Saturday, September 13, 2025
 

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمرانوں کی کوتاہیاں

 



موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے معمول سے زیادہ بارش ہو رہی ہے جس پر سونے پر سہاگہ بھارت آبی دہشتگردی کر رہا ہے جس کی وجہ سے پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے اور ہزار کے قریب اموات ہوئیں، اس سب کے ذمے دار حکمران ہیں، جب بارش کا پہلا قطرہ زمین کو چھوتا ہے تو کسان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک اتر آتی ہے، لیکن وہی قطرے جب بے قابو ہو کر دریاؤں کو طغیانی میں بدل دیتے ہیں تو بستیاں اجڑ جاتی ہیں، زندگیاں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اور خواب پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہر سال اس کڑی آزمائش کا سامنا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ آفت صرف قدرتی نہیں بلکہ انتظامی ناکامیوں کا بھی نتیجہ کیوں ہے؟ حکمرانوں کے دعوے اور اعلانات کیوں محض کاغذی رہ جاتے ہیں؟ اور عوام ہر بار تنہا کیوں کھڑے نظر آتے ہیں؟ سیلاب کی تباہ کاریاں محض پانی کی زیادتی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر کاری ضرب ہوتی ہیں۔ 2010 کے ہولناک سیلاب کو یاد کریں، جب حکومت پاکستان کے مطابق تقریباً 20 ملین افراد براہِ راست متاثر ہوئے، 1,985 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں اور 1.7 ملین مکانات یا تو مکمل ڈھ گئے یا ناقابلِ رہائش ہوگئے۔ اس تباہی سے ملک کو مجموعی طور پر تقریباً 43 بلین ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہی نہیں، زرعی زمینیں برباد ہوئیں، مویشی بہہ گئے اور انفرا اسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔اب ذرا 2022 کے المیے پر نظر ڈالیں، جس نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ رقم کیا۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق 33 ملین افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 7.9 ملین بے گھر ہوگئے۔ تقریباً 1,740 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 2.1 ملین گھروں کو نقصان پہنچا یا وہ تباہ ہوگئے۔ زرعی تباہی نے مزید مشکلات کو جنم دیا، کپاس کی فصل کا 40% اور چاول کی فصل کا 15% صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ معاشی نقصان کا 30 سے 40 بلین امریکی ڈالر کے درمیان لگایا گیا۔ یہ محض اعداد نہیں، بلکہ وہ کہانیاں ہیں جو لاکھوں خاندانوں کے اجڑنے کی داستان سناتی ہیں، لیکن ہر بار پانی کے ساتھ ساتھ عوام کے صبر کا امتحان بھی بہا دیا جاتا ہے۔ حکومتیں ریلیف کیمپ لگاتی ہیں، تصویریں بنتی ہیں، اعلانات ہوتے ہیں، مگر جیسے ہی میڈیا کی نظر ہٹتی ہے تو وہی مسائل عوام کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ سیلاب کے بعد متاثرہ افراد خیموں میں پناہ لیتے ہیں، بچے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں، خواتین صحت کی بنیادی سہولیات کو ترستی ہیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ ناقص منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ دریاؤں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات، نکاسی آب کا ناکام نظام، درختوں کی بے دریغ کٹائی، آبی ذخائر کی عدم تعمیر اور کرپشن نے عوام کو غیر محفوظ بنا دیا ہے، اگر 2022 کے سیلاب کا پانی محفوظ کیا جاتا تو پاکستان کئی برسوں کے لیے زرعی پانی کا ذخیرہ بنا سکتا تھا، مگر افسوس یہ مواقعے صرف فائلوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ سیلاب کے بعد سب سے زیادہ متاثر کسان ہوتا ہے، وہ قرض لے کر بیج بوتا ہے، محنت کرتا ہے مگر ایک جھٹکے میں اس کی زمین اور مویشی سب ختم ہو جاتے ہیں، اگر حکومت کسان کے قرضے معاف کرے، بیج اور کھاد فراہم کرے اور مویشیوں کے نقصان کا ازالہ کرے تو وہ دوبارہ کھڑا ہوسکتا ہے، مگر ہمارے ہاں صرف دعوے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً کسان غربت کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے اور دیہی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ سیلاب کے سماجی اثرات بھی کم نہیں۔ اسکول تباہ ہو جاتے ہیں یا ریلیف کیمپ بن جاتے ہیں، بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ خواتین کو حمل اور زچگی کے دوران صحت کی سہولتیں نہیں ملتیں۔ پینے کے صاف پانی کی کمی ہیضہ، ڈائریا اور دیگر بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ سب مل کر انسانی بحران کو بڑھا دیتے ہیں۔ حکمرانوں کا رویہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہیلی کاپٹر کے فضائی دورے، ٹی وی کیمروں کے سامنے دکھاؤے کے اقدامات اور امداد کی تقسیم میں سیاسی اثر و رسوخ عوام کے اعتماد کو توڑ دیتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب عوام سمجھ جاتے ہیں کہ وہ قدرت کے سیلاب سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی بے حسی کے سیلاب سے زیادہ متاثر ہیں۔ حل صرف ایک ہے، سنجیدہ منصوبہ بندی۔ بڑے ڈیم اور بیراج تعمیر کیے جائیں، نکاسی آب کے نظام کو جدید بنایا جائے، غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ کیا جائے اور جنگلات کے کٹاؤ کو روک کر شجر کاری کو فروغ دیا جائے۔ ریلیف کے اداروں کو سیاست سے آزاد کر کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے تاکہ بروقت مدد پہنچ سکے۔ متاثرین کی بحالی صرف وقتی نہ ہو بلکہ مستقل روزگار، رہائش اور تعلیم کے منصوبوں کے ذریعے ہو۔ کسانوں کو فوری سبسڈی دی جائے، قرضے معاف کیے جائیں اور مویشیوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ عوام کا کردار بھی اہم ہے۔ ہمیں ندی نالوں پر قبضے ختم کرنے ہوں گے، ماحولیات کا تحفظ کرنا ہوگا اور درخت لگانے کو اپنی ذمے داری سمجھنا ہوگا۔ میڈیا کو چاہیے کہ یہ مسائل صرف آفات کے دنوں میں نہ اٹھائے بلکہ حکمرانوں کو مستقل جواب دہ بنائے۔ سیلاب ہر سال ہمیں ایک پیغام دیتا ہے کہ وقت تیزی سے نکل رہا ہے، اگر ہم نے اب منصوبہ بندی نہ کی تو مستقبل کے طوفان ہماری نسلوں کو نگل جائیں گے۔ بارش کا پانی آج ہمارے لیے آفت ہے لیکن اگر ہم چاہیں تو یہ کل ہماری زمینوں کی زندگی بن سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمران دعوؤں سے نکل کر عمل کی راہ اپنائیں اور عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں۔ تبھی پاکستان ان آزمائشوں سے نکل کر ایک محفوظ اور مضبوط ملک بن سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل