Loading
برطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمود نے ملک کے سیاسی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلیوں کا دفاع کیا ہےاور کہا ہے کہ موجودہ پالیسیاں بےقابو اور غیر منصفانہ ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ تبدیلیاں کرنا ناگزیر تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہاؤس آف کامنز میں خطاب کرتے ہوئے شبانہ نے کہا کہ اگر ہم اس پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہم عوام کو ایک ایسے راستے پر دھکیل دیں گے جو غصے سے شروع ہوتا ہے اور نفرت پر ختم ہوتا ہے۔
پالیسی میں کی گئیں تبدیلیوں کے تحت پناہ گزینوں کی حیثیت عارضی ہو جائے گی جبکہ پناہ کے متلاشیوں کے لیے گارنٹیڈ ہاؤسنگ سپورٹ ختم ہو جائے گی اور برطانیہ میں نئے ’محفوظ اور قانونی راستے‘ بنائے جائیں گے.
اس کے علاوہ مستقلاً رہائش جہاں 5 سال کے بعد ملتی تھی، اب نئی تجویز کے مطابق اس مدت کو 20 سال تک بڑھایا جائے گا۔ پناہ گزینوں کے خاندانی ری یونین حقوق ختم یا محدود کیے جائیں گے۔ جو لوگ پناہ گزین تسلیم کیے جائیں گے انہیں خود اپنے خاندان کو برطانیہ لانے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
مزید برآں ان پناہ گزینوں کے لیے جو غیر قانونی راستوں سے آئے ہیں، شہریت حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ ان سے ’اچھا کردار‘ کا ٹیسٹ زیادہ سخت لیا جائے گا جبکہ ان کی درخواستیں عموماً مسترد بھی کی جاسکتی ہیں۔
تبدیلیوں کے حوالے سے کچھ لیبر ممبران پارلیمنٹ نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ نادیہ وٹوم نے ان منصوبوں کو شرمناک" قرار دیا تاہم کنزرویٹو نے ان اقدامات کا محتاط انداز میں خیر مقدم کیا ہے۔
کنزرویٹیو لیڈر کیمی بیڈینوک نے کہا کہ اگرچہ یہ تجاویز "تھوڑی مثبت" ہیں تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ جب تک برطانیہ یورپی کنوینشن برائے انسانی حقوق کو نہیں چھوڑتا، شبانہ کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔
کیمی نے وزیر داخلہ پر زور دیا کہ وہ کنزرویٹو کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ اگر لیبر پارٹی کے بیک بینچر تبدیلیوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں تو ہمارے ووٹ کارآمد ہوں گے۔
واضح رہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران ارکان پارلیمنٹ کے اعتراضات کے بعد حکومت کو اپنی کچھ پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل