Monday, September 08, 2025
 

بارشیں اور سیلاب

 



پاکستان میں سیلاب اور بارشیں تاحال جاری ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں دریاؤں میں پانی کی سطح بھی نارمل نہیں ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق سات سے نو ستمبر کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے، جس کے باعث سندھ کے نشیبی علاقے شہری سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں میرپور خاص، شہید بے نظیر آباد، تھر پارکر، خیرپور، سکھر، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، بدین، سجاول، حیدرآباد اور کراچی شامل ہیں۔ اسلام آباد ، راولپنڈی اور لاہور میں مزید بارشیں ہوسکتی ہیں جب کہ ملتان کو سیلاب کے خطرات لاحق ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز بتایا کہ نو ستمبر تک سیلاب کا ریلا سخت دباؤ بڑھائے گا۔  پاکستان میں سیلاب کی موجودہ صورتحال کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو یہ دہائیوں سے جاری انتظامی نااہلی ہے، کسی حکمران کے دور میں انتظامی نااہلیوں کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ ہم بارشوں اور سیلاب کے پانی کو دریاؤں کے راستے سمندر میں پھینک کر ضایع کر رہے اور سالانہ اربوں روپے کا نقصان کر رہے ہیں۔ آج آبی ذخائر اور ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلاب کے باعث ہر سُو پانی ہی پانی ہے اور یہ پانی ہماری نااہلیوں کی وجہ سے بربادیوں کی کہانی سنا رہا ہے۔ سیلاب نے پاکستان اور اس کے باسیوں کی جانوں اور املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بقول شہزاد احمد: بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے  سیلاب سے ہزاروں گھروں کو نقصان پہنچا ہے، لاکھوں بے گھر ہو گئے، کچے مکانوں میں رہنے والے بے چارے تو سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں۔ فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2022میں بھی بلا کا سیلاب آیا تھا لیکن حالیہ سیلاب اور بارشیں اتنی بڑی آفت ہیں کہ اس پرگریہ کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں۔ اس امر میں بھی دو رائے نہیں کہ زلزلے اور سیلاب ہمارے لیے قدرت کی جانب سے آزمائش ہوتے ہیں‘ انھیں ٹالنا یا مزید تباہ کاریوں کا باعث بنانا دستِ قدرت ہی میں ہے، تاہم انسان ان قدرتی آفات میں نقصانات سے بچاؤ کی تدبیر تو کر سکتا ہے۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے بھی اس کرہ ارض پر منفی اور مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ انسان کے ذہنِ رسا سے کیے جانے والے تجربات اور صنعتی پھیلاؤ ہے جس سے فضا میں زہریلا دھواں اور مختلف کیمیکلز کے اثرات پھیلتے اور قدرت کے نظام میں خلل ڈالتے ہیں، چنانچہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک طرح سے قدرت کا انتقام بھی ہیں، اگر انسان کے ذہنِ رسا کے پیدا کردہ ان اسباب کو کنٹرول کر لیا جائے تو موسمیاتی تبدیلیاں بھی کسی ایک مقام پر ٹھہر سکتی ہیں۔  ہمارے پاس سندھ طاس معاہدہ کے تحت اپنے حصے کے دریاؤں پر زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنانے کا آپشن موجود تھا اور دریائے سندھ پرکالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ بھی اٹھایا گیا تھا مگر مفادات کے اسیر سیاستدانوں نے کالا باغ ڈیم کو صوبائی منافرت کی بھینٹ چڑھا کر اس کی تعمیر ناممکن بنا دی جب کہ ہمارے کسی بھی حکمران نے دوسرے ڈیمزکی تعمیر کے لیے بھی کوئی تردد نہ کیا، اگر ہم نے دریاؤں اور نہروں پر اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے آبی ذخائر تعمیرکر لیے ہوتے تو ہم آج کم از کم فصلوں کی ضرورت کے مطابق پانی تو دستیاب ہوتا۔ بارشوں اور سیلابی پانی کو بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، اس پانی کو گہرے کنویں کھود کر زمین میں بھیجا جاسکتا ہے۔ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ہماری پالیسیاں قومی اور ملکی مفادات سے ہم آہنگ ہو جائیں تو بھارت سمیت کسی کو بھی ہمیں نقصان پہنچانے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قلیل، درمیانی اور طویل مدتی پالیسیاں وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیے بغیر ملک قدرتی آفات سے محفوظ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں شامل ہے۔ وفاق، صوبے اور ادارے مل کر ہی اس چیلنج سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں، اگر ہم ابھی سے ڈیمز اور چھوٹے ذخائر کی تعمیر کی جانب توجہ دیں تو مستقبل کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 250 ملین کے قریب ہے اور ملک نے مون سون کے متعدد شدید موسموں کا تجربہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔  پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جو حالیہ کچھ عرصے سے شدید ماحولیاتی چیلنجزکا سامنا کر رہا ہے، موسمیاتی چیلینجز پاکستان کے ماحولیاتی نظام، حیاتیاتی تنوع اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے خطرہ ہیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن دونوں ہی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی موسم گرما میں درجہ حرارت شدید ہوتا ہے جب کہ موسم سرما بھی طویل ہوتا جا رہا ہے جو بڑی موسمیاتی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔  موسمیاتی تغیر نے پورے پاکستان کو متاثرکیا ہے، ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، جنوبی علاقوں میں خشک سالی اور گرمی کی لہر ہے، شمالی علاقوں کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا ہے، ایسے میں کچھ مسائل قدرتی ہیں جب کہ کچھ ہمارے خود کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔ہمیں سوچ بیچارکرنا ہوگی کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں کیوں ہو رہی ہیں، یوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی ہیں، تاہم اس تبدیلی میں انسانوں کا عمل دخل بھی ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم عنصر ملک میں جنگلات کا کم ہونا ہے، ہم نے جنگلات کاٹ کر انسانی آباد کاری کو وتیرہ بنالیا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان کے جنگلات کا احاطہ 5.5 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں زمینی کٹاؤ بڑھ رہا ہے اور لینڈ سلائیڈنگ میں اضافہ ہورہا ہے، جنگلات کے کٹاؤ سے نہ صرف انسانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ جنگلی حیات بھی خطرے سے دوچار ہیں، درختوں کی کٹائی سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ ہورہا ہے، ہوا اور پانی آلودہ ہورہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، ہوا کا معیار خراب ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ، خشک سالی، گلیشیرز کے پگھلاؤ، سطح سمندر میں اضافے، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافے جیسے نمایاں اثرات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ناپائیدار ترقی، سماجی تفریق اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی میں اضافے کا موجب ہوسکتی ہیں وہاں ان کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافہ جیسے مسائل بھی دیکھے گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب، اثرات اور ان سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر مربوط کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔ تحقیق کے چند اہم توجہ طلب نکات میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمے دار مقامی انسانی و قدرتی عوامل کو جانچنا، فضائی آلودگی کی اہم وجوہات جاننا اور اس کی نقل و حرکت کا بروقت پتا لگانا، موسمیاتی تبدیلی کے انسانی صحت، مزاج اور رہن سہن پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا مشاہدہ کرنا، بیماریوں کے پھیلاؤ، زراعت اور اجناس کی پیداوار، زمین اور پانی کے حساس ماحولیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لینا اور ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے حل تلاش کرنا اور ان کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔  اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ہمیں وہ تمام سرگرمیاں ترک کردینی چاہیے جو موسمیاتی تباہی کا باعث بنے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات بھی کرنا چاہئیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل