Friday, November 21, 2025
 

دہشت گردی کا مشترکہ چیلنج

 



اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ افغان طالبان کی حمایت یافتہ تحریک طالبان، پاکستان کے خلاف متعدد ہائی پرو فائل حملے کرچکی ہے، جن میں بعض میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوا۔ اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نائب مستقل مندوب اور داعش و القاعدہ پر سین کشنز کمیٹی 1267 کی سربراہ ایمبیسڈر سینڈراج نسن لانڈی نے سلامتی کونسل کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً چھ ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ٹی ٹی پی خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور اسے طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے لاجسٹک اور مالی معاونت حاصل ہے۔  اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ رپورٹ نے ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کر دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نہ صرف خطے کی سلامتی کے لیے ایک مسلسل اور سنگین خطرہ ہے بلکہ اس کی کارروائیوں میں اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت اسے مختلف سطحوں پر سہولت فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مجموعی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں اور سیکیورٹی فورسز نے اپنا خون بہا کر ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کی کوشش کی ہے، مگر افغانستان کی سرزمین سے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں، اس کا منظم نیٹ ورک اور مبینہ طور پر طالبان حکومت کی جانب سے لاجسٹک و مالی معاونت ایک بار پھر حالات کو غلط سمت میں دھکیل رہی ہے۔ درحقیقت ’’ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی مسئلہ‘‘ نہیں بلکہ افغانستان کی ریاستی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ طالبان کی اپنی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس (GDI) 2023 تا 2025 کے دوران ننگرہار، کنڑ اور کابل میں داعش اور دیگر گروہوں کے خلاف کارروائیوں کی خبریں جاری کر چکی ہے، جو طالبان کے اپنے محدود کنٹرول کو ظاہر کرتی ہیں، اگر ٹی ٹی پی واقعی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہوتی، تو اس کے سینئر کمانڈرکنڑ، ننگرہار اور پکتیکا جیسے افغان صوبوں میں نہ مارے جاتے۔ اقوام متحدہ کی سہ ماہی رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ غزنی، ہلمند، قندھار،کنڑ، ارزگان اور زابل میں القاعدہ کے تربیتی کیمپ اور ٹی ٹی پی، بی ایل اے، اور داعش خراسان کے نیٹ ورک بدستور فعال ہیں۔ سی آئی اے رپورٹس اور انٹیلی جنس بریفنگز سے تصدیق ہوئی کہ حمزہ بن لادن اور دیگر القاعدہ رہنما طالبان کی نگرانی میں افغانستان میں رہائش پذیر ہیں۔ اسی طرح 31 جولائی 2022 کو کابل کے شیرپور علاقے میں ایمن الظواہری کی ہلاکت طالبان کی پناہ دہی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ 36 ویں اقوام متحدہ مانیٹرنگ رپورٹ (2025) کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6,000 دہشت گرد چھ افغان صوبوں میں سرگرم ہیں اور القاعدہ کے ساتھ مشترکہ تربیت گاہیں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ٹھوس شواہد کے باوجود طالبان کا یہ کہنا کہ ’’ افغانستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘ نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کو تحفظ دینے کا کھلا اعتراف بھی ہے۔ دنیا کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ افغانستان، طالبان کے زیر سایہ، خطے کے تمام دہشت گرد گروہوں کا نیا گڑھ بن چکا ہے۔ افغان عبوری حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں! ان کے عوام بھوک سے مریں یا بیماری سے وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا مر جائیں، طالبان حکومت کی بلا سے! ان کے نزدیک معاشی ترقی، تعلیم وتربیت، سائنس اور ٹیکنالوجی، صنعت وحرفت، زراعت میں جدت، تجارت‘ آئی ٹی، صحت کی سہولتیں، بینکاری، سب بے معنی چیزیں ہیں۔ افغان طالبان قیادت کا مائنڈ سیٹ دیکھیے کہ اس کے نزدیک سب سے اہم کام انٹرنیٹ پر پابندی لگانا ہے۔ لاکھوں افغان دہائیوں سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ طالبان حکومت آئی تو تاثر یہ دیا کہ افغانستان نے اپنی منزل پا لی ہے۔ یہی وہ حکومت ہے جس کی ضرورت تھی، لیکن لگ بھگ تین برس انھوں نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔  پاکستان کا موقف اصولی اور واضح ہے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے اندرونی تحفظ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور خاص طور پر جب ایک دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (TTP) افغان حدود میں بیٹھ کر ہمارے خلاف منظم حملے کر رہی ہے تو کابل حکومت کی لازم ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرپرستی اور پناہ گاہیں فوراً ختم کرے۔ جب دہشت گرد گروہ کسی پڑوسی سرزمین سے اٹیک کرتے ہیں تو وہ نہ صرف ہمارے شہریوں کی جان کے دشمن بنتے ہیں بلکہ پورے خطے کے امن کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان عوام ہمارے چھوٹے بھائی ہیں، اْن کے دکھ ہمارے دکھ ہیں، اور ہم امن وخوشحالی چاہتے ہیں مگر اْن امن کی قیمت ہمارے شہداء اور ہمارے دفاع کی قربانیوں کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں، لٰہذا کابل حکومت کو فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ یا تو اپنے اندر موجود دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی چھوڑ دے اور پڑوسی کے ساتھ باہمی اعتماد و احترام کی نئی شروعات کرے یا پھر پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے شہریوں اور اپنی خود مختاری کے دفاع کے لیے تمام قانونی، سفارتی اور اگر ضرورت پڑی تو عسکری آپشنز استعمال کرنے کا حق اپنے ہاتھ میں رکھے گا۔ پاکستان نے 40برس تک لاکھوں افغانوں کی وہ میزبانی کی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن بدلے میں پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامناکرنا پڑا اور ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر اس مہمان نوازی کی بھاری قیمت چکانا پڑی، جب کہ دوسری طرف بھارت نے افغانستان پر حملہ آور ہونے والی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والے طالبان کو دہشت گرد قرار دیا۔ ملا عمر نے افغانستان کے علاقہ بامیان میں بدھا کے مجسمے توڑے تھے، آج وزیر خارجہ افغانستان امیر متقی بت شکنوں کی اولاد،بت پرست بھارت کی گود میں جا بیٹھے۔ کہا جاتا ہے کہ احسان فراموش سب سے پہلے اپنے محسن کو نشانہ بناتا ہے اور تاریخ ایسے حقائق سے بھری پڑی ہے۔ افسوس کہ افغان طالبان حکومت نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا ہے۔ فتنہ الخوارج اور افغان طالبان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں عدم استحکام پیدا کرنے، نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کی راہ ہموار کرنے کی جو کوششیں کی گئیں، ان کا ہدف فتنہ الخوارج کے ناپاک عزائم کو تقویت پہنچانا تھا، تاہم پاک فوج نے جوابی کارروائی میں شہری جانوں کے تحفظ اور غیر ضروری نقصان سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے، چنانچہ خود دفاع کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ہماری ہوشیار مسلح افواج نے سرحد پار سے اس حملے کو فیصلہ کن طور پر پسپا کردیا اور دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ پاکستان نے جواب میں صوبہ قندھار اور کابل میں خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر کارروائی کرتے ہوئے افغان طالبان کے کئی بٹالین ہیڈ کوارٹر سمیت دہشت گردی کے تربیتی مراکز ملیا میٹ کر دیے،200طالبان و فتنہ الخوارج ہلاک ہوئے، اور باقی خوارج اپنے ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کے بھاگ نکلے۔حالیہ اسلام آباد کچہری خودکش حملہ اور جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج پر حملے کرنے والوں کا افغانستان سے تعلق ہے۔ پاکستانی حکام نے بارہا افغان طالبان حکومت کو معاملات سے آگاہ کیا لیکن وہ کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ ان حقائق پر نادم ہونے اور معافی مانگنے کے بجائے افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد نے حال ہی میں یہ من گھڑت دعویٰ کیا کہ استنبول مذاکرات اس لیے ناکام ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بیان حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ یہ محض الزامات نہیں بلکہ ٹھوس شواہد ہیں، جو اقوام متحدہ، بین الاقوامی سیکیورٹی اداروں اور موثر تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگر ہار، پکتیکا اور خوست میں موجود ہیں، جہاں دہشت گردوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے اور پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت کا گٹھ جوڑ نہ کبھی کامیاب ہوا اور نہ ہی آیندہ ہوسکے گا۔افغان طالبان کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی اُن کے اپنے سیاسی مستقبل، علاقائی اعتماد اور عالمی برادری سے تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے، اگر وہ واقعی خطے میں امن و استحکام چاہتے ہیں تو انھیں ٹی ٹی پی سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔بین الاقوامی برادری کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ طالبان حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایسے عناصر کی سرپرستی ترک کرے جن کی کارروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے اندر بھی امن کے لیے تباہ کن اثرات رکھتی ہیں۔یہ لمحہ اس حقیقت کا اعادہ کرتا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ عالمی طاقتوں اور علاقائی ممالک کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر مشترکہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو ٹی ٹی پی جیسے عناصر ایک بار پھر خطے کو عدم استحکام کی سمت دھکیل سکتے ہیں۔ وقت یہی تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر امن کی خاطر متحد ہو کر فیصلے کیے جائیں، تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور پُرامن خطہ مل سکے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل