Loading
اس شخص کی خوش بختی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی، نعت نبی ؐ جس کی ذات کا مستقل حوالہ بن جائے۔ جہاں نعت کا ذکر آئے، وہاں اس کا ذکر آئے، اور جہاں اس کا ذکر آئے، وہاں نعت کا ذکر آئے۔ شاعر نے کہا تھا: تیرا در ہو مرا سر ہو مرا دل ہو ترا گھر ہو تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی حفیظ تائب کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ نعت نبیؐ اور مدحت رسول ؐ ان کی پہچان بن گئے اور جہاں خود ان کی ذات کا ذکر آتا ہے، وہاں بھی بات نعت نبی ؐ کی ہونے لگتی ہے۔ ایسی نسبت اور ایسا اعزاز، اللہ اللہ، کسی قسمت والے کے حصے میں ہی آتا ہے۔ حفیظ تائب کی نعت گوئی کے متعلق احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں: ’’یہ دور اردو زبان میں نعت گوئی کا دور روشن ہے اور اس دور روشن کے آفتاب بلاشبہ حفیظ تائب ہیں کہ اس شخص نے حضور ؐ کی ذات گرامی کے ساتھ اپنی عقیدت اور عشق کا اظہار اتنی گہرائی، اتنی شدت، اتنی تہذیب اور اتنے سلیقے سے کیا ہے کہ ان کی نعت کے الفاظ میں جذبے دھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور نقطے نقطے میں صلی علیٰ کی گونج سنائی دیتی ہے۔‘‘ حفیظ تائب پرکشش شخصیت کے مالک اور باکردار انسان تھے۔ وہ اتباع رسول ؐ کو محبت رسول ؐ کا لازمہ سمجھتے تھے۔ نعت نبوی ؐ لکھتے ہوئے تمام ضروری احتیاطیں ان کے پیش نظررہتی تھیں۔ وہ اپنے اشعار میں بتاتے ہیں:؎ نعت گوئی کے لئے حسن ارادت شرط ہے ساتھ کچھ فہم کتاب و علم سیرت شرط ہے اس میں ہے لازم جمال فن بھی اوج فکر بھی جتنی ممکن ہو خیالوں کی طہارت شرط ہے گر ادب پہلا قرینہ ہے ثنا کے شہر میں ہر قدم اس راہ میں عجز طبیعت شرط ہے اسوہ کا بھی نعت میں ابلاغ ہونا چاہئے لیکن اس میں بھی لطافت اور حکمت شرط ہے ہے محبت أپ ؐ کی ایمان کامل کی کلید ہاں مگر جوش محبت میں اطاعت شرط ہے ان کی تعلیمات میں مضمر ہے حسن زندگی ان سے بھرپور استفادہ بہر امت شرط ہے سیرت پرنور تائب ہم کو دیتی ہے سبق ہر قدم پر احترام آدمیت شرط ہے انہوں نے اپنی زندگی اور اپنا فن، سرکار دو عالم ؐ کے قدموں پر نثار کر دیا۔ معروف شاعر زاہد فخری اپنی ایک تحریر میں رقمطراز ہیں، ’’ایک بار میں نے تائب صاحب سے پوچھا کہ نعت مصطفیؐ کے سفر کے اوائل میں آپ کو کب پتا چلا کہ دربار محمد ؐ تک آپ کی نعت پہنچ چکی ہے۔ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیئے اور پھر گویا ہوئے کہ نعت کہتے ہوئے مجھے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ نعت محمد ؐ کے حوالے سے میری پہچان بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی مگر ایک بے چینی ہمیشہ مجھے بے چین رکھتی کہ ان ؐ تک میری نعت پہنچی بھی ہے کہ نہیں۔ اس بات سے میں اکثر اداس رہتا اور میری آنکھوں میں ایک نمی سی بے یقینی کی تیرتی رہتی، میں نعت بھی کہتا اور قبولیت کی دعائیں بھی کرتا رہتا۔ آخر میرے خدا نے مجھ سے ایک دن وہ نعت کہلوا ہی دی جس کے بعد میری بے قراریوں کو قرار آ گیا اور میں یقین کی دولت سے مالا مال ہو گیا، پھر خود ہی کہنے لگے کیا تمہیں پتا ہے کہ وہ کون سی نعت تھی۔ میں نے جواب میں کہا: خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گل چیدہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کا نور بکھر گیا۔ ان کے چہرے کی ایسی چمک میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔‘‘ حالاتِ زندگی معروف ادیب محمد شعیب مرزا، تائب صاحب کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’مجسمہ اخلاق و کردار اور عشق مصطفیؐ سے سرشار حفیظ تائب کا نام عبدالحفیظ جبکہ قلمی نام حفیظ تائب ہے۔ آپ 14فروری 1931ء کو پشاور میں پیدا ہوئے جب کہ آپ کا آبائی گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالہ ہے۔ آپ کے والد سکول میں استاد ہونے کے ساتھ ساتھ امامت، خطابت اور بچوں کو دینی تعلیم دینے کا کام فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے۔ نیز دینی جلسوں اور نعت خوانی کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی گرد و پیش ذکر خدا اور ذکر رسول ؐ سے معمور ملے۔ آپ کے والد بھی شعر و ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ 1947ء میں پہلی بار حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سفر نامہ حج '’’تحفہ الحرمین‘‘ لکھا جو 1947ء میں شائع ہو گیا۔ بعد میں انہوں نے ’’چراغ معرفت‘‘ اور ’’چراغ حیات‘‘ کے نام سے دو مختصر کتابیں لکھیں جو شائع نہ ہو سکیں۔ حفیظ تائب کے والد جہاں جہاں تعینات ہوتے رہے، حفیظ تائب وہاں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اپنے گاؤں احمد نگر ضلع گوجرانوالہ کے مڈل سکول میں داخلہ لیا۔ پھر دو جماعتیں سکھیکی منڈی میں پڑھیں۔ پھر لوئر مڈل سکول دلاور چیمہ میں تیسری اور چوتھی جماعت پڑھی۔ مڈل آبائی گاؤں کے مڈل سکول اور میٹرک زمیندار ہائی سکول گجرات سے کیا۔ زمیندار کالج گجرات میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنسی مضامین میں دل نہ لگا، چنانچہ بعدازاں ایف اے، بی اے، فاضل اردو اور ایم اے کے امتحانات ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ حیثیت میں پاس کئے۔ حفیظ تائب کے والد مسجد میں ہر جمعتہ المبارک کو خطبہ دیا کرتے اور حفیظ تائب نعت پڑھا کرتے تھے۔ نعتیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ 1947ء میں آپ نے نعتیں لکھنی بھی شروع کر دیں۔ میٹرک میں ان کے ہم جماعت بشیر منذر شعر گوئی میں محرک بنے۔ کالج جا کر نعت کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہنے لگے۔ پہلی تخلیق پنجابی نعت تھی جو 1947ء میں کہی۔ جس کا مطلع یوں ہے: روضے دی جالی دسدی اے یاں گنبد خضرا دسدا اے اسیں جدہر نظراں چکنے آں بس شہر مدینہ دسدا اے آپ شعری اصناف میں نعت کے ساتھ ساتھ غزل اور نظم میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ نعت کے علاوہ سب کچھ چھوٹ گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے محبوب ؐ کی تعریف کے لئے چن لیا تھا۔ ایسے منتخب لوگوں کو ہی حضور ؐ کی مدح سرائی کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ آپ 1949ء میں لاہور آ گئے اور اس سال آپ کا کلام شائع ہونا شروع ہوا۔ سب سے پہلے نعت ماہنامہ ’’مسلمہ‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ غزلیں ’’ادب لطیف‘‘ اور ’’ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوئیں۔ شعری انتخابوں میں بھی آپ کا کلام شائع ہوتا رہا۔ تمام اہم اخبارات و رسائل میں آپ کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔ ان میں نوائے وقت، جنگ، زمیندار، امروز، معاصر، آثار، ادبیات، ماہ نو، ادبی دنیا، ادب لطیف، فنون اور نقوش نمایاں ہیں۔ حفیظ تائب 12 جون 2004 کو لاہور میں وفات پا گئے اور علامہ اقبال ٹاؤن، کریم بلاک کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ نعت رسول مقبول ؐ ... عہد بہ عہد سرسری جائزہ عربی زبان کے ممتاز اسکالر محمد کاظم کی تحریر سے اقتباسات، بحوالہ کتاب ’’یادیں اور باتیں‘‘ نعت یوں تو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا وصف بیان کرنا، کسی چیز کو Describe کرنا۔ لیکن عربی میں یہ ان معنوں میں نہیں بولا جاتا جن معنوں میں یہ اردو زبان میں بولا جاتا ہے۔ اردو میں ’’نعت‘‘ اس نظم یا غزل کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت ؐ کے ساتھ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا گیا ہو۔ اردو میں جسے نعت کہتے ہیں، عربی میں اسے ’’المدیح النبوی ؐ‘‘ کہتے ہیں اور نعتوں کے مجموعے کو المدائح النبوی ؐ کا نام دیا جاتا ہے۔ آپ ؐ کے زمانے میں جو بہت اعلیٰ ادبی معیار کی نعتیں عربی زبان میں کہی گئیں ان میں شاعر کعب ابن زبیر کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ نیز حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نعتیں زیادہ مشہور ہوئیں۔ حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے، شاعر نبیؐ کے لقب سے مشہور ہیں، یعنی دربارنبویؐ کے LAUREATE POET ۔ یہ پہلے ایک جاہلی شاعر تھے جو منذر و غسان کے فرمانرواؤں کی مدح کرتے اور ان سے کافی صلہ اور اعزاز پاتے تھے۔ یہ اسلام لے آئے اور أنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینے کو ہجرت کی۔ اس زمانے میں قریش مکہ نے حضور ؐ کو ایذا پہنچانے کے لئے أپ ؐ کے خلاف ہجوگوئی کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، جس میں آپ ؐ کے خلاف طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ ایک دن آپ ؐ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’جن لوگوں نے اپنی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی مدد کی ہے، انہیں کس چیز نے روکا ہے کہ وہ اپنی زبان سے اس کی مدد نہیں کرتے۔‘‘ اس پر حضرت حسانؓ آگے بڑھے اور کہا، یہ کام میں کروں گا۔ کہنے لگے میری زبان بہت لمبی ہے اور یہ ایسی زبان ہے کہ اگر میں اسے چٹان پر رکھ دوں تو وہ بھی تڑخ جائے۔ آپ ؐ نے فرمایا، تم قریش کی ہجو کیسے کر پاؤ گئے کہ میں بھی تو اسی خاندان سے ہوں۔ حسانؓ نے جواب دیا۔ میں آپ ؐ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا تو پھر ان کی ہجو کہو اور جبریل امین تمہارے ساتھ ہیں۔ اس طرح حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ؐ کی مدح و ثنا اور کفار و مشرکین کی مذمت میں بہت سی نظمیں کہیں اور اس محاذ پر سب مخالفین کو خاموش کر دیا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ایک شاعر شرف الدین محمد بن سعید البوصیری پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنی شاعری میں مدح نبوی ؐ کے بہت اعلیٰ نمونے پیش کئے۔ 1255ء میں وہ حج بیت اللہ اور روضہ نبوی ؐ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور واپس آ کر انہوں نے جو نعتیہ نظمیں کہیں، ان میں ان کا قصیدہ بردہ نعت کی پوری تاریخ میں امتیازی مقام رکھتا ہے۔ شاعر بوصیری کے بعد بھی عربی زبان میں نعتیں کہی جاتی رہیں اور یہ نعتیں کہنے والوں میں صوفی ابن الفارض (1235ء) اور امام برعی (1400ء) ، مورخ ابن خلدون (1406ء ) اور شاہ ولی اللہ دہلوی (1760ء) کچھ مشہور نام ہیں، لیکن مدح نبویؐ میں بہت خوبصورت اضافہ چار پانچ صدیوں کے بعد مصر کے شاعر دربار احمد شوقی نے کیا جو علامہ اقبال کے ہم عصر تھے۔ نعت کی یہ روایت عرب سے چل کر پہلے ایران اور پھر ہندوستان میں پہنچی۔ ایران میں نعت کے موضوع پر بڑے بڑے باکمال شاعروں نے فارسی میں نظمیں کہیں۔ ان شعراء میں سنائی، خاقانی، نظامی، گنجوی، خواجہ فرید الدین عطار، مولانا جلال الدین رومی، شیخ سعدی شیرازی اور جامی بڑے نام ہیں۔ اردو زبان میں نعت نگاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اردو شاعری پرانی ہے۔ چنانچہ اس کے ابتدائی نمونے اردو شاعری کے اوائل زمانے میں بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ نعت کے اس پورے زمانے پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو اس میں تین دور ایسے دکھائی دیتے ہیں جن میں اردو کی نعتیہ شاعری فن کے اعتبار سے اپنے عروج کو پہنچی۔ ایک دور محسن کا کوروی، امیر مینائی اور حالی کا ہے۔ دوسرا اقبال، مولانا ظفرعلی خاں اور حفیظ جالند ھری کا اور تیسرا حالیہ دور ہے جو سن 1960ء کی دہائی سے شروع ہو کر اب تک چلا جاتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل