Loading
گوادر کی انتظامیہ نے ایران سے آنے والے تیل کی ضلع میں داخلہ پر پابندی لگادی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک پریس نوٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ تمام ٹرک ڈرائیور بلوچستان کی دوسری بندرگاہ پسنی سے واپسی پر اپنے ٹرک خالی رکھیں۔ اس فیصلے سے گوادر زون میں تیل کے ٹرکوں کی نقل و حمل پر سخت پابندی ہوگی۔ گوادر کے ایک معروف صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ انتظامیہ نے جیونی، پنجگور اور گوادر شہر میں ایرانی تیل لانے پر سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ ایران سے متصل اضلاع تربت، گوادر، پنجگور اور چاغی وغیرہ میں صرف تیل ہی کی نہیں بلکہ ضروری اشیاء کی بھی قلت ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ ماہ افغانستان سے ہونی والی جھڑپوں کے بعد سے دونوں ممالک کی سرحد پر ہر قسم کی تجارت بند پڑی ہے۔
جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تنازع پیدا ہوا تھا تو سرحد کے دونوں اطراف آباد لوگوں کو یہ امید تھی کہ ماضی کی طرح سرحد کھل جائے گی۔ اس بناء پر ضروری اشیاء سے لدے ہوئے سیکڑوں ٹرک چمن، قندھار شاہراہ کے دونوں اطراف قطاروں میں لگے ہوئے تھے، مگر اب حکومت پاکستان کی جانب سے سرحد کی دوسری طرف طالبان دہشت گردوں کے خاتمے کی شرط اور افغان حکومت کے افغان تاجروں کو پاکستان کے بجائے دیگر ممالک سے تجارت کے متبادل راستے تلاش کرنے کی ہدایات کے ساتھ ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مسلسل خراب ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہے جس کے نتیجے میں کوئٹہ جو بلوچستان کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے پوری دنیا سے کٹ گیا ہے۔ جو افراد سیٹلائٹ کمیونی کیشن کے مہنگے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور انتظامی حکام کو سیٹلائٹ موبائل سروس استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، حکام سے اجازت لینے پر یہ سیٹلائٹ فون استعمال ہوسکتا ہے۔
اس صورتحال میں طالب علم سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر یونیورسٹی کی سطح میں زیر تعلیم نوجوانوں کے لیے معلومات حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ انٹرنیٹ ہے۔ طالب علم وکی پیڈیا، میٹا اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے ذریعہ اپنے مضامین کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں اور مختلف بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لیے Online امتحان دیتے ہیں اور تجارتی اداروں سے انٹرنیٹ کے ذریعہ رابطہ کرکے معلومات حاصل کرتے ہیں وہ بلوچستان میں سردی کے موسم میں خوفزدہ ہیں۔
کوئٹہ اور دیگر علاقوں کے لیے آمدورفت کے راستوں پر مسلسل پابندیاں عائد ہیں۔ کوئٹہ سے روایتی طور پر جعفر ایکسپریس پشاور تک جاتی ہے۔ یہ ریل گاڑی چاروں صوبوں سے گزرتی ہے مگر اس سال کے دوران یہ ریل گاڑی مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنی ہے۔ ریلوے حکام ہر دوسرے دن جعفر ایکسپریس سمیت کوئٹہ جانے والی دیگر ریل گاڑیوں کی منسوخی کے اعلانات کرتے ہیں۔
گزشتہ 11 ماہ کے دوران ریلوے حکام نے کئی دفعہ یہ اعلان کیا ہے کہ جعفر ایکسپریس سیکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر جیکب آباد اسٹیشن پر ختم کردی جائے گی۔ پہلے بلوچستان کی انتظامیہ نے بلوچستان سے پنجاب جانے والے ٹریک پر رات کو سفر کرنے پر پابندی عائد کی، اب گزشتہ ہفتے اچانک کوئٹہ سے دیگر صوبوں کو جانے اور آنے والی ٹریفک پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان پابندیوں کی بناء پر عام آدمی کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ سب لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کے اسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
یہ اسپتال سنگین امراض کو تو چھوڑیں عام امراض کا علاج بھی مکمل طور پر نہیں کرتے۔ اس صورتحال میں مریض کراچی آکر علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں مگر سفر پر پابندیوں کی بناء پر مریضوں کے لیے راستہ مختصر ہوگیا ہے۔ کوچز کو کئی گھنٹوں تک روکنے کے باعث مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ کوئٹہ سے آنے والے سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ کراچی سے کوئٹہ جانے کا ہوائی جہاز کا کرایہ 60ہزار کے قریب پہنچ گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے بھی ایئرلائنز کے کرایوں میں اضافہ کے خلاف ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ ایک خاتون مینا مجید نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلام آباد سے کوئٹہ کے لیے ٹکٹ 80 ہزار روپے میں خریدا۔ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایوان میں کہا کہ انھوں نے ہوابازی کے وزیر کو خط بھیجا تھا مگر ابھی تک جواب نہیں ملا۔
کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ احتجاج لاپتہ افراد کی بازیابی کی کمیٹی کے کنوینر کے ریاست کو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے اور آئین کے تحت اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کو 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے۔ بلوچستان کے حالات پر تحقیق کرنے والے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت 78 سال گزرنے کے باوجود بلوچستان کے مسائل کا حقیقی طور پر ادراک کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ان محققین کا یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کی ایک ہزار میل کے قریب سرحد ایران اور پھر افغانستان سے ملتی ہے۔
اس سرحد کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد آباد ہیں۔ یہ دور دراز علاقوں میں آباد ہیں۔ ان علاقوں میں زراعت انتہائی محدود ہے اور ان علاقوں میں کانوں سے قیمتی معدنیات نکالنے کے لیے اربوں ڈالر کے ٹھیکے غیر ملکی فرمز کو دیے گئے ہیں۔ ان تمام پروجیکٹس میں مختلف وجوہات کی بناء پر مقامی آبادی کو روزگار نہیں دیا جاتا۔ ان پروجیکٹس سے نکالنے جانے والی معدنیات میں بلوچستان حکومت کا حصہ ایک فیصد کے قریب ہے۔ ایک طرف حکومت ملک میں ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ لگاتی ہے، دوسری طرف بلوچستان کے لوگوں کو پتھر کے دور میں دھکیل دیتی ہے۔ کیا دیگر صوبوں میں حکومت ایک لمحے کے لیے بھی پورا انٹرنیٹ بند کرتی ہے ہرگز نہیں!۔ مگر بلوچستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
ایرانی بارڈر بلوچستان کے لاکھوں افراد کی معاش کا واحد ذریعہ ہے۔ ایندھن سے لے کر خوراک تک، سب کچھ اسی تجارت پر چلتا ہے۔ حکومت نے اس تجارت پر سختی کردی، پابندیاں بڑھا دیں، نہ متبادل روزگار دیا، نہ عوام کی حالت زار پوچھی۔حکومت اگر کسی اور صوبے میں انٹرنیٹ مکمل بند کر دے، ٹرانسپورٹ روک دے یا تجارت منقطع کر دے تو پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک شور مچ جائے، لیکن بلوچستان مسائل کا شکار ہے، کیونکہ یہاں کے عوام کے دکھ سننے والا کوئی نہیں۔حکومت کے ان فیصلوں نے ثابت کر دیا کہ موجودہ حکومتی ڈھانچہ بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے، سنبھالنے یا حل کرنے کا اہل ہی نہیں۔
یہ حکومت، بلوچستان کو سہولت نہیں دیتی، صرف کنٹرول کرتی ہے۔اور یہی وہ رویہ ہے جس نے پورے صوبے کو مایوسی، بے اعتمادی اور بے بسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔یوں بلوچستان اور وفاقی حکومت نے ان علاقوں میں صنعت کاری کا کوئی جامع منصوبہ شروع نہیں کیا۔ اس بناء پر لاکھوں افراد کا روزگار ایران سے تجارت سے وابستہ ہے۔ اس تجارت میں تیل کے علاوہ ادویات، کھانے پینے کا سامان، منرل واٹر کی بوتلیں، سبزیاں، گوشت، پنیر، مکھن اور بجلی بھی ایران سے آتی ہے۔
حکومت نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر ایران سے تجارت پر پابندی عائد کرکے عام آدمی کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ کوئٹہ کے ایک اخبار کے ایڈیٹر کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام کا دباؤ اتنا ہے کہ پہلے نیشنل پارٹی نے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا تھا مگر اب نیشنل پارٹی نے 27ویں ترمیم کی حمایت نہیں کی، یوں انھوں نے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسائل حل کیے جائیں اور بلوچستان کے عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ باشعور افراد کا فرض ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل