Loading
آج امت مسلمہ سخت ابتلا و آزمائش کا شکار ہے۔ کفر اور یہود و ہنود امت کے وجود کے درپے ہیں۔ مسلمان ریاستیں دفاعی اور سائنسی لحاظ سے کمزور اور یورپ و امریکا پر ان کا سارا دارومدار ہے۔ اور کئی مقامات پر تو سرعام مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے مقابلے میں انتہائی لاغر اور بیمار امت اس وقت دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ اس 12 ربیع الاول کی آمد پر حضرت محمدؐ کے ظہور مقدس کو 1500 سال پورے ہوچکے ہیں اور ہماری نبی آخر الزماں سے تمام محبت زبانی دعووں اور ظاہری طور پر کھوکھلے نعروں تک محدود ہے۔ ہم آج کی نوجوان نسل کو محمدی اسوۂ حسنہ کی روح عطا کرنے میں ناکام ہیں۔ آج کا نوجوان اپنے نبی سے کوسوں دور اور نظریاتی طور پر سیکولر ہوتا جا رہا ہے۔ بے ثبات دنیا کے خوشنما جال اور مادی دنیا کی پرفریب چالوں نے امت مسلمہ کے معصوم نوجوان اور عقل سے عاری مسلم شہریوں کو جکڑ رکھا ہے۔ کئی مقامات پر مسلمان قحط، بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں اور باقی ماندہ مقامات پر یا تو مسلم امت کے افراد کو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے یا بے حس ڈکٹیٹر حکمران سیکولر مسلمان ریاستوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ 1500 سال پہلے آنے والا محمدی انقلاب، جس نے کائنات کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور کفر و شرک کے اندھیروں کو ختم کرکے نور برپا کردیا تھا، اس انقلاب کے نور اور روشنی کے دوبارہ احیاء کی ضرورت ہے۔ محمدی انقلاب کو نئے سرے سے امت کے ہر فرد تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ 1) صادق اور امین: محمدی انقلاب کی بنیاد صادق اور امین راست باز نوجوان محمدؐ نے رکھی۔ آج معاملات میں صادق اور امین افراد کا قحط الرجال ہے۔ فکر و نظر کا انتشار ہے۔ تمام معاشرے کے دانشور، علماء، اسٹیک ہولڈر اس بات کا جائزہ لیں کہ اج صادق اور امین افراد اور نوجوان پیدا کیوں نہیں ہو رہے اور کرپشن، رشوت، سفارش، اقربا پروری جیسی برائیاں مسلمان معاشروں میں کیسے سرائیت کرگئیں۔ ان معاشرتی ناسوروں کا محمدی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ 2) سزا اور جزا کا تصور: محمدی انقلاب کی بنیاد سزا اور جزا پر رکھی گئی۔ شتر بے مہار اور مادر پدر آزاد معاشرے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج موت کی سزا پر پابندی ہے اور جرائم پیشہ افراد قانون سے بالاتر۔ محمدی معاشرے کا احیاء تبھی ممکن ہے جب خیر پر جزا اور شر پر سزا کا مضبوط تصور موجود ہو، ورنہ معاشروں کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ 3) حکمت، علم کا فروغ: محمدی انقلاب میں اسلامی علوم کے فروغ کےلیے تمام صحابہ کرامؓ اور صحابیات نے علم و حکمت کا پرچار کیا۔ اصحاب صفہ کا چبوترہ بنیاد بنا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ تک نے علم و حکمت کی تقسیم کا فریضہ انجام دیا۔ آج امت مسلمہ کے ممالک سائنس اور علوم کےلیے مغربی ممالک کی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی درسگاہیں ناقص ہیں اور سائنسی علوم اور فنون کی معراج سے مبرا۔ اسلامی حکمرانوں اور متمول مسلمانوں کا فرض ہے کہ عظیم الشان اسلامی اور دنیاوی درسگاہیں قائم کی جائیں اور ریسرچ اور تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ کائنات کو مسخر کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کئی مسلمان رؤسا کی دولت ایلون مسک اور بل گیٹس کی طرح ہے۔ وہ بھی علم و حکمت اور شعور و شناسائی کے ادارے اور رصد گاہیں کھولیں۔ رقص و سرود اور شراب و کباب کی محفلوں کے بجائے آگاہی کے مراکز اور ریسرچ سینٹرز کھولے جائیں یہی محمدی انقلاب ہے۔ 4) خود کفیل محمدی ریاست: محمدؐ کی قیادت میں قائم ریاست خود کفیل تھی۔ ان خلفاء اور صحابہ کرام کے کوئی اللے تللے نہیں تھے، نہ کوئی پروٹوکول کے اخراجات، نہ کوئی شاہی اخراجات، بیت المال امت کی امانت تھی۔ یہ محمدی تربیت تھی۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کو اسلام اور محمدی انقلاب کے دائروں کے اندر آنا ہوگا اور خود کفیل محمدی ریاست قائم کرنا ہوگی۔ 5) محمدی اسوہ حسنہ: قدرت نے فاطمہ کے والد، حسن و حسین کے نانا، علی مرتضیٰ کے سسر، عثمان غنی کے سسر، ابوبکر صدیق اور عمر کے داماد، احد و خندق کے کمانڈر، فتح مکہ کے داعی، خطبہ حجۃ الوداع کے مبلغ، ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام کے تخلیق کار، قرآن کے نزول کے صاحب، معراج کی عظمتوں کے رازداں، غار حرا کے مراقبوں کے خالق، شعب ابی طالب گھاٹی کے قیام کے دنوں کے مرد آہن، بیوہ اور مساکین کے والی، مدنی ریاست کے بانی، صادق اور امین، الغرض قدرت نے ہر قوس قزح کا رنگ اور پرتو آپ کو عطا کیا۔ کیا ہم ان رنگوں اور محمدی پرتو کو نئی نسل اور امت میں ٹرانسفر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ آج کے معاشرے میں قتل و غارت، عدم برداشت ہے۔ کیا اسلامی ممالک میں محمدی اسوہ حسنہ ریسرچ سینٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں آپ کی ذات کے ہر پہلو کا تحقیق کے بعد احاطہ کر کے معاشرے کے ہر شخص تک اس کو منتقل کرنے کا بندوبست کیا گیا ہو۔ آئیے اس ربیع الاول پر یہ عہد کریں کہ حقیقی طور پر محمدی انقلاب کے رنگوں کو سمیٹیں گے اور روح اور بدن میں اسوۂ حسنہ کی حقیقی آبیاری کریں گے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل