Loading
یوکرین میں روس کی عسکری کارروائی بظاہر اپنے فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ فروری 2022میں شروع ہونے والی یہ جنگ انتہائی سست روی سے جاری رہی۔ امریکا اور نیٹو ممالک اس جنگ کو ہر قیمت پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیے ہوئے تھے لیکن امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد اس جنگ کو روس کی تباہی کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جو روسی فوجیں قدم بہ قدم پیش قدمی کر رہی تھیں اب تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
یوکرین طویل عرصہ تک پولینڈ اور لیتھونیا کے زیر تسلط رہا ہے۔ سترویں صدی میں پولینڈ کے خلاف بغاوت اُٹھی جس کے نتیجے میں کوساک باغیوں نے روسی سلطنت سے مدد طلب کی اور اپنی مرضی سے روسی کنٹرول میں چلے گئے۔ اٹھارویں صدی میں مزید علاقے پولینڈ سے چھین کر روس میں شامل کیے گئے، اور اسی برس روسی ملکہ کیتھرائن دی گریٹ نے یوکرائن کی خود مختاری ختم کر دی تھی۔ انقلاب روس کے بعد 22 19 میں یوکرین کو روس کی ایک سوویت (صوبہ) قرار دے دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سوویت عہد میں بہت سے علاقوں کو یوکرین کا حصہ بنایا گیا جن میں سویسٹا پول کی مشہور بندر گاہ بھی شامل ہے جو سارا سال تجارت کے لیے کھلی رہتی ہے۔
فروری 2022 میں شروع ہونے والی روس-یوکرین جنگ اب اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ اس تنازعے نے یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کی سب سے بڑی جنگی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ابتدائی مہینوں کے برعکس آج حالت یہ ہے کہ یوکرین کا دفاعی بندوبست شدید دباؤ کا شکار ہے اور روسی فوجیں مسلسل پیش قدمی کر رہی ہیں۔ ایک حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اس وقت روس کو یوکرین کے تقریباً 19 فیصد رقبے پر کنٹرول حاصل ہو چکا ہے۔ روسی ذرایع ابلاغ کے مطابق ان کی فوج رسد کے نہایت اہم مرکز ’پوکروفسک‘ کے بڑے حصے پر قابض ہو چکی ہے۔ اگر یہ شہر روس کے ہاتھ آ جاتا ہے تو ماسکو کو ڈونیسک صوبے کے باقی ماندہ حصوں پر بھی پیش قدمی کا موقع ملے گا، بالکل جیسے اس نے اوائل 2024 میں ایوڈییوکا پر قبضہ کر کے ایک سنگ میل عبور کیا تھا۔
روس کو چین، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کی سفارتی و عسکری مدد بھی میسر ہے، جس سے اس کے جنگی عزم کو سہارا مل رہا ہے۔ دوسری جانب یوکرین کی بقا کا دارومدار بیرونی امداد پر ہے، خصوصاً یورپ اور امریکا کی طرف سے ملنے والی فوجی و مالی معاونت پر۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یورپ یوکرین کو بچانے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے، اور امریکا اس جنگ میں مزید کیا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے؟
اس وقت یوکرین کی افواج دفاعی حصار قائم رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔بہت سے تجزیہ نگاروں اور جنگ کی رورٹنگ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حملوں میں تاخیر اور بدعنوانیوں کے باعث متوقع نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق یہ دفاعی لائنیں اب خود اسی دشمن کے ہاتھوں کچلے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں جس کو روکنے کے لیے انھیں تعمیر کیا گیا تھا۔
روسی حلقوں میں بھی یہ بات کی جا رہی ہے کہ کرینی فوج کا مورال ٹوٹ چکا ہے اور وہ شکست کے دہانے پر ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن کی حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بدستور یوکرین کو فوجی طور پر زیر کرنے اور اسے نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے عزم پر قائم ہیں۔
روس کے بیانیے کے مطابق جنگ کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب یوکرین کو "غیر عسکری" اور "نازی ازم سے پاک" کیا جائے اور کییف میں روس نواز حکومت قائم ہو۔ دوسری طرف یوکرین اپنی آزادی اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔ عوام اور فوج کا حوصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگرچہ جنگ نے انھیں شدید طور پر تھکا دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق روس کے 61 فیصد اور یوکرین کے 74 فیصد شہری کسی نہ کسی امن عمل کے حامی ہیں، لیکن قیادتوں کے مؤقف شدید متضاد ہیں۔
یوکرین کی جنگ میں بیرونی امداد کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ تین برسوں کے دوران یورپی ممالک اور امریکا نے یوکرین کو بڑے پیمانے پر مالی اور عسکری امداد فراہم کی، مگر 2024 کے اواخر میں سیاسی تبدیلیوں کے باعث صورتحال بدل گئی۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن کی براہِ راست فنڈنگ تقریباً رک چکی ہے۔ اس کے باعث تمام بوجھ اب یورپ پر آ گیا ہے۔یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ وہ آیندہ دو سال تک یوکرین کی معیشت اور فوج کو سہارا دینے کے لیے مالی وسائل فراہم کرے گی، اور اس مقصد کے لیے روس کے منجمد اثاثوں کو استعمال کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم تمام 27 ممالک کی منظوری ضروری ہے، جب کہ ہنگری اور سلوواکیہ مخالفت کر رہے ہیں۔
یورپ میں سیاسی فضا بھی بدل رہی ہے۔ مثال کے طور پر چیک جمہوریہ میں نئی حکومت آتے ہی پارلیمان کی عمارت سے یوکرین کا پرچم ہٹا دیا گیا، جو عوامی رجحان میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ماہرین کے مطابق مغربی امداد نے یوکرین کو شکست سے بچایا ہوا ہے، لیکن اسے روس کے خلاف فیصلہ کن حملہ کرنے کے قابل نہیں بنایا۔
نیٹو کا کوئی رکن ملک اپنی فوج یوکرین بھیجنے کو تیار نہیں کیونکہ یہ اقدام روس کے ساتھ براہِ راست جنگ کا خطرہ پیدا کرے گا، جو ممکنہ طور پر ایٹمی تصادم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ مجموعی طور پر امریکا اور یورپ کی حکمت عملی غیر یقینی کا شکار ہے۔ عوامی سطح پر بھی امداد کے خلاف آوازیں بڑھ رہی ہیں۔ یورپ میں مہنگائی، توانائی بحران اور داخلی مسائل کے باعث یوکرین کے لیے حمایت کم ہو رہی ہے۔
روس-یوکرین جنگ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ مکمل جنگ بندی نظر آتی ہے نہ فیصلہ کن فتح۔ یوکرین کا دفاعی ڈھانچہ زچ ہو رہا ہے۔ جب کہ روس آہستہ آہستہ پیش قدمی کر رہا ہے لیکن بھاری قیمت چکا کر۔ ماہرین کے مطابق روس اپنی جنگی معیشت کو اس سطح تک سنبھال چکا ہے کہ آیندہ دو سے تین سال تک اسی شدت سے لڑ سکتا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ روس یوکرین کے اندر اس حد تک پیش قدمی کر جائے کہ یوکرین مذاکرات کی میز پر روس کی مرضی کا معاہدہ کر لے۔ اگر جنگ ڈیڈلاک کا شکار بھی ہو جائے تب بھی جس قدر روس حاصل کر چکا ہے مذاکرات میں یوکرائن کی پوزیشن کمزور ہی رہے گی۔
سب سے اہم سبق یہ ہے ’ جسے تاریخ بار بار یاد دلاتی ہے اور ہر بار اسے فراموش کر دیا جاتا ہے‘ کہ ریاستوں کے رویے اخلاقی اصولوں پر نہیں، اپنے مفادات کے تابع ہوتے ہیں ، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ مغربی طاقتوں کے نزدیک یوکرائن کے لوگوں کی خواہشات اور آزادی اصل مسئلہ نہیں بلکہ اصل ہدف اپنے حریف روس کا ناطقہ بند کرنا ہے جس کے لیے پہلے بھی وہ ہر حد تک گئے اور اب بھی پوری کوشش کریں گے۔ اسی صورتحال کو ہم اپنے خطے میں بھی دیکھ چکے ہیں جہاں افغان جہاد کے نام پر روس کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج مغربی ممالک پاکستان کے نصاب سے بھی جہاد کے موضوعات کو خارج کرنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل