Saturday, October 25, 2025
 

کراچی، 16 سالہ طالبہ اغوا، 25 روز میں بازیاب نہ ہوسکی، ملزمان کا گھر پر حملہ اور تاوان کا مطالبہ

 



شہر قائد کے علاقے سرجانی ٹاؤن سے 30 ستمبر کو مبینہ طور پر اغوا ہونے والی کالج کی 16 سالہ طالبا کے کیس کی کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی جبکہ ملزمان نے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سرجانی ٹاؤن سیکٹر ایل ون کی رہائشی 16 سالہ علیشاہ 30 ستمبر 2025 کی صبح گھر سے معمول کے مطابق کالج کیلیے نکلی تاہم وہ گھر واپس نہیں لوٹی۔ ابتدا میں والدین نے بچی کو تلاش کی تاہم کوئی کامیابی نہیں مل سکی جس کے بعد تھانہ سرجانی ٹاؤن پولیس کو مطلع کیا گیا جس پر پولیس نے والدین کو صبر کی تلقین کی اور یقین دہانی کرائی کہ بچی واپس آجائے گی۔ ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مغویہ علیشاہ کی والدہ صائمہ نے بتایا کہ ’اغوا ہونے کے چار روز بعد رفیق بگٹی نامی شخص نے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور پولیس کو مطلع کرنے یا قانونی کارروائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔‘ مغویہ کی والدہ کے مطابق تاوان کے مطالبے کے بعد 6 اکتوبر کو تھانے اور افسران کو درخواست دی مگر کچھ نہ ہوسکا اور پھر 15 اکتوبر کو تھانہ سرجانی ٹاؤن میں مقدمہ ایف آئی آر نمبر 135/25 دفعہ 365 بی سے درج کیا گیا۔ والدہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مقدمہ بھی رشوت لینے کے بعد درج کیا تاہم اس حوالے سے تھانہ سرجانی کے ہیڈ محرر نے انکار کیا ہے۔ 15 اکتوبر کو مقدمہ اندراج کے بعد اس کیس کی تفتیش ایک ایسے افسر کو دی گئی جو کورس کی وجہ سے چھٹیوں پر تھا اور ایک روز قبل 24 اکتوبر کو ڈیوٹی جوائن کر کے پہلی بار وقوعہ کا دورہ کر کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔ والدہ کے مطابق ایف آئی آر اندراج کے بعد ملزمان ’رفیق بگٹی، محمد علی، علی اور منظر نے تین سے چار بار اُن کے گھر آکر دھمکیاں دیں اور کہا کہ اگر تاوان ادا نہ کیا تو انہیں اور بیٹی کو قتل کردیا جائے گا۔ ’پھر ہم نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس پر 21 نومبر کو جسٹس تسلیم سلطانہ نے سماعت کرتے ہوئے ایس ایچ او سمیت دیگر متعلقہ افراد کو نوٹس ارسال کیے‘۔ ہائیکورٹ میں سلمان مجاہد بلوچ اس کیس کی پیروی کررہے ہین جنہوں نے بتایا کہ ’جج نے ایس ایچ و کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر مغویہ کو لازمی عدالت میں پیش کرے‘۔  والدہ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے بعد ملزمان نے گھر آکر دھمکیاں دیں جبکہ 24 اکتوبر کی درمیان رات 8 مسلح ملزمان نے گھر میں دھاوا بولا اور فائرنگ بھی کی۔ صائمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ بااثر لڑکے ہمارے پڑوس میں رہنے والے ایک شخص کے گھر آکر بیٹھتے ہیں اور وہی اس معاملے پر پیشرفت سے ملزمان کو باخبر رکھا ہوا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ شب پیش آنے والے واقعے کے بعد پولیس کو آگاہ کیا اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کروانے کیلیے درخواست دی مگر کئی گھنٹے انتظار کے باوجود مایوسی کا سامنا رہا۔ صائمہ نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور بیٹی کو جلد از جلد بازیاب کروایا جائے۔ انہوں نے پولیس کے عدم تعاون پر الزام عائد کیا کہ ’ملزمان کو پولیس سہولت فراہم کررہی ہے‘۔ والدہ نے کہا ہے کہ ’میری بیٹی کے ساتھ ملزمان نے نہ جانے کیا سلوک کیا ہوگا، اب وہ منظر عام پر آنے کے بعد بھی اُن کے دباؤ کی وجہ سے حق میں ہی بیان دے سکتی ہے کیونکہ ملزمان بہت بااثر ہیں‘۔ اُدھر پولیس نے مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ 15 اکتوبر کو درج ہونے والی ایف آئی آر کے حوالے سے تفتیش جاری ہے جبکہ ملزم رفیق بگٹی نے عدالت سے 27 اکتوبر تک ضمانت حاصل کی ہوئی ہے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل