Loading
پی ٹی آئی حالات اور قانونی مشکلات کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ اس کے سیاسی مخالفین یا حامی اس کے بارے میں یہ رائے رکھتے یا قائم رکھے ہوئے تھے کہ پی ٹی آئی مزاحمت والی پارٹی نہیں ہے ، ان وہ بھی اپنی رائے میں تبدیلی لا رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی سب سے زیادہ مقبولیت بھی رکھتی ہے ۔لیکن اس وقت ان کے ارد گرد سیاسی گھیرا کافی تنگ ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی قیادت کی مشکلات کم نہیں ہورہی ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہورہاہے ۔ طاقت ور طبقات کی حمایت رکھنے والے بہت سے باخبر سیاسی پنڈتوں کے بقول پی ٹی آئی، اس کی قیادت خصوصاً بانی پی ٹی آئی کو کسی بھی صورت ریلیف ملنا مشکل ہے اور نہ ہی ان کے کسی سیاسی کردار کو تسلیم کیا جائے گا۔ان کے بقول بانی پی ٹی آئی کی فوری رہائی ممکن نہیں اور اس کا ایک امکان یہ ہی ہوسکتا ہے کہ اگر وہ خود کو سرنڈر کردیں تو راستہ نکل سکتا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کے کردار کے دو پہلو ہیں۔ ایک ان کی سیاست کا جب کہ دوسرا ان پر درج مقدمہ کے حوالے سے ہے۔ دونوں پہلوؤں سے انھیں مختلف سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا ہے ۔ماضی میں اس طرز کی صورتحال کا سامناکئی سیاست دانوں بالخصوص بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بھی رہا ہے ۔ اس لیے ہماری سیاسی تاریخ اس قسم کی صورتحال سے بھری پڑی ہے۔ بانی پی ٹی آئی بدستور مزاحمت کے عمل سے گزررہے ہیں ، وہ اپنے موقف پر بظاہر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کی پارٹی کی قیادت مذاکرات کی باتیں بھی کررہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی مزاحمت تین محاذوں پر موجود ہے ۔اول ان کے سیاسی مخالفین ، دوئم ان کا اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ اور سوئم ان کے میڈیا سے خراب تعلقات نے ان کی مشکلات میں اور زیادہ اضافہ کردیا ہے ۔ اگرچہ انھیں ڈیجیٹل میڈیا کے محاذ پر کامیابی حاصل ہے اور ان کی سیاسی بیانیہ کی کامیابی کی وجہ بھی ڈیجیٹل میڈیا ہے ۔لیکن یہ ہی ڈیجیٹل میڈیا جہاں ان کی سیاسی طاقت ہے وہیں اس میڈیا نے ان کے لیے مشکلات بھی بڑھا رکھی ہیں۔ اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہیں۔کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں موجود بیانیہ اینٹی اسٹیٹ رخ اختیار کررہا ہے۔ ادھر مسئلہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر جو لوگ اور گروہ بانی پی ٹی آئی کی حمایت کررہے ہیں اور ان کے مخالفین کے خلاف بیانیے کی ترویج کررہے ہیں، ان پر پی ٹی آئی کی قیادت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پارٹی کے بیشتر افراد یا راہنما ڈیجیٹل میڈیا پر موجود بیانیہ سے انحراف کرکے ان کے ساتھ لاتعلقی دکھاتے ہیں ۔ پی ٹی آئی اور اس کے ووٹرز، سپوٹرز داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنی مزاحمت کے باوجوداپنے لیڈر کی رہائی کو ممکن نہیں بناسکے ۔ پی ٹی آئی کے دیگر اسیران شاہ محمود قریشی ، یاسمین راشد ،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ کی رہائی یا دوسرے گرفتار افراد کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی کا ڈیجیٹل میڈیا کچھ نہیں کرتا ۔ ایک وجہ پارٹی کا تنظیمی بحران ہے اور یہ بحران بہت پہلے سے ہی تھا جس پر کبھی بھی بانی پی ٹی آئی نے درستگی کے لیے کوئی توجہ نہیں دی تھی ۔وہ زیادہ تر سیاسی لوگوں کے بجائے غیر سیاسی لوگوں پر انحصار کرتے تھے اور مشکل وقت میں یہ غیر سیاسی لوگ ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکے ۔جو لوگ آج پارٹی کے ساتھ عملی طور پر کھڑے ہیں ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو بانی پی ٹی آئی کی سیاست اور اقتدار میں کسی نہ کسی شکل میں نظر انداز ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مشکل وقت میں اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑے بھی ہیں اور جیلوں میں قید بھی ہیں ۔جولوگ جیلوں میں نہیں ہیں مگر وہ بھی تمام تر مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کوئی بڑی مہم یا پزیرائی نہیں مل سکی، اس کی وجہ کمزور پی ٹی آئی کا بطور جماعت سیاسی ڈھانچہ ہے۔اس وقت بھی عوامی سطح پر جو مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے اس کاتعلق خیبر پختونخواہ سے ہے اور اس کے پیچھے صوبائی حکومت کی طاقت بھی ہے ۔ علی امین گنڈپور خود صوبائی سطح پر بھی متنازعہ ہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی ان کی قبولیت پر تحفظات ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی ایک مشکل یہ ہے کہ ان کی جماعت میں بیشتر لوگ اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ رابطوں میں ہیں یا پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی میں وہ اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت اوران کی شرائط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔لیکن ان کی ناکامی یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی اور دیگر ساتھیوں کی رہائی کو ممکن نہیں بناسکے۔ اس طبقہ کے بقول اگر ریلیف نہیں مل رہا تو اس کی وجہ ہم نہیں بلکہ خود عملی طور پر بانی پی ٹی آئی کی متنازعہ سیاست ہے۔ اسی طبقہ کے بقول پارٹی میں پاکستا ن سے اندر اور باہر ایسے افراد کی موجودگی اور ان کے سیاسی بیانات بھی مفاہمت کی سیاست میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔جو لوگ بانی پی ٹی آئی کی سیاست کے مزاج کو سمجھتے ہیں، و ہ یہ تسلیم کریں گے کہ وہ اپنی مرضی کے آدمی ہیں اور اپنے فیصلے کرنے کا وہی اپنا منفرد مزاج بھی رکھتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پارٹی میں بھی بہت سے لوگ یہ گلہ کرتے ہیں کہ بڑے فیصلے کرنے سے قبل ہمیں مشاورت کا حصہ نہیں بنایا جاتابلکہ اچانک سے بڑے فیصلے سامنے آکر ان کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیتے ہیں۔انھوں نے سیاست میں تقسیم پیدا کردی ہے ۔ ان کی سیاست نے خود پارٹی کے لیے بھی مسائل پیدا کردیے ہیں ۔ ان کا رویہ ہمیشہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر نہیں رہا اوران کی سیاست کا بیشتر حصہ دوسروں پر تنقید ہی رہا جو ان کو بہت سے سیاسی جماعتوں سے فاصلوں پر رکھتا ہے ۔اسی بنیاد پر ملک کی مین اسٹریم پاپولر سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ چھوٹی اور علاقائی جماعتوں کی توجہ کا مرکز بھی پی ٹی آئی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ہوتی ہے اور وہ ان کے ساتھ اتحادی کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی رہی کہ بانی پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں نہ ہی انھیںتسلیم کرنا چاہتے ہیں، اس حکومت کو بھی تسلیم نہیں کرتے، ان کی تمام تر کوشش یہی رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات طے کریں اور اب بھی وہ یہی چاہتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی نظام میں موجود سیاسی جماعتیں ان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرکے اپنے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خراب نہیں کرنا چاہتیں۔ بانی پی ٹی آئی کے سیاسی یا غیر سیاسی مخالفین نے اس نقطہ کو بھی مضبوطی سے پیش کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی بات سے مکر جانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں، وہ دوبارہ اقتدار میں آکر ہر بات سے مکر جائیں گے اور پھر وہی انتقامی سیاست کو آگے بڑھائیں گے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے لیے کسی کے پاس نرمی یا ڈھیل کے جذبات نہیں ہیں ۔مسئلہ پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز بھی ہیں جو درمیانی راستہ نکالنا نہیں چاہتے، یہ لوگ بھی سیاسی طور پر کئی حقایق سے نظریں چرارہے ہیں اور پی ٹی آئی کی سیاسی حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ ایک بات طے ہے کہ جب بھی کوئی اور کسی بھی طرز کی مفاہمت کی بات آگے بڑھے گی یا پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دیا جائے گا تو سیاسی استحکام بھی آجائے گا۔ جب کسی بھی سطح پر مفاہمت کی بات کی جاتی ہے تو لوگ اسٹیبلیشمنٹ اور اس کی رضامندی کی طرف بھی دیکھتے ہیں اور پھر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی مزاحمت کرتے ہیں یا سمجھوتے کی سیاست کا حصہ بن کر وہی کچھ کرتے ہیں جو ماضی میں دیگر سیاست دان کرتے رہے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل