Loading
بنگلہ دیش کی خصوصی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے 17اکتوبر کولمبا عرصہ برسرِ اقتدار رہنے والی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے موت کی سزا دے دی۔اسی ٹریبونل نے ایک اور مقدمے میں ان کو عمر قید کی سزا بھی سنائی۔یہ ایک تین رکنی بنچ ہے جو شیخ مجیب کی حکومت نے 1971کی جنگ کے ذمے داروں کو سزا دینے کے لیے بنایا تھا۔شیخ حسینہ پر الزام تھا کہ انھوں نے طلبہ کا احتجاج دبانے کے لیے سیدھی گولیاں مارنے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے 1400سے اوپر اموات ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے۔
سات افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔خصوصی ٹریبونل نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ80سے زائد گواہوں نے شہادت دی جن میں سے 54ایسے گواہان تھے جو خونریز مظاہروں میں زندہ بچ گئے۔شیخ حسینہ نے طلبا کے خلاف ہیلی کاپٹر اور ڈرون سے فائرنگ کا حکم بھی دیا۔طلبا کا احتجاج جب قابو سے باہر ہوا تو قریب تھا کہ حسینہ مظاہرین کے ہاتھوں پکڑی جاتیں اور غیظ و غضب کا نشانہ بنتیں لیکن بنگلہ دیش کی آرمڈ فورسز نے ہیلی کاپٹر مہیا کر کے انھیں ڈھاکہ سے نکال کر انڈیا بھیج دیا۔
طلبا کا احتجاج تو ملازمتوں میں عوامی لیگ سے وابستہ افراد کے لیے مخصوص کوٹہ کے خلاف شروع ہوا لیکن جلد ہی یہ احتجاج بہت زور پکڑ گیا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ طلبا اور عوام کے سیلِ رواں کے سامنے بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز اور عوامی لیگی رضا کار خش و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے اس وقت کے وزیرِ داخلہ کو بھی موت کی سزا سنائی ہے۔ شیخ حسینہ اور اسد الزمان دونوں بنگلہ دیش سے بھاگے ہوئے ہیں۔اس اہم مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی عوامی لیگ نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کال دے دی لیکن طلبا اپنے لائے ہوئے انقلاب کی نگرانی میں بہت چوکس ہیں۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی یا اس سے پہلے پیدا ہونے والے پاکستانیوں کو تو بخوبی علم ہے کہ بنگلہ دیش کیسے بنا لیکن بعد میں پیدا ہونے والوں کو شاید پوری آگہی نہ ہو۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے کرداروں میں شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب،انڈیا کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو و جنرل یحییٰ بہت نمایاں تھے۔پاکستان کا قیام اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو کوئی بھی پاکستان کی تباہی کے درپے ہوا ،اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔1970کے متحدہ پاکستان کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں دو نشستوں کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر عوامی لیگ کامیاب رہی ۔
اس وقت کے مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری لیکن عوامی لیگ کو مجموعی طور پر واضح برتری حاصل تھی۔جنرل یحییٰ کو حواریوں نے باور کرایا تھا کہ ملک میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی یوں جنرل کا کردار کلیدی ٹھہرے گا اور وہ جوڑ توڑ کر کے صدر رہیں گے۔انتخابات کا نتیجہ جنرل کی خواہشات کے بالکل برعکس آیا تو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کا حربہ استعمال ہونے لگا۔خدا خدا کر کے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے دھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے جو منتخب ممبر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
انتشار اور اندرونی خلفشار قوموں کے لیے بڑے بھیانک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔پاکستان کی ایک بڑی مشکل ہے کہ انڈیا اس کا ازلی دشمن ہے۔انڈیا نے اس وقت پاکستان کے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھایا۔ وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے آرمی چیف مانک شا کو مشرقی پاکستان پر حملے کا کہا۔ مانک شا نے وقت مانگا۔مشرقی پاکستان سے عوامی لیگی کارکنوں کو انڈیا لاکر مسلح جدوجہد کے لیے تیار کیا اس طرح مکتی باہنی فورس وجود میں آئی۔ عوامی لیگ کے رہنماؤں کو کلکتہ میں دفتر دے کر بنگلہ دیش کی عبوری جلاوطن حکومت قائم کی۔ادھر پاکستانی فوجی حکومت لعو و لب میں مشغول رہی۔مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو فوج کے ساتھ مل گئے۔
ہندوستان نے پوری تیاری کے بعد مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور بہت آسانی سے پاکستانی قیادت کو سرنڈر پر آمادہ کر لیا۔یوں بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن اقتدار میں آ گئے۔ متحدہ پاکستان ٹوٹ کر دو ملک بن گئے۔تحریک چلانا اور بات ہے اور اقتدار میں آ کر عوام کی امنگوں کا پورا کرنا اور ملکی مفاد کو مقدم رکھنا دوسری بات ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن جلد ہی جمہوریت سے اکتانے لگے اور ڈکٹیٹر کا روپ دھارنے لگے۔بنگال طوفانوں کی سرزمین ہے۔ یہاں موسمیاتی تغیرات شدید ہوتے ہیں۔ یہاں سمندری طوفان اکثر جنم لیتے رہتے اور بہت نقصان کا باعث بنتے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی بنگالی عوام کے دل و دماغ میں بھی ابال اٹھتا رہتا ہے۔شیخ مجیب کی بڑھتی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف بھی لاوا پھٹا اور ایک رات ان کو سارے خاندان سمیت تہہ تیغ کر دیا گیا۔ان کی صرف دو بیٹیاں زندہ بچیں ۔وہ خوش قسمتی سے اس وقت بنگلہ دیش سے باہر تھیں۔انھی میں سے شیخ حسینہ بھی تھیں ۔
ہندوستان کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کو دولخت کرنے کا کریڈٹ لیا اور اپنی حکومت کو پاپولر سپورٹ مہیا کی۔وہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے توڑنے کی وجہ سے ہندوستان کی آئرن لیڈی مشہور ہوئیں۔یہ صحیح ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام میں ہندوستان کا کلیدی کردار ہے،مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان کم و بیش ایک ہزار کلومیٹر سے کچھ زیادہ دوری تھی۔درمیان میں ہندوستان تھا۔اندرا گاندھی نے پاکستان تو توڑا لیکن اس کو اور اس کے خاندان کو بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کو جلد ہی موت نے آ لیا۔اندرا گاندھی اسے اپنے جانشین کے طور پر تربیت دے رہی تھیں۔
سنجے کو فلائنگ کا بہت شوق تھا۔ایک دوپہر وہ فلائنگ کر رہا تھا کہ اس کا جہاز خراب ہو گیا اور اپنے پائلٹ یعنی سنجے گاندھی کو نگل گیا۔اندرا گاندھی کو اس کا شدید صدمہ ہوا۔کچھ ہی عرصے کے بعد خود اندرا گاندھی کو اس کے سکھ باڈی گارڈوں نے فائر کر کے بھون ڈالا۔اندرا گاندھی کے بعد اس کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی نے اقتدار سنبھالا لیکن ایک خاتون خود کُش بمبار نے اس کے چرن چھوتے ہوئے دھماکہ کر کے راجیو کی جان لے لی۔یوں مشرقی پاکستان کو توڑنے کے زعم میں مبتلا اندرا گاندھی خود اور اس کے بچے بھیانک انجام سے دوچار ہوئے۔
اس وقت کے مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کی ہوس میں مرکزی حکومت اس لیے نہ بننے دی کیونکہ شیخ مجیب کی اکثریت ہوتے ہوئے اقتدار اس کے حوالے نہیں ہو سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر علیحدہ ہو گیا تو بچے کھچے پاکستان میں اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کر دیا گیا۔چند سالہ حکومت کے بعد ایک انقلاب نے ان کی حکومت ختم کر دی۔ان کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا اور ان کو پھانسی دے دی گئی۔جنرل یحییٰ گمنامی میں حسرت ناک موت مرے۔ شیخ حسینہ اس وقت انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن اگر کسی وقت بنگلہ دیش عدالت کے فیصلے پر عمل در آمد ہو جاتا ہے تو پاکستان توڑنے میں حصہ دار شیخ مجیب الرحمٰن کے خاندان کی بیخ کنی مکمل ہو جاتی ہے۔رہے نام اﷲ کا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل