Loading
افغانستان کے مشرقی صوبوں کو ہلا دینے والے حالیہ زلزلے کے بعد طالبان حکام نے انسانی امدادی اداروں کے لیے نئی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ننگرہار صوبے کے گورنر آفس کی جانب سے جاری بیان میں حکم دیا گیا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے دوران خواتین کی تصاویر مت لیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امدادی کاموں میں شامل تمام عالمی اداروں کو افغانی اور اسلامی اقدار کا احترام کریں۔ خواتین کے عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ یہ نئی پابندی ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جب طالبان پہلے ہی دسمبر 2022 سے غیر سرکاری اور بین الاقوامی تنظیموں میں خواتین کے کام پر پابندی لگا چکے ہیں، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ کی ملازمین تک بھی بڑھا دیا گیا تھا۔ دوسری جانب امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے ان فیصلوں سے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں خواتین اور بچیوں تک رسائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں طالبان کی امدادی ٹیموں نے زیادہ تر مردوں اور بچوں کو ترجیح دی، جبکہ خواتین اور لڑکیوں کو اکثر امداد سے محروم رکھا گیا۔ جلال آباد ہسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق زلزلے کے چار دنوں میں 1070 زخمی لائے گئے جن میں صرف 125 خواتین شامل تھیں حالانکہ خواتین متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (OCHA) نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کی نقل و حرکت اور ملازمت پر پابندیاں براہ راست ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے OCHA نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین پر عائد پابندیاں فوری طور پر ہٹائیں تاکہ تمام متاثرین تک امداد غیر جانبداری اور مساوات کے ساتھ پہنچ سکے۔ اعداد و شمار کے مطابق حالیہ زلزلے سے افغانستان میں 2 ہزار 200 سے زائد افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے جب کہ مجموعی طور پر 84 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل