Loading
پاکستان کی معیشت کے لیے جولائی تا اکتوبر 2025 کے ابتدائی 4 ماہ محض کیلنڈر کے اوراق نہیں بلکہ ایک معاشی اور تجارتی آزمائش نامہ ہے۔ اس عرصے میں ملک کی درآمدات 23 ارب 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گئیں جو گزشتہ برس کے ابتدائی 4 ماہ 20 ارب 30 لاکھ ڈالرز یعنی 15.51 فی صد زیادہ ہیں۔ اس طویل جست نے معیشت کی سانسیں روک لی ہیں کیونکہ ایک ایسا ملک جہاں کا امیر طبقہ اشرافیہ ملکی پیداوار سے زیادہ غیر ملکی برانڈز کا دل دادہ ہو، جب اچانک اس اضافے کے دباؤ میں آتا ہے تو تجارتی توازن ہی نہیں بگڑتا بلکہ ڈالر کے ذخائر کو کمزور کرتا ہے۔
روپے کی قدر کو لرزاتا ہے، بجٹ کے اندر ایسے شگاف ڈال دیتا ہے جسے پُر کرنا حکومت کے بھی بس میں نہیں ہوتا۔ یہ اضافہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے زیادہ خریدا اور کم بیچا۔ درآمدات کا مجموعی بل پہلے 3 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز زائد بڑھا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں آ گئے۔ تجارتی خسارہ گزشتہ برس کے 4 ماہ کے مقابلے میں 39 فی صد تک زائد ہو گیا۔ قرض لینے کی رفتار تیز ہو گئی۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی درآمد کرتے ہیں خام مال کی اور اس مال کی جس سے وہ اپنی برآمدات بڑھا سکیں۔ لیکن پاکستانی معیشت میں یہ اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ صنعت کمزور ہے۔ مقامی پیداوار کی ملکی کھپت کے بجائے درآمدی مال استعمال کرنا اپنی انا کی خاطر لوگ پسند کرتے ہیں جس سے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور دکانوں میں درآمدی اشیا کی بھرمار ہے۔
امرا و اشرافیہ کا طبقہ اپنی شان و شوکت بڑھانے کی خاطر درآمدی مال خریدتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور منگواتے ہیں۔ بس یہ المیہ ہی پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی، روپے کی کمزوری معاشی بدحالی کا سب سے بڑا نوحہ ہے۔ اس وقت درآمدات میں اضافے کی تصویر گری یوں بنتی ہے۔ بندرگاہوں پر باہر سے آنے والے کنٹینرز کا شور ہے اور برآمدات کے چند کنٹینرز ایک طرف چپکے کھڑے ہیں۔ پس منظر میں کارخانوں کے گیٹ پر تالے ہیں، آسمان کی طرف دیکھیں تو ڈالر کی اونچی اڑان ہے۔
ان 4 ماہ کے درآمدی اعداد و شمار حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے شاید کافی ہیں۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو معاشی دباؤ بڑھے گا، زرمبادلہ کم ہوگا، قرض بڑھیں گے، آئی ایم ایف کا شکنجہ اور سخت ہو کر رہے گا۔ روزگار کے مواقع کم سے کم ہوں گے، اشرافیہ کی طرف سے غیر ملکی اشیا کی طلب میں اضافے سے غریب آدمی کو کیا مل رہا ہے۔ ایک طرف فیکٹری بند ہے، مزدور بے کار ہو رہے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے بقدر اضافہ نہیں ہو رہا اور حکومت پنشنرز کو چند فی صد اضافی رقم دے کر لاکھوں بوڑھے افراد کو غربت کی کھائی میں دھکیل رہی ہے۔
3 ارب ڈالر سے زائد درآمدات میں اضافی پھونک دیے گئے لیکن اس میں غریب کی مٹی کا گھر بہہ کر رہ گیا،50 لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے، ہزاروں جانیں چلی گئیں، لاکھوں مویشی ڈوب گئے، لاکھوں ایکڑ اراضی میں بوئی گئی کیش کراپس سے غریب کسان محروم ہوکر رہ گیا۔ حتیٰ کہ اس کے گھر میں سال بھر کا محفوظ اناج بھارت سے آیا ہوا سیلاب کھا گیا۔ لاکھوں افراد آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ حکومت کہاں سے ڈالر لے کر آئے؟ چلیے مان لیتے ہیں حکومت مدد کرے گی، لیکن کیسے؟ 23 ارب ڈالر سے زائد کی رقم تو درآمد کے کھاتے میں چلے گئے۔ اب جیب خالی ہے۔
حکومت اس بات پر توجہ دے کہ ہماری درآمدات کا بڑا حصہ غیر پیداواری چیزوں پر مشتمل ہے، لگژری اشیا پر ہے، قیمتی موبائل فونز، لگژری گاڑیاں، مہنگے فرنیچرز، کھانے پینے کی اشیا اور بہت سی غیر ضروری اشیا پر مشتمل ہے، ان پر پابندی لگائیں۔ لیکن دالوں کے کنٹینرز نہ روکیں اس طرح دالیں مہنگی ہو جائیں گی، ان برآمدی اشیا کے میٹریلز نہ روکیں کیوں کہ اس سے برآمدات رکتی ہے۔ کارخانوں میں کام کم ہو کر رہ جاتا ہے۔ جن ملکوں سے زیادہ مالیت کی درآمدات کرتے ہیں ان سے برابر کا سودا کریں، مال کے بدلے مال کی تجارت کریں تاکہ ڈالر کم خرچ ہوں۔ درآمدات کو کنٹرول نہ کیا تو مہنگائی بڑھ جائے گی، غربت بڑھ جائے گی۔ حکام اس کے بارے میں سوچیں اور عملی قدم اٹھائے، کہیں دیر نہ ہو جائے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل