Loading
لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد14 اگست1947 ء کو پاکستان وجود میں آیا، ہندو راہ نماؤں نے دلی طور پر ہندوستان کے بٹوارے کو قبول نہیں کیا اور اول دن سے ہی وہ اس کی مخالفت اور سازش میں لگے رہے۔ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد آباد تھی اور معیشت ان کے ہاتھ میں تھی۔ سستی کتابیں کلکتہ سے پرنٹ ہوکر آتی تھیں جن میں ہندو مذہبی عقائد کو بنگلا زبان میں کہانیوں کا نام دے کر نصاب و دیگر کتابوں میں شامل کردیا جاتا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوزائدہ مشرقی پاکستان میں 1948ء میں بابائے قوم محمد علی جناح نے ڈھاکا میں دورے کے موقع پر ایک اجتماع سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی، جس پر جلسہ گاہ میں بنگالی طلباء نے احتجاج کیا۔ قائداعظم کا انتقال 1948ء میں ہوا ۔ اِن کے بعد خواجہ ناظم الدین جو اُس وقت وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان تھے، نے گورنرجنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔ 1949ء میں نورالامین مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ بنے، اُن کے آبائی علاقے میں ایک ضمنی انتخاب کے موقع پر مسلم لیگی امیدوار کو شکست ہوئی اور کم مشہور آدمی شمس الحق نے انتخاب جیت لیا، یہ پاکستان کی سیاست میں ایک اہم موڑ تھا، ہندوؤں کی کارستانیاں بھی ظاہر ہونے لگیں۔ نومبر1950ء میں ’’گرانڈ نیشنل کانفرنس‘‘ کا انعقاد ڈھاکا میں ہوا، جس میں یہ تجویز کیا گیا کہ ’’مملکت کا نام ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان‘‘ اور سرکاری زبان اُردو اور بنگلہ ہوگی۔ بنگالی طالب علموں نے اس کے نفاذ کے لیے تحریک کی ابتدا ’’ایکشن کمیٹی‘‘ کے قیام سے کی۔ وہ اُردو کے مخالف نہیں تھے بلکہ بنگلہ زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اُس وقت عزیز احمد چیف سیکریٹری مشرقی پاکستان تھے، بعدازآں ’’یوتھ لیگ‘‘ نے 1951ء میں ’’Language Movemnet‘‘ کی تحریک میں ہراول دستہ کا کردار اختیارکرتے ہوئے پوری شدت سے مشرقی پاکستان کی مکمل خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ بنگالی زبان کے شاعروں،ادیبوں، دانش وروں را بندرناتھ ٹیگور، قاضی نذرالسلام، قوی جسم الدین وغیرہ کی سال گرہ اور برسی کے موقع پر مختلف پروگرام ترتیب دینے کا آغاز کردیا گیا۔ 21فروری 1952ء کو ڈھاکا میں صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ’’یوتھ لیگ‘‘ نے اسمبلی کا گھیرا کرکے زبردست اور پُرتشدد احتجاج کیا۔ احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں کئی طلباء ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اس دوران کیپٹن ریٹائرڈ مسعود محمود کو قائم مقام سپرنٹنڈنٹ آف پویس کا چارج دیا گیا۔ وہی مسعود محمود جن کو ذُوالفقار علی بھٹو نے فیڈرل سیکیوریٹی فورس کا ڈائریکٹر جنرل بنایا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مقیم اُردو زبان کے شاعروں، ادیبوں، دانش وروں ڈاکٹر یوسف حسن، عارف ہوشیارپوری، صلاح الدین محمد، مسعود کلیم، اختر پیامی، اخترحیدرآبادی، ادیب سہیل، خواجہ محمد علی، بدرالدین احمد ، پرویز احمد حسن سید، ابوسعیدخان، زین العابدین، نوشاد نوری، سرور بارہ بنکوی، بانواختر، اُمِّ اماّرہ، انور فرہاد سمیت دیگر زعماء اخبارات، مذاکروں، مراسلات اور عملی جدوجہد کے ذریعے احتجاج میں شامل ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ بنگلا کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر یوسف حسین کو جو کہ ’’راشتر و بھاشا سنگرام پریشد‘‘ (Rashtro Bhasha Sangram Porishod) کے بانی اراکین میں سے تھے، جیل میں ڈال دیا گیا۔ اُن کا جرم بنگلا زبان کی تحریک میں ساتھ دینا تھا، حال آںکہ ان کا تعلق اُردوداں طبقے سے تھا۔ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے 09 فروری1954 ء کو ایک بل پاس کیا جس کے نتیجے میں طے پایا کہ اُردو اور بنگلا دونوں مملکت کی زبانیں ہوںگی۔ 1956 ء کے آئینِ پاکستان میں بنگلا اور اُردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ 1962ء میں نیا آئینِ پاکستان تشکیل دیا گیا جس میں اردو اور بنگلا دونوںکو قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔ صوبائی جنرل الیکشن کا انعقاد 1954ء میں ہوا۔ بانی پاکستان جماعت مسلم لیگ کے مقابلے میں یونائیٹڈ فرنٹ (United Front) کا قیام عمل میں آیا جس میں عوامی لیگ، کریشک سرامک پارٹی (Saramik Party Krishak) جناتن تاری دَل (Ganatan Tari Dal) ’’نظامِ اسلام‘‘ پارٹی شامل تھیں۔ انہوں نے اے۔ کے فضل الحق، حسن شہید سہروردی، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی متحدہ قیادت میں انتخاب میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلی کی273 نشستوں میں سے مسلم لیگ کو صرف 09 سیٹیں ملیں۔ مسلم لیگ کے وزیراعلیٰ نورالامین سمیت سب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ نے بے مثال کام یابی کے بعد وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبے کو مکمل خودمختاری دی جائے، وفاق صرف دفاع، خارجہ اور کرنسی اپنے پاس رکھے، بحریہ کا صدر دفتر مشرقی پاکستان میں ہو۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے21 نکات نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت کے نظریات کو مضبوط کیا۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کی حکومت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں جو بنگالی ارکان منتخب ہوئے ہیں، وہ استعفیٰ دیں کیوںکہ ان کی نمائندگی مشرقی پاکستان کی پچھلی اسمبلی سے ہے۔ ’’یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے لیڈر فضل الحق نے ایک موقع پر اعلان کیا کہ ہمارا آخری مقصد مشرقی پاکستان کی آزادی ہے۔آدم جی جوٹ ملز کرانا فلی پیپر ملز اور دیگر علاقوں میں لسانی فسادات شروع ہوگئے۔ بڑی تعداد میں غیربنگالیوں کا قتل عام ہوا۔ مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں میں حالات کی خرابی کو جواز بناکر صوبائی حکومت توڑ کر گورنر راج نافذ کردیا۔ بعدازآں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نیا آئین تشکیل پایا۔ اس کے بعد ملک انتخابی عمل سے گزرا، لیکن 08 اکتوبر1958 ء کو عوام کے بنیادی حقوق سلب کردیے گئے، جنرل محمد یوب خان نے ملک میں مارشل لا لگادیا۔ بعد ازآں نومبر1959 ء میں بنیادی جمہوریت المعروف بی۔ڈی سسٹم کا نظام نافذ کیا گیا۔ 17؍دسمبر1962ء کو ڈھاکا میں طلباء نے جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہرے، جلوسوں اور جلسے کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے حالات کو سنبھال نے کے لیے آرمی طلب کرلی۔ ان دنوں کشمیر میں حضرت درگاہ بل کی مسجد سے موئے مبارک کی چوری کے اعلان کے بعد مشرقی پاکستان میں ہندومسلم فسادات شروع ہوگئے۔ امن عامہ کی صورت حال نہایت سنگین تھی، مسلمان بنگالی اور ہندو بنگالی اس موقع پر ایک ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری زبان اور ہمارا کلچر ایک ہے اور باہر سے آنے والوں نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ہے۔ ہندو دراصل قیام پاکستان کا بدلہ چکانا چاہتا تھا۔ اس نے اب تک ملک کا بٹوارا اور دو قومی نظریہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہندو ٹیچروں کی بہت بڑی تعداد تھی، ہندوؤں کے مذہبی تہوار، دُرگا مائی، کالی مائی کے تہوار بنگالی مسلمان بھی بڑے اہتمام اور خوشی سے مناتے تھے اور ان کی تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ 1965ء کی کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیCombined Opposition Party(COP) نے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں نام زد کردیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔ ووٹر صرف B.D ممبر تھے، جو حکم رانوں کے ساتھ تھے، B.Dممبرز کی تعداد آٹھ ہزار(8000) تھی، اس طرح ایوب خان جیت گیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان کے دفاع کے مسئلے پر بنگالیوں کو تشویش ہوئی۔ انہیں احساس دلایا گیا کہ مغربی پاکستان ہمارا دفاع نہیں کرسکتا۔ پاکستان عوامی لیگ نے اِن شبہات کو ہوا دی۔ اس جنگ کے بعد عوامی لیگ نے اپنا چھے نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جنرل ایوب خان نے اسے ہندوستانی سازش قرار دیا۔ بنگالی عوام کے چھے نکات کو آہستہ آہستہ مقبولیت حاصل ہونے لگی، ملک دشمنی کی بنیاد پر 1966ء کو شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر مشہور زمانہ اگرتلہ سازش کیس کا الزام لگا، عوامی لیگ نے 07 جون 1966ء کو عام ہڑتال کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں پولیس کی فائرنگ سے 40 سے زاید عوامی لیگ کے کارکنوں کی اموات ہوئیں، ادھر مغربی پاکستان میں بھی مہنگائی اور دیگر وجوہات کی بناء پر پُرتشدد واقعات شروع ہوچکے تھے۔ بالًا خر ایوب خان کے اقتدار کا سورج 25 ؍مارچ 1969ء کو غروب ہوگیا۔ جنرل یحییٰ خان مارشل لا نافذ کرکے کرسی اقتدار پر براجمان ہوگئے۔ ادھر پورے مشرقی پاکستان میں بنگالی نیشلزم کا آتش فشاں بھڑک رہا تھا، مغربی پاکستان والے جوٹ، چائے وغیرہ کی دولت لوٹ کر لے جارہے تھے، اس قسم کے بے شمار الزامات مغربی پاکستان پر لگائے گئے، مشرقی پاکستان میں بھیانک طوفان آیا، کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے، عوامی لیگ نے سیلاب اور طوفان کے متاثرین کی بروقت امداد اور ان کی آباد کاری میں غفلت اور کوتاہی اور متاثرین کو نظرانداز کیے جانے پر مغربی پاکستان سے شدید احتجاج کیا، بنگالی عوام کو بتایا کہ اُن کی زندگی کی محافظ صرف ’’عوامی لیگ ‘‘ ہے۔ 1970ء میں متحدہ پاکستان کے آخری الیکشن کا انعقاد ہوا، عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی162 نشستوں میں سے 160 سیٹوں پر کام یابی حاصل کی۔ پاکستان جمہوری پارٹی کے سربراہ نورالامین کو ایک سیٹ اور دوسری سیٹ پر چٹاگانگ کے ہلز ایریا چکمہ قبیلے کے چیف ’’راجا تری دیورائے‘‘ کو ملی، ادھرمغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی۔ عوامی لیگ نے اس کام یابی کو آزاد بنگلادیش کی جانب قدم قرار دیا، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے (بھاشانی) کے سربراہ مولانا بھاشانی نے درپردہ عوامی لیگ کی حمایت کی اور کام یابی کے بعد کہا کہ ’’مغربی پاکستان والوں خدا حافظ‘‘ جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کے 03؍ مارچ 1971ء کو ہونے والے اجلاس کو یکم مارچ 1971ء کو منسوخ کردیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی، جلاؤ گھیراؤ اور غیربنگالیوں کا قتل عام اور اُن کی املاک کو جلانا شروع کردیا گیا۔ اُن پر یہ الزام تھا کہ یہ غیربنگالی پاکستان اور پاکستانی فوج کے حمایتی ہیں۔ اُن کی موجودگی میں بنگلادیش نہیں بن سکتا۔ عوامی لیگ کی جانب سے رات کا کرفیو نافذ کردیا گیا اور سیاہ پرچم/ بنگلادیش کا پرچم آویزاں کردیا گیا، ماسوائے کنٹونمنٹ بورڈ، گورنر ہائس، ایئرپورٹ اور غیربنگالیوں کی کالونی، علاقے جہاں پاکستانی پرچم بلند تھا۔ انڈین ایجنسی اور عسکری اور نیم عسکری اداروں نے ہندوستان سے تخریب کاروں کو مشرقی پاکستان بھیجنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1970ء کا الیکشن پاکستان کی تاریخ میں منصفانہ اور شفاف تھا، یقیناً یہ مغربی پاکستان میں ہوا ہوگا لیکن مشرقی پاکستان میں عوامی لیگی کارکنوں اور رضاکاروں کو کھلی چھٹی تھی، جعلی ووٹ کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے گئے، جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور نتیجہ ’’عظیم المیے‘‘ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ پورے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کے احکامات پر عمل ہورہا تھا، ہر قسم کے ٹیکس حکومت کو دینا بند کردیا گیا، پولیس رضا کار، انصار اور مجاہد فورس میں شامل نیم عسکری اداروں کے غیربنگالی جوانوں کو قتل کرنا شروع کردیا گیا، ان کے خاندانوں کی بے حرمتی کرکے ہلاک کردیا گیا، مکانوں اور دکانوں کو جلا دیا، نوجوان لڑکیوں کی آبرو لوٹ لی گئی اور وہ بڑی تعداد میں کلکتہ کے ریڈ لائٹ ایریا مشہور و معروف ’’سونار گا چھی‘‘ میں فروخت کردیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب پاکستان کا وجود تھا، حاکمیت تھی، مشرقی پاکستان، پاکستان کے وفاداروں کے خون سے لہولہان تھا، ’’جئے بنگلا، ہمارا دیش تمہارا دیش بنگلادیش‘‘ کے نعروں سے پورا مشرقی پاکستان گونج رہا تھا۔ اسی دوران پاکستانی افواج کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی، پانی، رسد، خوراک اور دیگر ضرویاتِ زندگی کی فراہمی روک دی گئی۔ گورنر مشرقی پاکستان، ایڈمرل احسن نے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل ٹکا خان کو گورنر بنادیا گیا۔ حالات حکومت پاکستان کی گرفت سے نکلتے جارہے تھے۔ جنرل یحییٰ خان، بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئی، غیربنگالی پاکستانیوں کے تقریباً تمام علاقوں کی آبادیوں پر حملے کیے گئے اور کشت و خون کا بازار گرم رہا جس کے پاس وسائل تھے وہ کسی طرح جان بچا کر مغربی پاکستان آگیا، وہاں رہ جانے والے محصورینِ پاکستانی کہلائے اور آج بھی قیدوبند کی سی زندگی کیمپوں میں گزاررہے ہیں۔ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز سمیت تمام نیم عسکری و عسکری اداروں میں موجود غیربنگالی نفریوں کو شہید کردیا گیا، بنگالی فوجیوں نے بغاوت کرکے اپنے ہی غیربنگالی ساتھیوں کو چن چن کر شہید کرنا شروع کردیا۔ 25؍مارچ 1971ء کو صبح ایک بجے باغیوں کے خلاف آرمی ایکشن ہوا۔ ایک ایک انچ پر دوبارہ قبضے کے لیے پاکستانی فوجی جوانوں کو شہادت دینی پڑی، ریلوے، پل، سڑک کا نظام بند ہوچکا تھا، پاک افواج کو سپلائی کھولنے کے لیے سویلینز کی مدد ضروری تھی۔ غیربنگالیوں نے سپلائی لائن بحال کی اور بڑی تعداد میں شہادت کا جام پیا۔ مکتی باہنی اور لال باہنی کے روپ میں ہندوستان کی لڑاکا فوج اندر آگئی تھی، ادھر عسکری تنظیموں کے باغی بھی ان سے جاملے، قیامت کا منظر تھا، غیربنگالیوں کی پوری کی پوری آبادیاں تہہ تیخ کردی گئیں، عوامی لیگ کے کارکنان کی بڑی تعداد نے بھارت جاکر عسکری تربیت لینا شروع کردی تھی، گو کہ ان کی تربیت پہلے ہی سے شروع تھی لیکن بڑی تعداد میں منظم ہوکر اب انہوں نے بھارت میں تربیتی کیمپ بھی بنالیے تھے، جہاں وہ ہر قسم کی تربیت لے رہے تھے اور پھر واپس آکر مشرقی پاکستان میں تباہی پھیلارہے تھے۔ مغربی پاکستان میں موجود ہمارے راہ نما اور اکابرین ملت نہ جانے کہاں تھے اور کس انتظار میں تھے۔ مغربی پاکستان کا پریس غافل رہا اور عوام کو صحیح معلومات فراہم نہ کرسکا۔ ادھر بی بی سی اور ہندوستانی میڈیا یہ پروپیگنڈا کررہا تھا کہ پاکستانی افواج بنگالیوں کا قتل عام کررہی ہے، جب کہ ایسٹ پاکستان رائفلز، بنگال رجمنٹ کے باغی اپنی ہی یونٹوں کی غیربنگالی نفری کا قتل عام کررہے تھے۔ باغیوں کی وردی اور پاکستانی عسکری اداروں کی وردی ایک جیسی اور اُن کے بیجز اور مونوگرام بھی ایک جیسے تھے، اُن کی تصاویر انڈین میڈیا اور بیرونی میڈیا نے جاری کیں، الٹا بے چارے غیربنگالی پاکستانیوں کا قتل عام ہوتا رہا اور چرچا بنگالیوں کے قتل کا ہوتا رہا۔ زندہ آتش فشاں پھٹ پڑا، ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر چاروں سمت سے بشمول فضائی حملہ، یلغار کردی۔ اندرونِ ملک مکتی باہنی، لال باہنی اور مجیب باہنی نے پیچھے سے حملہ کردیا۔ اس پر آپ سوچیں اور غور کریں، کیا حالت ہوئی ہوگی، پھر غیربنگالی آبادیوں پر نئے سرے سے حملے کیے جانے لگے، پاکستانی افواج کی سپلائی لائن ختم ہوگئی، ایئرپورٹ تباہ ہوگئے، فوج چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور پلاٹون میں بکھر گئی۔ اس کا سینٹرل کمانڈ سے رابطہ ختم ہوچکا تھا لیکن پھر بھی وطن کی حفاظت کے لیے دفاعِ مشرقی پاکستان پر شہیدوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے بے جگری سے لڑتے رہے۔ ایک نئے نیم عسکری تنظیم ’’ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فوس‘‘ (E.P.C.A.F) کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں غیربنگالی طلباء ڈاکٹرز، انجنیئرز سب ایک سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوکر دس سے پندرہ دنوں کی تربیت حاصل کرنے کے بعد سرحد پر اور اندرونِ صوبہ شہید ہونے کے لیے روانہ کردیے گئے، جو مادر وطن کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں شہید ہوگئے۔ غالباً 15؍دسمبر1971ء کو جنرل رحیم زخمی ہوگئے اور وہ براستہ برما مغربی پاکستان چلے گئے۔ عظیم المیے نے جنم لیا۔۔۔ آہ 16؍دسمبر1971ء کو پاکستانی پرچم سرنگوں ہوگیا اور سقوط ڈھاکا‘ رونما ہوا، پاکستانی فوجی اسیر ہوکر ہندوستان منتقل ہوگئے، غیربنگالی محب وطن پاکستانی محصور ہوگئے، انہیں اپنے مکانوں سے نکال کر کیمپوں میں محبوس (قید) کردیا گیا، وہ آج بھی پاکستان آنے کی آس میں موت کو گلے لگا رہے ہیں، ان کے بوسیدہ، کیمپوں میں زندگی تنگ ہے لیکن علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر ان کی جھونپڑیوں میں آویزاں ہیں، پاکستانی پرچم بھی بلند ہے۔ آج ہمارا ہردل عزیز پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے، سرحد پر دشمن دستک دے رہا ہے، اندرونِ ملک دہشت گرد ہماری سالمیت کو چیلینج کررہے ہیں، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ملک میں حُب الوطنی کے جذبے کو مزید اُجاگر کیا جائے، بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لانے کے انتظامات کیے جائیں، اِس کے لیے ’’رابطہ عالمی اسلامی‘‘ کے قائم کردہ ٹرسٹ کو بحال کرکے استعمال کیا جائے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی اور تاریخ میں ہمارا نام ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل