Loading
حقیقت حددرجہ تلخ ہے۔ ماننے کو دل چاہے یا نہیں۔ مگر اب اس سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ عمر کے سنجیدہ حصہ میں آ کر، یقین ہو چکا ہے کہ ملک جس طرز سے ستر برس سے چل رہا ہے، اسی طرح سے چلتا رہے گا۔ بے ڈھنگا کہہ لیجیے۔ خرابہ میں مبتلا کہنا فرما دیجیے۔ منفی رویوں کا ماتم کر لیجیے۔ لیکن دل پر اب غبار رکھنے کے بجائے سمجھ لیجیے کہ تمام کے تمام سماجی، سیاسی، مذہبی، ریاستی اور اقتصادی معاملات بعینہٖ ایسے ہی چلتے رہیں گے جیسے آج گامزن ہیں۔ اب کسی بھی چیز کا گلہ نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کسی سے بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں۔ لہٰذا پہلے تو اپنے ذہن میں یہ خاکہ منجمد کر لیجیے کہ کوئی بھی انقلابی تبدیلی، جس سے ملک بہتری کی طرف گامزن ہو جائے، اب خارج از امکان ہے۔ انقلابی کا لفظ بھی ویسے ہی استعمال کر لیا۔
دراصل کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سو جو ہے، وہی رہے گا۔ اسی میں سانس لینا سیکھئے۔ عالمِ مجبوری میں یہی غنیمت ہے۔ اگر نہیں رہنا چاہتے تو جہاں سینگ سمائے، نکل جایئے۔ مغربی ممالک کی ہوا بھی اب ہمارے لیے توانا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہماری جو بری شناخت، بے ایمانی، فرقہ پرستی اور شدت پسند رویے کی بدولت ہے، یہ تمام عناصر مغربی تہذیب یافتہ ممالک کے لیے بالکل اجنبی ہیں۔ وہاں کے گوروں کو بھی ادراک ہو چکا ہے، کہ ہمارے خطے بلکہ ملک سے آئے ہوئے تارکین وطن، ان کے معاشروں میں اپنی ذہنی ساخت اور خامیاں ساتھ لے کر آتے ہیں۔ وہاں جا کر بھی، اکثر خاندان، سوشل سیکیورٹی کے نظام کو جل دے کر اپنی جائز حدود سے بڑھ کر فوائد حاصل کرنے میں مصروف کار ہیں۔ انگلستان، سویڈن، ناروے اور اس طرح کے جدید ملک ہمیں ناجائز فائدے دے دے کر تھک چکے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ گورے بھی اب ہم سے بدظن ہیں۔ لہٰذا انھوں نے بھی اپنے ملکوں میں، ہمارے رہنے کے لیے دشواریاں پیدا کر دی ہیں۔ بیس بچیس برس پہلے، یورپ یا امریکا کا ویزا ملنا بالکل دشوار نہیں تھا۔ مگر اب صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ ہمارے ملک کے پاسپورٹ کو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ بحث بھی بے معنی ہے کہ سبز پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک میں نچلی ترین سطح پر ہے یا نہیں۔ مغرب، اب ہماری اصلیت جان چکا ہے جس کا اظہار ان کی سخت ترین پالیسیاں، بالواسطہ کرتی رہتی ہیں۔
خیر، اپنے ملک میں جو ہے، وہ اسی طرح رہنے پر اکتفاء کر لیجیے۔ مشکل ضرور ہے مگر آخر زندہ بھی تو رہنا ہے۔ درجنوں کالم، روزانہ اخبارات اور جریدوں کی زینت بنتے ہیں۔ ان میں عمدہ باتیں، بلند خیالات اور شائستگی کے کمال لیکچر موجود ہوتے ہیں۔ مگر دس بارہ گھنٹے بعد، وہ ردی کے بھاؤ بکتے نظر آتے ہیں۔ فکری ردی تو وہ پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں۔ دراصل ہمارے حکومتی اور ذاتی رویے، اب منفی بنیادوں پر استوار ہو چکے ہیں اور ان کا بدلنا ناممکن ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی لکھی ہوئی باتیں یاد آتی ہیں، تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کیونکہ اس شخص کا کہا گیا ایک ایک فقرہ، اب پتھر پر لکیر ثابت ہوا ہے۔ مگر ہمارا بھلا کسی بھی سچ سے کیا تعلق؟ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل سے منسوب فقرے ذہن میں گونجتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ وہ کافی نہیں، مکمل طور پر درست بات کہہ رہے تھے۔ لیکن نہیں صاحب! ہمارا اعلیٰ اخلاقی اصولوں سے بھلا کیا تعلق؟ یہ تو تہذیب یافتہ ممالک کی میراث ہیں۔ ہاں، یاد آیا ہمارے لیے تاریخی قصے، ماضی کی دیومالائی کہانیاں اور گھڑے گھڑائے جملے موجود ہیں جو ہمارے لیے کافی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔
دراصل ہمارے حکمران اور عوام، دونوں، سچ کی دہلیز کو عبور کر کے مبالغہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اور یہی ان کی ذہنی اور عملی اساس ہے۔ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو ہماری تاریخ کا اسی سے نوے فیصد حصہ درست نہیں ہے۔ میں پرانے واقعات کی بابت عرض نہیں کر رہا۔ قیامِ پاکستان کی مستند تاریخ بھی تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں، برصغیر کی سو سالہ تاریخ، سند کی طرح وجود نہیں رکھتی۔ لہٰذا اب کسی قسم کی، کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں۔
شاید آپ کو میری باتیں پسند نہ آئیں۔ مگر اپنی صدیوں کی حکومتوں کو دیکھ لیجیے۔ وہ عرصہ جسے ہم اپنا سنہری دور کہتے ہیں۔ چلیے اسی کے بابت ذکر کر لیتے ہیں۔ عباسی خلفاء نے، اموی حکمرانوں کی قبریں کھدوا ڈالی تھیں اور ان کے ڈھانچوں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ برصغیر میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ حکمرانوں کا اپنے سابقہ بادشاہوں سے اختلاف، تمام اخلاقی حدود و قیود عبور کرتا نظر آتا ہے۔ کمال بات یہ بھی ہے کہ برصغیر کے مسلمان حکمران، ہمارے خطے سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے۔ کوئی مشرق وسطیٰ سے آیا، تو کوئی وسطی ایشیا میں مکمل طور پر برباد ہو کر، برصغیر پر قابض ہو گیا۔ اس خطے کو لوٹنے کے باوجود بادشاہ اس کی بدتعریفی کرتے نظر آتے ہیں۔
بابر نامہ اس کی ایک مثال ہے جو ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ دراصل ہمارا خطہ، بیرونی حکمرانوں کی چراگاہ رہا۔ اس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں شامل تھے۔ اور معاف کیجیے! دونوں کا رویہ یکساں تھا۔ صاحب زیست! بادشاہ صرف بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کا اصل مذہب مسلسل حکمران رہنا ہوتا ہے۔ کیا آج کوئی بات کرتا ہے کہ عثمانی سلطانوں کے آخری دور میں، حجاز کی سب سے زیادہ بے حرمتی کنہوں نے کی تھی؟ کس علاقے کے فوجی تھے جنھوں نے مقاماتِ مقدسہ پر یلغار کی تھی؟ اور ہاں وہ کون سے جید مسلمان اکابرین تھے جنھوں نے پہلی جنگ عظیم کے آخری دور میں، فلسطین کا پورا علاقہ، عثمانیوں سے چھین کر، برطانوی فوجیوں کے حوالے کر دیا تھا؟ دل کو تھام کر سنیے۔ ان تمام سیاہ یا سفید کارناموں میں ہندوستان کے مسلمان فوجی شامل تھے۔ یقین نہیں آتا تو برطانوی فوج کے عثمانیوں کے خلاف لڑنے والے لشکر کا تنقیدی جائزہ لینے کی ہمت کر لیجیے۔ شاید میرا لکھا ہوا صحیح سمجھنے میں آسانی ہو جائے؟
چلیے چھوڑیئے! ذرا اپنے ملک پر ٹھنڈے دل سے نظر ڈال لیجیے۔ قائداعظم محمد علی جناح، کیا تھے۔ اور ہم نے اپنے تقاضوں اور معاملات پر جعلی صداقت کی مہر لگوانے کے لیے، انھیں کیا سے کیا بنا ڈالا؟ ایک بلند پایہ سیاست دان، جس نے اصول پسندی اور دیانت سے زندگی گزاری، جس نے کرپشن، اقربا پروری، مذہبی شدت پسندی کے خلاف بے پناہ جدوجہد کی۔ ذرا سوچئے! ہم نے اس کے ساتھ عملی طور پر کیا کر ڈالا؟ جس جس علت سے قائد نے منع کیا تھا، وہ ہمارے حکمران طبقے اور عوام نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے اوپر قائم کر لی۔ اور ڈھٹائی کا یہ عالم کہ آج بھی اعتماد سے اعلان کرتے ہیں کہ جناب ہم تو قائداعظم کے فرمودات کے امین ہیں۔ صاحب! سب دروغ گو ہیں۔ ہر شخص اور ادارے کو معلوم ہے کہ بربادی کا سفر کیسے اور کیونکر جاری وساری ہے۔ اور اسے روک کر ملک کو بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا اس پر کیا بات کی جائے۔ کیا خاندانی سیاست اور موروثی حکومت جناح صاحب کے اصولوں کے عین مطابق ہے؟ بالائی سطح کے لوگوں کے طرزعمل کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جایئے۔ عام لوگوں کے طرزعمل پرکھئے۔ دودھ، کھانے پینے کی اشیاء، اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی دکانوں پر کوئی نہ کوئی مذہبی عنوان درج ہو گا۔ مگر وہ تمام کی تمام ملاوٹ شدہ اور زہر قاتل ہوں گی۔ ہمارا ایک مایہ ناز شربت جب جاپان بھیجا گیا تو ان کی حکومت نے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد تمام کے تمام سامان کو سمندر برد کر ڈالا۔ اس لیے کہ وہ انسانی استعمال کے لیے غیرمناسب تھا۔ مگر وہی شربت، حددرجہ خوشنمائی سے ہمارے ملک کے قریہ قریہ میں فروخت ہو رہا ہے۔
دراصل، اب ہم جھوٹ، ملاوٹ اور دس نمبری کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی شکایت ہی نہیں ہے۔ ہاں ہماری بھنویں اس وقت تن جاتی ہیں، ہمارے منہ سے جھاگ اس وقت باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے جب ہم کو مجبوراً سچ سننا پڑتا ہے۔ جب کوئی ’’بے وقوف طبقہ‘‘ قانون کی حکمرانی، جمہوریت کو توانا کرنے، جعلی ترقی کے اشتہارات کی حماقت اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ تو ہم سبق سکھانے کے لیے نیزے اور تلواریں لے کر ہر مقام پر، باہر نکل پڑتے ہیں اور ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ یہ تلخ سچ بولنے والا رہنما یا طبقہ، دراصل ملک دشمن ہے بلکہ غدار ہے۔ کیا عوام یہ سوال پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ یہاں محب وطن کون ہے؟ وہ لٹیرے، جن کے محلات اور خزانے مغربی ممالک میں ایستادہ ہیں۔ جو ملک کو کھا کر چبا چکے ہیں۔ اور آج بھی ہم پر براجمان ہیں۔ کیا یہ ہمارے حقیقی محب وطن رہنما اور قائدین ہیں؟ واہ، جناب، کیا اصول پرستی ہے؟
ہمارے معاشرے کے متعدد المیے اور تضادات ہیں، جنھیں شمار کرنا بھی کافی مشکل ہے۔ پر اب کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ جب بہتری کی تمام امیدیں دم توڑ دیں تو ناامیدی، زندگی کا عملی رویہ بن جاتی ہے۔ حقیقت جاننے کی کوشش نہ کیجیے؟ اسی جعلی نظام کو سفل سمجھئے، اور خوش رہئے؟ یہی آپ کا مقصد حیات ہے اور یہی آپ کا مستقبل ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل