Loading
ہالینڈ کا ایک چھوٹا سا قصبہ دنیا میں واحد مقام ہے جہاں ایک ایسی فیکٹری واقع ہے جو چپ (chip) بنانے والی خاص قسم کی مشینیں بناتی ہے۔ یہ مشینیں ایسی روشنی پیدا کرتی ہیں جو قدرتی طور پر زمین پر کہیں نہیں ملتی یعنی انتہائی الٹرا وائلیٹ شعاعیں(Extreme ultraviolet)۔ خلا میں صرف نوجوان ستارے یہ خصوصی روشنی خارج کرتے ہیں۔ یہ روشنی، جسے اصطلاح میں ’’ای یو وی‘‘(EUV) کہا جاتا ہے، وسیع پیمانے پر دنیا کی سب سے قیمتی اور اہم ٹیکنالوجیکل ایجاد بنانے کا واحد طریقہ ہے…یعنی جدید ترین سیمی کنڈکٹر جنھیں اینٹی گریٹیڈ سرکٹ، مائکروچپ یا صرف چپ کہا جاتا ہے ۔ماضی میں یہ ڈچ فیکٹری اپنی مشینیں چین کو بھی فروخت کرتی تھی مگر اب امریکہ کے دباؤ پر یہ سلسلہ روک دیا گیاہے۔ دور جدید میں یہی چپس ترقی کی بنیاد بن چکیں۔ دنیا بھر میں بکھرے کمپیوٹر، موبائل فون اور ان گنت الکٹرونکس اشیا انہی چپس کے دم قدم سے کام کرتی ہیں۔ دنیائے انٹرنیٹ کو جن ڈیٹا سرورز نے سنبھال رکھا ہے، انھیں بھی چپس ہی رواں دواں رکھتی ہیں۔ذیل میں ہم وضاحت کرتے ہیں کہ چپس کیسے بنتی ہیں، وہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگوں کا مرکز کیوں بنی ہیں، تائیوان کیوں اس جنگ میں شامل ہوا اور آگے کیا ہوسکتا ہے۔ جوابات ہمیں زیرزمین گہرائی سے بیرونی خلا تک لے جاتے ہیں، دنیا کی گندی ترین جگہوں سے صاف ستھرے مقامات تک، گرم ترین درجہ حرارت سے لے کر سرد ترین مقام تک، انسانوں کی بنائی وائرس سے چھوٹی اشیا سے لے کر اتنے بڑے آلات تک کہ اسے منتقل کرنے میں تین طیاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور آخر میں طبیعات کی ایک ایسی حالت تک جو ایک ہی وقت میں دو مخالف رکھتی ہے۔ چپ کیسے بنتی ہے؟ چپ سلیکان کے پتلے، چپٹے ٹکڑوں کی تہوں سے بنی ہوتی ہیں جنہیں ویفرز کہتے ہیں اور جو برقی سرکٹس رکھتے ہیں۔ یہ سرکٹ اربوں سوئچز پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں ٹرانسسٹر کہتے ہیں۔ ٹرانجسٹروں کے ان نیٹ ورکس پر مشتمل انتہائی پیچیدہ اور طاقتور چپ کو عام طور پر ’’سیمی کنڈکٹر ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اگر آپ سیمی کنڈکٹرز بنانا چاہتے ہیں، تو آپ کو کم از کم 380ملین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ یہ ہالینڈ کی درج بالا کمپنی، ایڈوانسڈ سیمی کنڈکٹر میٹریلز لیتھوگرافی (ASML) کی بنائی جدید ترین ’’ای یو وی‘‘ مشین کی قیمت ہے۔ اس مشین کی شپنگ یا گاہک تک پہنچانا ایک ڈراؤنے خواب کے مترادف ہے: مشین اتنی بڑی اور اتنی نازک ہے کہ اسے ڈچ قصبے ویلڈوون(Veldhoven) میں واقع فیکٹری سے لے جانے کے لیے40مال بردار کنٹینرز، تین کارگو طیارے اور20 ٹرک درکار ہوتے ہیں۔ یہ سارا تام جھام اس لیے ہوتا ہے کہ وہ مشین گاہک کو مل سکے جو ایکس ریز جتنی مختصر طول موج رکھتی روشنی تخلیق کرتی اور جو ٹھوس اشیا کے اندر گھسنے کی توانائی کی حامل ہے۔ چپ بنانے والے ایک پیشین گوئی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے مور کا قانون (Moore’s law)کہا جاتا ہے: یہ کہ چپ صلاحیت یا چپ پر ٹرانزسسٹروں کی تعداد ہر دو سال بعد دوگنی ہو جانی چاہیے۔ اگر چپ کا سائز ایک جیسا رکھنا ہے اور جسے مثالی طور پر چھوٹا ہونا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ٹرانزسٹرز کو ہمیشہ چھوٹے سے چھوٹا ہونا چاہیے۔ڈچ کمپنی کی بنی مشین سلکان ویفرز ان نمونوں کو تراشتی ہے جو ٹرانزسٹرز رکھتے ہیں۔ یہ نمونے یا پیٹرن جتنے باریک ہوں گے، مذید ٹرانزسٹرز کی شکل میں اتنی ہی زیادہ کمپیوٹنگ پاور آپ چپ پر پیک کر سکتے ہیں۔ کمپنی کا ترجمان، مارک اسنک ’’ای یو وی‘‘ روشنی کی طول موج کو قلم سے کھینچی لکیر کی موٹائی سے تشبیہ دیتا ہے۔اگر آپ کسی صفحے پر زیادہ سے زیادہ تفصیل چاہتے ہیں،تو آپ کے قلم کی نوک اتنی ہی پتلی ہونی چاہیے۔ ’’ای یو وی‘‘ روشنی کی طول موج اتنی باریک ہوتی ہے کہ یہ انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتی اور زیادہ تر مواد (میٹریلز)سے گزرجاتی ہے۔ ’’ای یو وی‘‘ روشنی ٹن کی خوردبینی گیندوں پر لیزر فائر کرکے پیدا کی جاتی ہے۔ لیزر سے ٹن بخارات بن کر پلازما بن جاتا ہے اور پلازما ’’ای یو وی‘‘ روشنی خارج کرتا ہے جسے لیتھوگرافی مشین کے ذریعے منتقل کر کے خاص طور پر بنائے گئے آئینے سے ٹکرایا جاتا ہے۔ روشنی کو پھر "ماسک" کے ذریعے چمکایا جاتا ہے، جو سلیکون ویفر پر چپ کی پرت کا نمونہ ہوتا ہے۔ روشنی کے سامنے آنے والا علاقہ سخت ہو جاتا ہے اور جو علاقہ بے نقاب نہیں ہوتا وہ کیمیائی محلول میں تحلیل ہو جاتا ہے جس سے ایک تھری ڈی پیٹرن پیچھے رہ جاتا ہے۔ چپ کو دراصل سو منازل رکھنے والی ایک عمارت کی طرح دیکھیے۔ ایسی ہر عمارت کو بنانے میں چار مہینے لگتے ہیں اور ہر منزل کی اپنی ترتیب ہوتی ہے…اور صرف ایک ترتیب کی خصوصیات 25 نینو میٹر تک باریک ہو سکتی ہیں، گویا انفلوئنزا وائرس کے ذرات سے بھی چھوٹی جو تقریباً100 نینو میٹر قد رکھتے ہیں۔ لیتھوگرافی مشینیں ایک ایک کرکے ان تہوں کے نمونوں کو تراشتی ہیں۔ ’’ای یو وی‘‘ روشنی پیدا کرتی مشینیں بنانا آسان نہیں۔ خود چپس کی طرح ان کو بھی دھول مٹی سے مکمل پاک کمروں میں بنایا جاتا ہے۔فیکٹری میں یہ کمرے زمین پر سب سے صاف جگہ ہوتے ہیں۔دراصل چپس ایٹم کی سطح پر بنائی جاتی ہیں اور دھول کا محض ایک دھبہ بھی انہیں بیکار بنا سکتا ہے۔ تائیوان اتنا اہم کیوں ؟ ڈچ کمپنی، ایڈوانسڈ سیمی کنڈکٹر میٹریلز لیتھوگرافی چپس بنانے والی مشینیں تیار کرتی ہے۔ لیکن وہ چپس خود نہیں بناتی۔ یہ کام خاص طور پر ایک اور قابل ذکر کمپنی کے ذریعے کیا جاتا ہے جس کا نام ہے: تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی(TSMC)۔ یہی تائیوانی کمپنی دنیا کی ہر دس میں سے نو جدید ترین چپس یا سیمی کنڈکٹرز تیار کرتی ہے ، بشمول وہ جو آئی فونز کو طاقت دیتے ہیں۔ چونکہ تائیوان امریکہ کی ٹیک کمپنیوں کے لیے لاکھوں چپس بناتا اور سپلائی کرتا ہے، اس لیے وہ اس کا دفاع مضبوط کرنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ چین اس جزیرے کو اپنی ملکیت سمجھتا اور وقتاً فوقتاً دہمکی دیتا رہتا ہے کہ وہ حملہ کر کے تائیوان کو اپنی مملکت میں شامل کر لے گا۔ 2022 ء میں امریکہ نے ہالینڈ کی حکومت کو ایڈوانسڈ سیمی کنڈکٹر میٹریلز لیتھوگرافی کی بنائی مشینوں پر ایکسپورٹ کنٹرول رکھنے کے لیے راضی کیاتھا۔ اس طرح چین کو ان کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔ ڈچ کمپنی کا کہنا ہے،تب سے آج تک ’’ای یو وی‘‘ روشنی کو جنم دیتی کوئی لتھوگرافی مشین چین نہیں بھیجی گئی۔اس کا مطلب ہے جب تک چین اپنی مقامی ساختہ ’’ای یو وی‘‘ روشنی والی لتھوگرافی مشینیں ایجاد نہیں کرتا، وہ مغربی ممالک کی نسبت چند سال پرانی اور کم طاقتور ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرے گا ۔ مثال کے طور پر ڈچ کمپنی نے اب انتہائی الٹرا وائلٹ کے بجائے گہری الٹرا وائلٹ لیتھوگرافی مشینیں ایجاد کر لی ہیں جو نہایت چھوٹی چپس بنانے پر قادر ہیں۔ اس کی انتہائی الٹرا وائلٹ مشینیں جو چین کے پاس ہیں، اب بھی پیچیدہ چپس تیار کر سکتی ہیں مگر بالکل پیچیدہ نہیں۔ مصنوعی ذہانت ایک اور جدید ٹیکنالوجی ہے جس میں امریکہ اور چین آگے بڑھنے کے لیے سخت مقابلہ کر رہے ہیں اور یہ قوت دنیا کی سب سے پیچیدہ اور طاقتور چپس پر انحصار کرتی ہے۔ ان پیچیدہ ترین اور طاقتور چپس کی ایک معروف ڈیزائنر نویڈیا(Nvidia) نامی امریکی کمپنی ہے۔ اس امریکی کمپنی کی چپس تائیوان کی ٹی ایس ایم سی کمپنی ڈچ کمپنی کی بنائی مشینوں کے ذریعے تیار کرتی ہے۔ چین ’’ای یو وی‘‘ روشنی کو جنم دیتی جدید ترین لیتھوگرافی مشینوں تک رسائی نہیں رکھتا۔ یہ امر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ چینی چیٹ بوٹ ’’ڈیپ سیک‘‘ کے آغاز سے امریکی ٹیک کمپنیوں کے حصص سٹاک مارکیٹوں میں کیوں بے انتہا گر گئے اور وہاں صدمے کی کیفیت محسوس کی گئی۔ معنی یہ تھے کہ ایک چینی کمپنی نے کم جدید اور سستی ٹیکنالوجی کے ساتھ چیٹ جی پی ٹی جیسی طاقت رکھنے والی پروڈکٹ تیار کر لی جو اپنے عمل کی خاطر جدید ترین چپس استعمال کرتی ہے ۔ ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس چیٹ بوٹ کی تربیت پر صرف چھ ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی کمپنیوں کی طرف سے اسی کام کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ امریکی ماہر کمپیوٹر اور ایک اہم کتاب، چپ وار: دی فائٹ فار دی ورلڈز موسٹ کریٹیکل ٹیکنالوجی کے مصنف کرس ملر کہتے ہیں’’ امریکہ کا خیال ہے کہ اے آئی تبدیلی کو جنم دیتی ٹیکنالوجی ہے۔وہ معیشت کے تقریباً ہر شعبے کو متاثر کرے گی۔لہذا وہ نہیں چاہتا کہ چین اس سے فائدہ اٹھائے۔‘‘مشہور امریکی دفاعی تھنک ٹینک، سینٹر فار سیکیورٹی اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے مطابق مصنوعی ذہانت دفاع اور انٹیلی جنس کے لیے بھی اہم ہے۔ چینی پیپلز لبریشن آرمی نے حالیہ برسوں میں لڑائی میں اے آئی کو استعمال کرنے کی اپنی کوششوں میں "نمایاں پیش رفت" کی ہے۔ لیکن ہر کوئی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ ڈچ کمپنی کی بنائی مشینوںکو چین سے دور رکھا جائے۔ حتی کہ خود ڈچ کمپنی بھی اس امر کی مخالف ہے۔پچھلے سال اکتوبر میں بلومبرگ کی ایک کانفرنس میں یہ پوچھے جانے پر کہ (چین پر عائد) پابندیاں واقعی (امریکہ و یورپ کی )سیکیورٹی کے خطرات کے بارے میں ہیں، ایڈوانسڈ سیمی کنڈکٹر میٹریلز لیتھوگرافی کے سی ای او، کرسٹوف فوکیٹ نے کہا: "زیادہ سے زیادہ لوگ خود سے یہی صحیح سوال پوچھ رہے ہیں … کیا یہ واقعی قومی سلامتی کے بارے میں ہیں؟"یہ بحث زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی ضرورت نہیں : 2024 ء میں چینی کمپنی شنگھائی مائیکرو الیکٹرانکس کمپنی (SMIC) نے انکشاف کیا کہ ایک سال قبل اس نے اپنی بنائی ’’ای یو وی‘‘ لتھوگرافی مشین کے لیے پیٹنٹ دائر کر دیا تھا۔ نایاب دھاتیں کہاں سے آتی ہیں؟ چین جدید ترین چپس تیار کرنے کی دوڑ میں امریکہ و مغربی ممالک کے مقابلے میں ایک اہم برتری رکھتا ہے۔ سلیکون کے علاوہ چپس یا سیمی کنڈکٹرز بنانے کی خاطر مخصوص دھاتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جنھیں ’’نایاب ارضی دھاتیں‘‘ (Rare Earths)کہا جاتا ہے۔ان میں جرمینیم اور گیلیم نمایاں ہیں۔ 2030 ء تک گیلیم کی طلب 2015 کی سطح سے 350 فیصد سے زیادہ بڑھنے کا امکان ہے۔ اسی مدت کے دوران جرمینیم کی طلب دوگنی ہونے کی توقع ہے۔ چین دنیا میں خام گیلیم کا 98 فیصد اور دنیا کے خام جرمینیم کا دو تہائی سے زیادہ پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امداد کے بدلے یوکرین پر اپنی نایاب دھاتیں امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ٹرمپ کی پہلی ملاقات کے بعد جوڑے نے اعلان کیا تھا کہ وہ نایاب دھاتوں کے لیے ایک’’ بازیابی اور پروسیسنگ اقدام" شروع کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔بعد ازاں گو یہ منصوبہ مختلف وجوہ کی بنا پر پس پشت چلا گیا۔ کیا کوانٹم چپس سب کچھ بدل دے گی؟ کوانٹم چپس بھی میدان میں آ رہی ہیں۔نظریاتی طور پر کوانٹم چپس ایجاد ہو گئیں تو ان کی مدد سے کمپیوٹروں کو دنیا کے موجودہ سپر کمپیوٹرز کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے مسائل حل کرنے کی طاقت مل جائے گی ۔ وجہ یہ ہے کہ عام چپ آن یا آف، یا صفر یا ایک کے اصول پر کام کرتی ہے جبکہ ہونے کے کوانٹم چپس ایک ہی وقت میں دونوں حالتیں رکھ سکتی ہیں۔ کوانٹم چپس کے عمل کو بھول بھلیاں کی مدد سے سمجھیے۔ ایک عام کمپیوٹر ہر ایک کے بعد ایک آپشن کی جانچ کرکے بھول بھلیاں میں راستہ تلاش کرتا ہے۔ ایک کوانٹم کمپیوٹر سب آپشنوں کو ایک ساتھ جانچ کرنے کی طاقت رکھے گا۔ اب تک کوانٹم کمپیوٹنگ صرف محدود حالات میں حاصل کی گئی ہے۔ لیکن مائیکروسافٹ نے کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا کہ اس نے ایک کوانٹم چپ بنالی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوانٹم کمپیوٹر دہائیوں کے بجائے برسوں میں بنائے جا سکتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ چین ہی کوانٹم کمپیوٹنگ پر سرمایہ خرچ کررہا ہے۔ ایک یورپی تھنک ٹینک مرکٹر انسٹی ٹیوٹ آف چائنا اسٹڈیز کے مطابق کوانٹم ٹیکنالوجی پر چین کے عوامی اخراجات امریکہ سے چار گنا زیادہ ہیں۔ نیز کوانٹم چپس ’’ای یو وی‘‘ مشینوں سے نہیں بنتی ہیں۔ یہ ایسی مشینوں کے ذریعے بنائی جاتی ہیں جو الیکٹرانز کا استعمال کرتے ہوئے چپس میں پیٹرن تراشتی ہیں۔ چین کے پاس یہ مشینیں ہیں۔ فزکس کے پروفیسر اور سڈنی یونیورسٹی کے کوانٹم پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ ریلی کا کہنا ہے کہ چین کے پاس ایک ایسا وسیلہ بھی ہے جسے اکثر چپس کے سلسلے میں جاری بحثوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔’’جدید دور میں بھی کامیابی کی کلید لوگ ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کامیابیاں اس لیے ملتی ہوتی ہیں کہ لوگ ضرورت کو دیکھتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے موجودہ طریقے کیا ہیں۔وہ تصّور کر تے ہیں کہ مذید نئے کیا ہو سکتے ہیں۔چین میں بہت سارے ذہین لوگ موجود ہیں۔ وہ بہت سارے سٹیم(Stem) گریجویٹ پیدا کرتے ہیں۔ اور ایسے کئی گریجویٹ امریکہ، آسٹریلیا، یورپی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کی ڈگریاں لے کر چین آتے ہیں۔میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ حکومتیں اندھی ہیں اور انھیں یہ عمل دکھائی نہیں دے رہا لیکن ہم ٹھوس چیزوں کی منتقلی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ایجادات خلا میں جنم نہیں لیتیں۔ ‘‘ امریکہ کا تازہ حملہ چین کئی برسوں سے عالمی چِپ جنگ میں شریک رہنے کے باوجود اب بھی کئی ایشیائی کمپنیوں کے لیے ایک اہم آپریشنل بیس ہے۔ لیکن امریکہ دور بیٹھ کر بھی طاقت کے اہم اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے۔تازہ مثال: امریکی حکومت نے تائیوان اور جنوبی کوریا کے چِپ جائنٹس کو دی گئی وہ اجازت واپس لے لی ہے جس کے تحت وہ آزادانہ طور پر امریکی ٹیکنالوجی سے چلنے والے اہم آلات اپنی چین کی فیکٹریوں کو بھیج سکتے تھے۔ یہ تبدیلی، جو اگلے سال سے نافذ ہوگی، پیداوار کو شدید متاثر کر اور بالآخر ان پلانٹس کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔بائیڈن دور میں دی گئی رعایت کے تحت چِپ بنانے والی کمپنیاں تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی، SK Hynix اور سام سنگ چین کو اہم پیداواری مشینری بھیج سکتی تھیں۔ اب اس رعایت کو ختم کرنا اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ عالمی چِپ سپلائی چین میں امریکہ کتنا اہم ہے اور ان تمام مصنوعات کے لیے بھی جو چِپس سے چلتی ہیں، چاہے وہ کاریں ہوں، فونز ہوں یا ہتھیاروں کے نظام۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی اور سام سنگ چِپ مینوفیکچرنگ میں بڑے رہنما ہیں، لیکن چِپ ڈیزائن اور متعلقہ سافٹ ویئر کے شعبے میں امریکہ اب بھی غالب حیثیت رکھتا ہے، جس کی بہترین مثال نویڈیا کی اے آئی چِپس پر اجارہ داری ہے۔ تائیوانی اور جنوبی کوریائی کمپنیاں امریکی کمپنیوں جیسے Applied Materials، Lam Research اور KLA کے اہم آلات پر بھی بھاری انحصار کرتی ہیں۔ واشنگٹن کا یہ قدم اس مشکل توازن کو بھی اجاگر کرتا ہے جس کا سامنا ان کمپنیوں کو دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے بڑھتے ہوئے تناؤ کے دوران کرنا پڑ رہا ہے۔امریکی محکمہ تجارت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پالیسی تبدیلی برآمدی کنٹرول میں موجود ایک "خلا" بند کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ محکمہ نے مزید کہا کہ وہ ایسی لائسنسنگ دینے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے یہ کمپنیاں چین میں اپنا آپریشن جاری رکھ سکیں گی لیکن اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ یا ٹیکنالوجی اپ گریڈ نہیں کر سکیں گی۔تاہم ماہرین کو تشویش ہے کہ آیا یہ لائسنس اتنی تیزی سے جاری ہوں گے کہ بیرون ملک آپریشن متاثر نہ ہوں۔ چِپ سازی ایک انتہائی باریک کام ہے جس میں مسلسل ایڈجسٹمنٹس، دیکھ بھال اور اپ ڈیٹس درکار ہوتے ہیں تاکہ مشینوں کی ایک بڑی رینج کے ذریعے دسیوں ارب ٹرانزسٹرز جو انسانی بال کی موٹائی سے دس ہزار گنا چھوٹے ہوتے ہیں ، ایک واحد مائیکروچِپ پر کندہ کیے جا سکیں۔CLSA بروکریج فرم میں کوریا ریسرچ کے سربراہ سنجیو رانا کے مطابق ہر مرحلے کے لیے لائسنس کے لیے درخواست دینا ایک "مشکل اور پیچیدہ" عمل ہے۔ تاخیر سے آپریشن میں رکاوٹ آ سکتی ہے جس کے نتیجے میں میموری چِپس کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے یعنی وہ سیمی کنڈکٹر جو ڈیٹا اسٹور کرنے والے ڈیوائسز میں استعمال ہوتے ہیں اور جنہیں سام سنگ اور SK Hynix چین میں تیار کرتے ہیں۔ دونوں کوریائی کمپنیاں اس تبدیلی سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کی چین میں موجودگی زیادہ ہے۔ ایکویٹی ریسرچ فرم برنسٹین کے مطابق سام سنگ کی چین میں قائم فیکٹری اس کی نینڈ( NAND )چِپس (میموری چِپس کی دو اقسام میں سے ایک، جو ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے بجلی کی ضرورت نہیں رکھتیں) کا تقریباً 30 فیصد تیار کرتی ہے۔اسی دوران SK Hynix اپنی تقریباً 37 فیصد نینڈ چِپس اور 35 فیصدڈی ریم ( DRAM )چِپس (جو قلیل مدتی اسٹوریج فراہم کرتی ہیں) چین میں تیار کرتی ہے۔ برنسٹین کے اعداد و شمار کے مطابق سام سنگ اور SK Hynix کی چین میں موجود فیکٹریاں مجموعی طور پر دنیا کی 15 فیصد نینڈ چِپس اور 10 فیصد DRAM چِپس کی پیداوار میں حصہ ڈالتی ہیں۔اگرچہ یہ کمپنیاں وقت پر لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں، پھر بھی چین میں ان کی فیکٹریوں کی مسابقت وقت کے ساتھ نمایاں طور پر کم ہو جائے گی۔سنجیو کہتے ہیں "موجودہ صورتحال میں میرے خیال میں طویل مدت میں میموری چِپس کی پیداوار جاری رکھنا مشکل ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ آخرکار چاہتا ہے کہ یہ کمپنیاں میموری فیبز (یعنی فیکٹریاں) یا کم از کم کچھ پیداواری صلاحیت امریکہ میں قائم کریں۔" واشنگٹن کی طرف سے یہ سخت اقدامات اس بات کے برعکس ہیں جو امریکی بڑی ٹیک کمپنیوں کی خواہشات کے باعث صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لچکدار رویے سے ظاہر ہوا تھا، یعنی چین پر عائد پابندیوں کو نرم کرنے کی کوشش۔ حالیہ مہینوں میں ٹرمپ نے بائیڈن دور کی وہ پابندیاں ہٹا دی ہیں جو عالمی سطح پر اے آئی چِپس تک رسائی کو محدود کر رہی تھیں اور چین کو نویڈیا کی کچھ چِپس کی فروخت کی اجازت بھی دی ہے۔ امریکہ ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت سے ہی چین کی ٹیکنالوجی میں ترقی کو محدود کرنے کی کوششیں بڑھاتا رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے 2022 ء میں امریکہ کے اسٹریٹیجک حریف کو چِپس اور چِپ بنانے والے آلات کی فروخت پر وسیع پابندیاں عائد کی تھیں تاہم تین بڑی چِپ کمپنیوں کی چین میں موجود فیکٹریوں کو ان پابندیوں سے استثنا دیا گیا تھا۔ SK Hynix نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس اقدام کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی اور کوریائی و امریکی حکومتوں دونوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گی۔ سام سنگ نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ماہرین کے مطابق SK Hynix اور سام سنگ کی چین میں زیادہ موجودگی کے برعکس تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی پر اس اجازت نامے کی منسوخی کا اثر محدود ہوگا، کیونکہ وہ چین میں صرف کم مقدار میں نسبتاً کم ترقی یافتہ کمپیوٹنگ چِپس تیار کرتی ہے۔ تائیوان کی بڑی چِپ ساز کمپنی نے اگرچہ امریکہ، جاپان اور جرمنی میں پھیلاؤ کے بڑے منصوبے شروع کیے ہیں، لیکن مارکیٹ ریسرچ فرم ٹرینڈ فورس کے مطابق 2030 ء تک اس کی کم از کم 80 فیصد پیداواری صلاحیت تائیوان ہی میں برقرار رہے گی۔ایک بیان میں کمپنی نے کہا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے اور مناسب اقدامات کر رہی ہے، جن میں امریکی حکومت کے ساتھ رابطہ بھی شامل ہے۔ کمپنی نے کہا: "ہم TSMC نانجنگ کے بلا تعطل آپریشن کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔‘‘ تائیوان کی وزارتِ اقتصادی امور نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کا یہ اقدام تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی کی چین میں سرگرمیوں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم چونکہ نانجنگ پلانٹ کمپنی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کا صرف 3 فیصد ہے، اس لیے اس تبدیلی سے تائیوان کی چِپ انڈسٹری کی مسابقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چینی کمپنیوں کے لیے غیر ارادی فائدہ گزشتہ دہائی میں چین نے سیمی کنڈکٹر سپلائی چین میں خود انحصاری پیدا کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، جس کی ضرورت اس وقت اور زیادہ بڑھ گئی جب ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت سے ہی واشنگٹن نے ٹیکنالوجی پر پابندیاں سخت کرنا شروع کر دیں۔میموری چِپس کے شعبے میں چین کی چپ ساز کمپنیاں، CXMT اور YMTC ایک ایسے بازار میں نمایاں حریف بن کر ابھری ہیں جو طویل عرصے سے سام سنگ، SK Hynix اور امریکہ کی مائکرون کے زیرِ اثر رہا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق وائٹ ہاؤس کا حالیہ اقدام ان چینی کمپنیوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، چاہے اس سے چین کی غیر ملکی سیمی کنڈکٹرز تک رسائی مزید محدود ہو جائے۔کارنیگی میلَن انسٹیٹیوٹ برائے حکمتِ عملی و ٹیکنالوجی کے محقق ٹرائے اسٹینگرون کہتے ہیں: "اگرچہ مارکیٹ شیئر میں سام سنگ اور SK Hynix اب بھی چینی حریفوں سے آگے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اپنی چینی فیکٹریوں میں آلات کو اپ گریڈ کرنے سے قاصر رہنے پر یہ کمپنیاں اپنا حصہ کھوتی جائیں گی کیونکہ ان کی فیکٹریاں کم مسابقتی ہو جائیں گی۔‘‘ اسٹینگرون نے مزید پیچیدگیوں کے خدشات کا بھی اظہار کیا۔ گزشتہ ماہ ٹرمپ کے ساتھ ایک غیر معمولی معاہدے میں نویڈیا اور اے ایم ڈی کمپنیوں نے اتفاق کیا کہ وہ چین میں ہوئی چِپ فروخت کی آمدنی کا 15 فیصد امریکی حکومت کو بطور فیس ادا کریں گے تاکہ برآمدی لائسنس حاصل کر سکیں۔اسٹینگرون نے کہا:’’ یہ خارج از امکان نہیں کہ سام سنگ اور SK Hynix کے لیے بھی یہی ماڈل اپنایا جائے، یعنی چین میں اپنے آپریشنز جاری رکھنے یا اپ گریڈ کرنے کے لیے درکار لائسنسز کے بدلے آمدنی کا حصہ دینا پڑے۔‘‘ فی الحال بیجنگ نے ہمیشہ کی طرح اس امریکی اقدام کی بھی مخالفت کی ہے، جیسا کہ وہ ماضی میں چین کے خلاف ٹیکنالوجی کنٹرولز کو سخت کرنے کی ہر امریکی کوشش کے خلاف کرتا رہا ہے۔چینی وزارتِ تجارت کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو "اپنی غلطی درست کرنی چاہیے۔" اور یہ کہ بیجنگ اپنے کاروباری اداروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل