Loading
ہر عروج کو زوال ہے۔ ایک وقت میں دنیا نے رومی سلطنت اور فارسی یا ایرانی سلطنت کا عروج دیکھا۔ حضور ﷺ کے ذریعے اللہ نے اسلام کو عروج دیا جو خلافت راشدہ سے ہوتے ہوئے بنو امیہ، بنو عباس سے ہوتا ہوا سلطنت عثمانیہ تک پہنچا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ مسلمانوں کا جو زوال شروع ہوا ہے وہ ہنوز جاری ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے بطن سے اتنے ممالک نکلے کہ دنیا کی ہئیت ہی بدل گئی۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل امریکا طاقتور تو ہوچکا تھا مگر ابھی اس کی توجہ داخلی امورکی جانب تھی اور دنیا کی سیاست کا سرخیل برطانیہ ہی تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ سپر پاورکی حیثیت سے داخل ہوا اور واپسی پر نہ وہ سپر تھا اور نہ ہی پاور بچی تھی۔ یہ وہی سپر پاور ہے کہ جس کے یہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اگر آج وہاں سورج طلوع ہوجائے تو اس کے شہری ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد مال غنیمت میں دنیا دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوئی۔ کمیونسٹ بلاک کی قیادت روس کو ملی اورکیپیٹل ازم یا سرمایہ دارانہ ممالک کا قائد امریکا قرار پایا۔ برطانیہ کو امریکا کے لیے یہ جگہ خالی کرنا پڑی اور یہیں سے ڈالر کے عروج کے سفر کا آغاز ہوا۔ ایشیا میں امریکی عزائم کے لیے بھی برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور اس کے ساتھ اس خطے میں امریکی اثر و نفوذ کی ابتداء ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اتحادیوں کی معیشت کی بحالی کے لیے ’’ بریٹن وڈز معاہدہ‘‘ عمل میں آیا اور اسی معاہدے کے تحت آگے چل کر عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا قیام عمل میں آیا۔ اسی معاہدے کے تحت ڈالر کو عالمی تجارت کی ریزرو (متبادل) کرنسی تسلیم کیا گیا اور یوں ڈالر دنیا کی طاقتور ترین کرنسی بن گئی۔ اسی معاہدے کے تحت ڈالر کو عالمی نظام معیشت ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی۔ کرنسی کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ جب مئی 1275 میں مارکو پولو چین پہنچا تو جن چار چیزوں نے اسے حیران کیا، ان میں سے ایک کاغذی کرنسی تھی۔ چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی تھی۔ جاپان میں یہ کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔ مارکو پولو کے ذریعے ہی مرکزی بینکاری نظام یورپ میں داخل ہوا۔ برطانیہ میں سرکاری کاغذی کرنسی 1694 سے شایع ہونا شروع ہوئی۔ امریکا میں کاغذی کرنسی کی ابتداء 1690 میں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا برطانیہ کی نو آبادیات میں شامل تھا۔ آزادی کے بعد ڈالر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا موجودہ شکل تک پہنچا۔ ابتدا میں ڈالر کی قیمت کے تعین کے لیے اسے سونے اور چاندی دونوں سے منسلک کیا گیا تھا لیکن بعد میں سونے کے ذخائر دریافت ہونے پر اسے سونے سے ہی منسلک کردیا گیا کیونکہ اس وقت امریکا کے پاس سب سے زیادہ سونے کے ذخائر تھے۔ اب یہاں سے ڈالر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ ویسے بھی امریکا ڈالرکو ترقی دینے کا کام جب کرتا ہے تو ہمارے یہاں رات ہوتی ہے اور ان کے یہاں دن ہوتا ہے۔ ان کا دن بڑھتا رہا اور دنیا کی رات ختم نہ ہوئی حتی کے دنیا کو ’’ نکسن شاک‘‘ برداشت کرنا پڑا۔1971 میں امریکی صدر نکسن نے ڈالر کو سونے سے غیر منسلک کردیا جسے دنیا نے ’’ نکسن شاک‘‘ کا نام دیا۔ اب امریکا جتنے چاہتا اتنے ڈالر چھاپ سکتا تھا کیونکہ اب سونے کی ضمانت ضروری نہیں رہی تھی اور اس کے بعد امریکا نے خوب ڈالر چھاپے اور آج تک چھاپ رہا ہے۔ سونے سے غیر منسلک ہونے کے بعد ڈالر منسلک تو ہوا لیکن اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ اس کے بعد ڈالر امریکی اسلحے سے منسلک کردیا گیا اور جس کسی نے بھی اس کو للکارا، اس کو امریکی اسلحے سے انجام تک پہنچایا تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہوں۔ ڈالر کو دوام 1974 میں حاصل ہوا جب سعودی عرب نے تیل کی تجارت ڈالر میں کرنے اور اس پیسے کو امریکی ٹریژری بانڈز میں لگانے کی منظوری دی۔ دنیا میں یہ معاہدہ ’’ پیٹرو ڈالر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک نے بھی اس معاہدے میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے نتیجے میں عربوں کی معیشت تو ٹھیک ہوگئی لیکن دنیا کی معیشت بالعموم اور غریب ممالک کی معیشت بالخصوص ٹھکانے لگ گئی۔ اس کے بعد طویل عرصے تک ڈالر دنیا پر اپنی مضبوط معیشت اور اس سے زیادہ اپنی مضبوط عسکری قوت کے بل پر چھایا رہا۔ اس کے بعد دنیا کے افق پر چین جو اب تک ایک خوابیدہ طاقت تھا ایک متحرک قوت کے طور پر نمودار ہوتا ہے۔ حالیہ ایس سی او اجلاس کے بعد چین نے بھرپور طریقے سے اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا اور دنیا کو واضح پیغام دیا کہ چین کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا انجام بہت برا ہو گا۔ دنیا میں اس وقت سب بڑی تنظیم نیٹو ہے کہ جس کے بتیس رکن ہے اور امریکا اس کا سرخیل ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں اب تک ستائیس ممالک شامل ہوچکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ایس سی او کے پاس دس ممالک کی رکن بننے کی درخواست موجود ہے۔ امریکا کو نظر آرہا ہے کہ دنیا پر اس کی گرفت کمزور ہورہی ہے۔ امریکی معیشت اس وقت تک مضبوط ہے جب تک دنیا ڈالر میں کاروبارکر رہی ہے اور یہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ہندوستان اور روس تیل کی خریداری اور کاروبار ایک دوسرے کی کرنسی میں کررہے ہیں۔ اگر صرف BRICS اپنا کاروبار ڈالر میں بند کردے تو امریکی معیشت میں سونامی آجائے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنا بینک بنانے کا بھی اعلان کردیا ہے اور شاید اگلا قدم مشترکہ کرنسی بھی ہوسکتا ہے۔ یہ تمام اقدامات بتا رہے ہیں کہ چین دنیا کو ایک متبادل مالیاتی نظام دینا چاہتا ہے کہ جس کا مرکزی کردار یا محور چین ہوگا۔ جلد ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی اجارہ داری بھی ختم ہونے والی ہے اور اس کے متبادل ادارے شنگھائی تعاون تنظیم کے بطن سے ہی نکلیں گے۔ ہرچند کچھ عرب ممالک نے ایس سی او کی رکنیت لے لی ہے اورکچھ نے رکنیت کی درخواست بھی دی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ڈالر کی مضبوطی میں پیٹرو ڈالر معاہدے کا کلیدی کردار ہے، اگر مستقبل میں عربوں نے ڈالر کے بدلے کسی اور کرنسی میں تیل کی تجارت شروع کردی تو دنیا سے امریکا اور ڈالر دونوں کا تسلط ختم ہوجائیگا۔ عربوں کو احساس ہے کہ تیل کے دن بھی محدود ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا متبادل توانائی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عرب فیصلہ تیل کی افادیت ختم ہونے سے پہلے کرتے ہیں یا پھر لکیر پیٹنا چاہیں گے۔ امریکا کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ یہ سب کچھ جنگ کے بغیر قبول کر لے گا یا جنگ کے بعد۔ تاریخ یہ بتاتی ہے جنگ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ سبق سیکھا جاتا ہے کہ جنگ نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن ہر دفعہ یہ سبق جنگ کے بعد سیکھا جاتا ہے اور اگلی جنگ سے پہلے بھلا دیا جاتا ہے۔ امریکا کو یہ فیصلہ جلد ہی کرنا ہوگا کیونکہ اسی فیصلے میں صرف اس کے مستقبل کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہوگا۔ ا دیکھنا یہ ہے اس کھیل میں پہلے کس کے حواس جواب دے جاتے ہیں۔ حواس ختم کھیل ختم۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل