Friday, November 21, 2025
 

مہنگا یونیفارم اور اسٹیشنری، 17 بڑے نجی اسکول سسٹمز کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

 



ملک میں نجی اسکولوں کے لوگو والی نوٹ بکس، ورک بک اور یونیفارم کی مشروط فروخت پر کمپٹیشن کمیشن نے 17 بڑے نجی اسکول سسٹمز کو شوکاز نوٹسز جاری کردیے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے 17 بڑے نجی اسکول سسٹمز کو تعلیمی شعبے میں اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال کرتے ہوئے، طلبہ اور والدین کو اسکول کے لوگو والی مہنگی نوٹ بُکس، ورک بُکس اور یونیفارمز صرف اسکول یا اسکول کے منظور شدہ دکانوں سے خریدنے پر مجبور کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کردیے ہیں۔ کمپٹیشن کمیشن نے ایسے اسکولوں کے خلاف شکایات موصول ہونے پر سوموٹو اقدام کرتے ہوئے انکوائری کی۔ انکوائری میں اس بات کے واضح ثبوت ملے کہ یہ اسکول سسٹم، اپنی تمام برانچوں اور فرنچائز جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان میں لاکھوں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں ایڈمیشن حاصل کرنے والے طلباء کو اسکول کی ہی کاپیاں، یونیفارم اور ورک بک اسکول سے یا مخصوص دکانوں سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان اسکولوں نے گائیڈ لائنز اور پالیسی کے نام پر اسکول کی اپنی پراڈکٹ کی خریداری کے لئے سخت اصول لاگو کر رکھے ہیں اور والدین کے پاس کھلے بازار سے نسبتاً سستے داموں متبادل کاپیاں اور دیگر تعلیمی پراڈکٹ خریدنے کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔ جن اسکول سسٹمز کو شوکاز نوٹسز جاری ہوئے ہیں ان میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، دی سٹی اسکول، ہیڈ اسٹارٹ، لاہور گرامر اسکول، فروبلز، روٹس انٹرنیشنل، روٹس ملینیم، کے آئی پی ایس، الائیڈ اسکولز، سپرنوا، دارارقم، اسٹپ اسکول، ویسٹ منسٹر انٹرنیشنل، یونائیٹڈ چارٹرڈ اسکول اور دی اسمارٹ اسکول شامل ہیں۔ یہ ادارے ملک بھر میں سیکڑوں کیمپسز چلاتے ہیں اور وسیع تعداد میں طلبہ پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کے باعث ان کے پاس نمایاں مارکیٹ طاقت موجود ہے۔ کمپیٹیشن کمیشن کی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ والدین کو لوگو والی اسٹیشنری، ورک بُکس اور یونیفارمز صرف اسکول کے منتخب کردہ وینڈرز سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے کئی اسکولوں میں لازمی اسٹڈی پیکس آن لائن پورٹلز یا مخصوص دکانوں کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں اور عام طور پر طلبہ کو کھلے بازار سے خریدی گئی کاپیاں یا یونیفارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق کئی اسٹڈی پیکس کی قیمت کھلی مارکیٹ میں دستیاب یکساں اشیاء کے مقابلے میں 280 فیصد تک زیادہ پائی گئی اس کے علاوہ مخصوص وینڈرز کی تقرری سے ہزاروں اسٹیشنری فروشوں اور یونیفارم تیار کرنے والے چھوٹے کاروباروں کی مارکیٹ بری طرح محدود ہوتی ہے۔ اسکولوں کی جانب سے ایسے انتظام کو مشروط فروخت کہا جاتا ہے جو کہ کمپٹیشن کے قانون کی خلاف ورزی ہے، طلباء کی ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں منتقلی کی زیادہ لاگت، محدود تعلیمی متبادل اور سفر کی مشکلات والدین کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اسکول کے نافذ کردہ تمام تجارتی فیصلوں پر عمل کریں، یوں طلبہ ’یرغمال صارفین‘ بن جاتے ہیں جن پر اسکول کی انتظامیہ اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں نجی اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد مجموعی انرولمنٹ کا تقریباً نصف ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں مہنگے برانڈڈ اسٹڈی پیکس اور یونیفارمز والدین کے لیے اضافی مالی دباؤ کا باعث بن رہے ہیں اور تعلیم کے شعبے میں غیر ضروری کاروباری رجحانات کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ کمیشن نے ان تمام اسکول سسٹمز کو چودہ دن کے اندر اپنا تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ مقررہ مدت میں جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں یک طرفہ کارروائی کی جائے گی۔ قانون کے مطابق کمپٹیشن کمیشن تجارتی ادارے کے سالانہ ٹرن اوور کا 10 فیصد یا 750 ملین روپے تک جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل