)۔ بہت کم شاعر ایسے ملتے ہیں جو کوئی شعر کہنے کے بعد، اس میں راہ پاجانے والی کسی غلطی کا ادراک کرکے تصحیح پر آمادہ ہوں۔ سوشل میڈیا نے سب سے بڑا کام یہی کیا کہ ہر شعبے کی طرح ادب میں بھی ’اساتذہ‘ اور ’ماہرین‘ کی بھرمار کردی۔ پہلے وقتوں میں لوگ پیدائشی شاعر ونثرنگار ہوا کرتے تھے، فطری صلاحیتوں کے نکھار کے لیے اساتذہ کی صحبت اختیار کرتے تھے، اب ایسے لوگ ہی کم کم ملتے ہیں جو واقعی کسی کو کچھ سکھانے کے قابل ہوں، مگر پھر بھی استادوں کی بہتات ہے۔ ایسے میں ہم جیسے لوگ فقط کُڑھتے ہیں یا حسبِ توفیق، اصلاح کی سعی کر گزرتے ہیں۔ اس صورت حال میں سنگین مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنا لکھا اور کہا ہوا ہر لحاظ سے صحیح اور ’حرفِ آخر‘ سمجھتے ہیں۔ اصلاح تو دُور کی بات، تعریفی کلمات بھی اپنے من پسند سننا چاہتے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی نوآموز ۔یا۔کچّا پکّا شاعر اپنی شاعری پر کسی پختہ کار شاعر سے اصلاح کا طالب ہو تو پہلے باقاعدہ، تجربہ کار شاعر کی تلاش کرتا ہے اور اَگر کسی کے مشورے پر عمل کرتا ہے تو کسی نہ کسی جگہ، خواہ آنلائن ہی سہی، عَروض بھی سیکھنے لگتا ہے۔ گئے دنوں میں شعراء کے درمیان ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اَپنے عہد کے اور مابعد آنے والے نوآموز شعر گو حضرات کے لیے رہنمائی کی غرض سے کتابیں لکھا کرتے تھے۔ اس ضمن میں جدیدغزل کے بادشاہ حسرتؔ موہانی کی ’نِکاتِ سخن‘ دائمی اہمیت کی حامل کتا ب ہے۔ ’’مشغلہ ، پیشہ اور فن تین مختلف چیزیں ہیں اور اِن کا اطلاق شعرواَدب پر بھی ہوتا ہے۔ تذکروں میں بعض اکابر شعراء کے بارے میں تذکرہ نگار فرماتے ہیں کہ شعر کہنا اُن کے مرتبے سے فَرو تر تھا، لیکن اُنھوں نے چند اشعار کہہ کر، اس فن بے اعتبار کو اعتبار بخشا۔ فن تو گویا بے اعتبار تھا اور بے اعتبار ہی رہا۔ یہ اُن بزرگوں کا مشغلہ تھا، بلکہ بعض کے سلسلے میں تو یہ بھی کہا ہوا ملتا تھا کہ شعر بھی محض تفننِ طبع کے لیے کہے تھے۔‘‘ یہ تمہید باندھ کر پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے حسرتؔ موہانی کے ذکر میں لکھا کہ وہ میرؔ سے اعلیٰ مقام پر ہیں، کیونکہ حسرت ؔ کبھی کسی دربار کے تنخواہ دار ہوئے، نہ مفلسی کا شکوہ کیا، بلکہ فقیری وقلندری پر ناز کیا ...................’’جب شاعری اُن کے نزدیک فن ٹھہری تو لازمی بات تھی کہ اُن کے سامنے فن کے سب تقاضے تھے۔ محاسن ومعائبِ سخن (کا فرق: س ا ص) اور حسرتؔ کے اردو شعراء کے انتخابات کا سلسلہ اس میں شامل کرلیں تو اُردو زبان کی پوری تاریخ اور اُس کی شاعری بالخصوص غزل کا پورا مزاج سامنے آجاتا ہے۔ ہماری نئی نسل کے شاعروں نے جسے محض ایک مشغلہ یا ایک پیشہ سمجھ لیا ہے، اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی اس عبارت میں دو نِکات بہت اہم ہیں: ا)۔ حسرت ؔ کا میرؔ پر فائق ہونا (گو بہت مختلف حوالے سے) ، جس کی بابت کبھی کسی اور نقاد نے ہرگز نہیں لکھا۔ اور ب)۔ شاعری کے محض تفریح یا مشغلہ یا پیشہ ہونے کے خیال سے اپنانے کی مذمت، جس کے پرچار کی آج بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ’نِکاتِ سخن‘ محض ایک شاعر کی اپنے معاصرین (خصوصاً خُرد) کی تربیت کی ایسی کوشش نہیں جسے ’نصیحت نامہ‘ سمجھ کر سرسری تبصرہ کردیا جائے، بلکہ اس کتاب کی تالیف کے پیچھے اُن کی مسلسل مشقت ِ اسیری اور کدوکاوش کا بیس سالہ عرصہ ہے جو اُنھوں نے فرنگی کی قید میں للِت پور، جھانسی، الہ آباد، پرتاب گڑھ، فیض آباد، لکھنؤ، میرٹھ، سابرمٹی اور بردوان کے جیل خانوں میں بسر کیا۔ آج ایسے علمی وادبی کام کا تصور بھی محال ہے۔ ہمیں حسرتؔ سے ذرا پہلے کے دور میں علامہ فضل حق خیرآبادی (رحمۃ اللہ علیہ)، ’’اسیرِکالاپانی‘‘ کی مثال بھی یاد رکھنی چاہیے جنھوں نے اپنی قید کا سارا وقت اسی طرح تحقیق وتحریر میں صَرف کرکے اپنے دشمنوں کو بھی حیران کردیا تھا۔ حسرت ؔموہانی کی یادگار کتاب ’نِکاتِ سخن‘ کا ابتدائی باب’’مترو کاتِ سخن‘‘ کے متعلق ہے۔ اس ضمن میں اُن سے قبل بھی مساعی کی گئیں، (ہمیں شاہ حاتم، خان آرزو اور ناسخؔ جیسے قدآور اَساتذہ سخن کے نام یاد آتے ہیں) مگر یہ باب ہر لحاظ سے لائق توجہ ہے کہ قارئین بشمول شاعر، اس سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ حسرتؔ نے بھی شاہ حاتم سے بات شروع کی کہ ’’اساتذہ میں سب سے پہلے شاہ حاتم نے اصلاحِ زبان کی جانب توجہ کی اور بعض ناگوار اَلفاظ کو متروک قرار دے کر اُن کی ایک فہرست اپنے انتخاب ِ کلّیات موسوم بہ دیوان زادہ میں درج کی‘‘۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ’’پورے طور پر وہ الفاظ خود اُن سے بھی نہ چھوٹ سکے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ایسا مُصلح بھی جب ایک حد تک ہی کامیاب ہوا تو مابعد آنے والے بھی اس ضمن میں فوری طور پر کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتے تھے۔ حسرتؔ نے اس ضمن میں زیادہ دِقّت نظری سے کام کرتے ہوئے فہرست مرتب کی تاکہ متأخرین اس کتاب سے کسی بیاض اور کارآمد فرہنگ کی طرح مستفیض ہوسکیں۔ اب ذرا دیکھیے کہ حسرتؔ نے کس طرح فہرست مرتب کی ہے: حرف الف ’’اب لگ‘‘ یعنی اب تک یہاں فاضل مؤلف نے ولیؔ گجراتی دکنی کا شعر نقل کیا ہے جو سہوِکتابت کی وجہ سے صحیح پڑھنے میں نہیں آرہا۔ اُپَر بجائے اُوپر: یہ لفظ دورِ دُوُم تک مستعمل رہا، اس کے بعد متروک ہوگیا، مثلاً: (یہاں حسرتؔ نے پھر ولیؔ سے اوّلین مثال پیش کی اور مابعد، دیگر) ولیؔ: جس گرد اُپَر، پاؤں رکھیں تیرے رسولاں اس گرد کو مَیں سُرمہ کروں دیدہ ٔ جاں کا حاتمؔ: گر گلشن اُپَر سایہ پڑا اُس بے مروّت کا کہ چہرے پر کسی گُل کے نہ دیکھا رنگ اُلفت کا میرؔ: حیف ! جو وہ نسخہ د ل کے اُپَر سرسری سی ایک نظر کرگیا پس بجائے اپنے ولیؔ: اے سَروِ گُل اَندام ! پس نقشِ قدم سوں (سے) برجا (بجا) ہے اگر صحن کو گُل پوش کرے تُوں (تُو) اب یہاں جو بات فاضل مؤلف نے نہیں لکھی، وہ خاکسار لکھ رہا ہے کہ تُوں بجائے تُو، آج تک پنجاب کی زبانوں میں زندہ ہے یعنی مستعمل ہے اور اُن بے شمار الفاظ میں شامل ہے جو ہماری پیاری اُردو میں متروک اور غیرمانوس ہوچکے ہیں۔ برجا کا استعمال یقیناً ہمارے شعراء کو چونکا دے گا، کیونکہ اس کی نظیر دُور دُور تک نہیں ملتی۔ آؤ نا بجائے آنا مثلاً قائم چاندپوری: اب تِرے آؤنے کا کیا حاصل کام اپنا تو بس تمام ہوا ضمنی نکتہ یہ ہے کہ قائم جیسے استاد کے اس شعر کے پہلے مصرع میں تنافرِ حرفی وصوتی موجود ہے۔ حرف ’ب‘ باج بمعنیٰ سِواء مثلاً ولیؔ: اس باج دل میں میرے نہیں اور مدّعا اس دل کے مدّعا کو ہمارا سلام ہے باؤ بمعنیٰ ہَوا مثلاً میر حسنؔ: اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم تو دیکھ! آئینہ تاکہ دیدہ ٔ نخچیر سے نہ ہو حرف ’ت‘ تَیں بجائے تُو نے مثلاً آبروؔ: سیاہی کا ہُوا ہے روشنی نام لگایا جب سے تَیں آنکھوں میں کاجل یہاں پہلے حسرتؔموہانی کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں: ’’نواح ِ فتح پور و الہ آباد وغیرہ بعض مشرقی اضلاع ِ صوبہ متحدہ (یعنی یوپی: س ا ص) میں عوام النّاس، تُو نے کی جگہ تَیں نے، اب بھی بولتے ہیں‘‘۔ اب راقم سہیل کا تبصرہ بھی دیکھیں: یہ ’تیں‘ آج بھی تھر کی قدیم صحرائی زبان میں مستعمل ہے، نیز اِس کا استعمال غالباً ہریانوی کی کسی شاخ میں موجود ہے۔ حرف ’ج‘ جاگہ یعنی جگہ مثلاً میرحسنؔ: جس جا پہ تم نے باتیں کی تھیں کھڑے ہو اِک دن جب دیکھتا وہ جاگہ بے اختیار روتا مصحفیؔ: جن دنوں تھی دل سے ہم پر مہربانی آپ کی ہم لیے پھِرتے تھے ہر جاگہ کہانی آپ کی ہمارا ہے ماحول، حیرت کی جاگہ جو دیکھے گا وہ بھی نظر کر رہے گا یعنی ہمارا ماحول ایسی جائے حیرت ہے کہ جو دیکھے گا ، حیرت سے دیکھتا ہی رہ جائے گا۔ جدھر تدھر مثلاً خواجہ میر دردؔ: پھِرتے ہو تم بنائے سج اپنی جدھر تدھر لگ جائے دیکھو نہ کسی کی نظر کہیں جریمانہ بجائے جُرمانہ مثلاً انشاءؔ: لیجئے اس کی بدل آپ جریمانے میں گُم ہوئی مجھ سے جو کل رات کو سرکار کی گیند حسرت ؔ نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بدل بمعنیٰ عِوَض، عوام کی زبان ہے۔ انشاءؔ نے اس شعر میں زبانِ عوام کا استعمال غالباً قصداً کیا ہے، جو اَب بھی جُرمانہ کی جگہ جریمانہ بلکہ جربتانہ بولتے ہیں‘‘۔ راقم سہیل کا خیال ہے کہ ایسے اشعار ہی، معیاری زبان (بشمول شعر کی زبان) میں عوامی بولی ٹھولی عُرف Slang کے بربِنائے ضرورت استعمال کی نظیر فراہم کرتے ہیں، ورنہ یہ کام اس قدر آسان نہیں! حرف ’خ‘ خوشی بجائے خوش مثلاً آتشؔ: بہارِ گلستان کی ہے آمد آمد خوشی پھِرتے ہیں باغباں کیسے کیسے حرف ’د‘ دن بدن بجائے روز بروز۔ بقول حسرتؔ ’’عوام النّاس کی زبان سے اب بھی سُنتے میں آتا ہے‘‘۔ حسرتؔ آج زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر حیران پریشان ہوجاتے کہ ہمارے یہاں تو اچھے اچھے ادیب، شاعر، صحافی، غرضیکہ ہر شعبے کے خواندہ افراد، روزبروز کی بجائے دن بدن بولتے اور لکھتے ہیں۔ راقم نے بہت پہلے اس موضوع پر ’زباں فہمی‘ کا ایک مضمون یا کالم لکھا تھا اور کئی بار یہ بات دُہرائی بھی کہ اگر لفظ دن کا استعمال کرنا ہی ہے تو پھر ’زنانہ بولی‘ کا ’دن پر دِن‘ بولیں جسے بابائے اردو کی سند حاصل ہے۔ مثلاً دردؔ: بڑھے ہے دن بدن تجھ مُکھ کی تاب آہستہ آہستہ کہ جُوں کر گرم ہووے، آفتاب آہستہ آہستہ یہاں دردؔ کے شعر میں چہرے کو مُکھ کہا گیا جو اَب متروک ہے اور جُوں کر بجائے جیسے ہی یا جونہی کہا گیا جو ہمارے دور کے لیے بالکل نامانوس ہے۔ حرف ’ڈ‘ ڈھا جاتا ہے بمعنیٰ گِرا جاتا ہے مثلاً میرؔ: گِروں ہوں ہر قدم پر مَیں ڈھا جاتا ہے جی ہر دَم پہنچتا ہوں تِرے در پر کبھو سو اِس خرابی سے حرف ’ر‘ روونے بجائے رونے مثلاً آرزوؔ (غالباً آرزوؔ لکھنوی): روونے سے عاشقوں کو شوق ہوتا ہے زیاد عیش دوتا ہو ہے مے خواروں کے تئیں، تاروں کے بیچ اس شعر میں کئی الفاظ یا اُن کا املا متروک ہے جیسے روونے بجائے رونے، زیاد بجائے زیادہ، دوتا بجائے دوگنا، تئیں بجائے کو۔ مجھے ایک لمحے کو تعجب ہوا کہ آرزو لکھنوی کا نام کیوں کر شامل ہوا، پھر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ موصوف کا سن پیدائش 1873ء ہے اور سن وفات1951ء (اپریل) یعنی وہ حسرتؔ موہانی کے تقریباً ہم عمر تھے جو 1875ء میں پیدا ہوئے اور 13مئی 1951ء کو فوت ہوئے۔ اس سے ضمنی بات یہ معلوم ہوئی کہ گیت نگاری میں شہرت یافتہ آرزوؔ لکھنوی کو غزل میں بھی وہ مقام حاصل تھا کہ 1925ء میں لکھی گئی کتاب میں اُن کا شعر شامل ہوا۔ حرف ’س ‘ سجن بجائے معشوق مثلاً ولیؔ: دل کو ہوتی ہے سجن، بے تابی زُلف کو ہاتھ لگایا نہ کرو یہاں وضاحت ضروری ہے کہ یہ لفظ بھلے ہی، آج کل اردو میں کم استعمال ہوتا ہے مگر ابھی بعض مقامی، علاقائی زبانوں اور بولیوں میں موجودگی کے سبب، نامانوس نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک مثال ہے کہ کس طرح بڑی زبان کا دیگر زبانوں سے اشتراک ومماثلت کوئی وقتی یا عارضی معاملہ نہیں، بلکہ گاہے گاہے اس کا فائدہ ہوتا رہتا ہے۔ سناہٹا بجائے سنّاٹا مثلاً میرؔ: بادے نسیم، ضُعف سے ہم ناتوان بھی سناہٹے میں جی کے گلستان سے گئے یہاں کاتب نے ’بادِ نسیم‘ کی بجائے بادے نسیم لکھا ہے، جس سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی شائبہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ ’بعدِنسیم‘ تو نہیں۔ کاتب نے سناہٹا کی بجائے سناھٹا لکھا ہے جو غالباً قدیم طرزِکتابت کا نمونہ ہے۔ سوں بجائے سے۔ بقول حسرتؔ ’’اس کا استعمال قُدَماء کے یہاں عام ہے ‘‘۔ مثلاًولیؔ : ولیؔ تیرے لباس سوں اے تنک بھی چلا ہے لذتِ دُشنام لے کر یہاں لفظ ’’تُنَک‘‘ کا استعمال ابہام پیداکررہا ہے۔ شبہ ہے کہ کہیں یہ ’تنگ‘ تو نہیں جسے سہوِکاتب نے ’تنک‘ بنادیا ہو۔ خاکسار نے فوری طور پر ’مضامین اخترؔ جوناگڑھی‘ میں ولیؔ گجراتی دکنی سے متعلق مواد کھنگالا، مگر اُس میں اس کا کوئی نشان نہ ملا۔ سیتی بجائے سے۔ ’’یہ بھی قدماء کے یہاں عام طور سے مستعمل ہے‘‘۔ حسرتؔ نے بجا فرمایا۔ مثلاً ولیؔ : کہتا ہے ولیؔ، دل سیتی یہ مصرعہ رنگین ہے یاد تیری مجھ کو ، سبب راحتِ جاں کا یہاں بھی ایک نکتہ بیان کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’مصرع‘ ہے جسے دورِقدیم کے کاتبوں نے اور پھر مابعد دیگر نے مصرعہ بنادیا، ورنہ یہاں سیدھا سیدھا ’مصرعِ رنگین‘ ہوتا۔ ولیؔ کے علاوہ گجرات، دکن ، پنجاب اور دِلّی ونواح میں یہ لفظ عام تھا۔ اُس دور کے کسی بھی شاعر کے کلام میں مل جائے گا۔ حرف ’ط‘ طرف ہونا بجائے تقابل ہونا مثلاً غالبؔ: دندانِ درِمیکدہ، گستاخ ہیں ناصح زنہار نہ ہونا، طرف اِن بے ادبوں سے دیکھیے کہ غالبؔ جیسے نسبتاً جدید شاعر کے یہاں بھی اُس دور کا ایسا نمونہ موجود ہے۔ حرف ’ع‘ عشق بجائے سلام مثلاً زکیؔ مرادآبادی : عشق ہے رنگِ حنا کو، کہ یہ کس خوبی سے بوسہ لیتا ہے تِرے ہاتھ کی زیبائی کا ۔(جاری)۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل