Saturday, September 13, 2025
 

نیا آبی ذخیرہ ناگزیر

 



پاکستان جیسی زرعی معیشتوں اور وسیع زرخیز رقبے کے حامل ملک کے لیے پانی معاشی ترقی کا ضامن ہے، اس وقت اگر ملک کو زرعی پیدوارکے بحران کا سامنا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی بھی ہے۔ برسات کے علاوہ سال کے باقی دن زراعت کے لیے پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے اگر حسب ضرورت پانی دستیاب ہو تو مزید لاکھوں ایکڑ رقبہ قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے اور زرعی شعبہ بیرونی سرمایہ کاری ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے، مگرملک میں شدید بارشوں کے موسم میں برسنے والا پانی اور پہاڑوں پر برف پگھلنے سے بہنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے آبی ذخائر نہ ہونے کے باعث یہ پانی ہر سال سیلاب کی صورت پہلے تباہی اور بربادی کا سبب بنتا ہے اور پھر سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یکم اپریل سے اب تک 11ارب ڈالر مالیت کاایک کروڑ14لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گرچکا ہے اس وقت ڈیموں میں پانی کا مجموعی ذخیری ایک کروڑ15لاکھ ایکڑ فٹ ہے جب کہ اب بھی2 لاکھ11ہزار کیوسک پانی سمندر برد ہو رہا ہے، دریائے جہلم پر منگلا ڈیم اپنی75فیصد گنجائش تک بھر سکا اور اس میں اس وقت56لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہے جب کہ اس کی کل گنجائش70لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔ دریائے سندھ سے سب سے زیادہ پانی سمندر برد ہوا۔ دریائے سندھ میں چشمہ سے لے کر کوٹری تک تمام بیراجز میں سیلابی کیفیت ہے۔ دریائے چناب پر ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے سارا پانی سمندر برد ہورہا ہے۔حکومت نے اب کچھ ڈیم بنانے کی جانب توجہ تو دی ہے لیکن ان کی تعمیر کے لیے ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔ زیر زمین پانی بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے، زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دار ومدار دریائوں سے آنے والے پانی پر ہے، ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کے لیے پانچ ہزارکیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو اب کم ہوتے ہوتے ایک ہزارکیوبک میٹر سے بھی کم ہوچکا ہے۔ اگلے کچھ برسوں تک پانی کی فی کس مقدار750کیوبک میٹر تک ہونے کا خطرہ ہے جس سے پاکستان پانی کی شدید کمی والے ممالک میں شامل ہوجائے گا جو پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کرنے کے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات موجود نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریبا دس بڑے شہر65 فیصد سے زیادہ گندے پانی کا اخراج کرتے ہیں جس سے صرف8 فیصد پانی کو ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے جب کہ باقی پانی دریائوں میں بہہ کر ضایع ہوجاتا ہے۔ اس وقت تمام ترقیاتی منصوبے جو ابھی بن رہے ہیں سب کو روک کر صرف ڈیم بنانے پر توجہ دی جائے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔اپنوں کی ستم اور کوتاہ نظری نے وطن عزیز کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مٹی کی بھرائی کرکے تعمیر کیا گیا ڈیم یعنی تربیلا ڈیم بنانے والے ملک میں ساٹھ کی دہائی کے بعد کوئی قابل ذکر کثیر المقاصد ڈیمز نہ بنا سکے۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والے پاکستان کی زرعی پیدوار گھٹتی چلی گئی او رکوئی نیند سے نہ جاگا، کسی نے سندھ طاس معاہدے کی فائل کو غفلت کی کوٹھڑی سے باہر نہ نکالا۔ ہماری اس طویل مجرمانہ نیند کا فائدہ بھارت نے اٹھا لیا۔ بھارت چھوٹے بڑے ڈیم بناتا رہا اور ہم پانی پر سیاست سے باز نہ آسکے۔ دنیا بھر میں اب ڈیم تعمیر کرنے کے بجائے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے قدرت کے فطری اصول استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کھربوں روپوں کی لاگت سے تیار ہونے والے ڈیم محض10سے20 سال میں اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں، ان میں ریت جمع اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے تربیلا ڈیم کا یہی حال ہوا ہے اس مسئلے کا متبادل حل صرف اور صرف پانی کی بہترین انتظام کاری ہے جس کی بنیاد قدرتی طریقوں پر ہو، پانی کی انتظام کاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ دریائوں کو بہنے دیا جائے۔ قدرت نے پانی جمع کرنے کا نظام دریائوں کے ارد گرد خود وضع کر رکھا ہے جب دریا میں پانی بڑھتا ہے اور یہ پانی دریا کے کناروں سے چھلک کر بہتا ہے تو کشش ثقل اسے کھینچتی ہے وہ زمین میں جذب ہونے لگتا ہے جذب ہونے کے مرحلے میں یہ گھاس، مٹی اور ریت کے بیچ سے گزرتا ہے۔ یہ پانی کے چھاننے کا قدرتی عمل ہے۔ تمام گندگی اور غلاظت اوپر رہ جاتی ہے اور صاف پانی زمین کے اندر چلا جاتا ہے۔ اس پانی پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی، اس لیے کوئی جرثومہ بھی چلا جائے تو وہ بھی مرجاتا ہے۔ تمام جراثیم ختم ہوجاتے ہیں اور پانی ایک دم صاف وشفاف ہوجاتا ہے۔ ددیا سے بہتے پانی کو نکلنے کا موقع دیں تاکہ یہ صاف وشفاف پانی زیر زمین جذب ہوسکے۔ تین سے چارکلو میٹر دائیں بائیں جو پانی ذخیرہ ہوسکے گا وہ تقریبا3ہزار ملین ایکڑ فٹ ہوگا۔جی ہاں! یہ دریائے سندھ ہی کی بات ہے۔ ڈرامائی ماحولیاتی تبدیلیوں، اقوام عالم کی آبادی میں تیز رفتار اضافے اور معیار زندگی کی ترقی سے مستقبل قریب میں قلت آب کا مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور آیندہ پچاس برسوں میں دنیا کی تین بلین آبادی کو شدید قلت آب کے مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا اور بعض خطوں میں صاف پانی کی شاید ایک بوند بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ اقوام متحدہ بار بار انتباہ کررہا ہے کہ قلت آب معاشی وسماجی بہبود کے لیے سنگین خطرہ اور جنگوں وتنازعات کی وجہ بن سکتا ہے۔ مستقبل میں پانی کی کمی دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہوگا ، مگر اندیشہ ہے کہ پاکستان کی پوزیشن دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب تر ہوگی. کیونکہ ارض پاک کا شمار دنیا کی اس چالیس فیصد آبادی میں ہوتا ہے جہاں قلت آب کا مسئلہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا پانی کی قلت کے بحران سے نمٹنے کے لیے نئے آبی ذخیروں کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے اور اس حوالے سے ملک بھر میں بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ اور آبی ماہرین تواتر کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ملک و قوم کو خشک سالی اور قحط سے بچانے کے لیے جتنی جلدی ہوسکے، بڑے آبی ذخائرکی تعمیر شروع کی جائے جب کہ اقوام متحدہ بھی یہ وارننگ دی چکی ہے کہ پاکستان کو آیندہ چند برس میں پانی کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں آیندہ جنگیں پانی کے حصول کے لیے ہوں گی، مگر اس کے باوجود ہم ملک میں بڑے آبی ذخائرکی تعمیر کے سلسلے میں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہیں اور آج تک اس اہم مسائل کے سلسلے میں معمولی سی پیش رفت کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ کالا باغ اور اس جیسے متعدد ڈیمز اگر بن جاتے تو ہر سال سیلاب کی وجہ سے پاکستان بھرکے مختلف علاقوں میں جو تباہی آتی ہے کم از کم اس کی شدت میں کمی آ جاتی۔ پاکستان میں تعمیر ہونے والا آخری ڈیم تربیلا تھا جسے بنے ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصہ کے دوران دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، دیوالیہ پن کے خطرے سے دو چار ملک ترقی یافتہ بن گئے۔ چین تو ایک طرف بھارت نے بھی چھوٹے بڑے سیکڑوں ڈیم تعمیر کر لیے۔ خاک اڑاتی زمین کو سرسبز و شاداب بنا لیا لیکن ہمارے ہاں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت، پانی نہ ہونے کی وجہ سے زرعی شعبے کی تباہی، توانائی کے بد ترین بحران اور کالا باغ ڈیم سمیت بڑے ڈیموں کی تعمیر جیسے اہم معاملات ہمیشہ غیر اہم رہے۔ کالا باغ ڈیم سندھ طاس معاہدے کے تحت تربیلا سے بھی پہلے بننا تھا جب کہ عالمی بینک نے بھی پاکستانی حکام کو پہلے کالا باغ ڈیم بنانے کا کہا تھا مگر اس وقت کی حکومت نے یہ فیصلہ تبدیل کر کے تربیلا پہلے بنا دیا کہ کالا باغ ڈیم کی سائٹ تو ایسی آئیڈیل ہے کہ اسے تو کسی بھی وقت بنایا جا سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کا نام سن کر سندھ اور کے پی کے میں احتجاج شروع ہو جاتا ہے’’ اتفاق رائے کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا۔‘‘ پیپلز پارٹی دور میں صوبوں کو آئینی ضمانت دینے کی بات کی گئی تو صوبوں نے کہا کہ آئین کی اپنی ضمانت کون دے گا۔ ڈیم بنانے سے آخرکس نے روکا ہے، جن ڈیموں پر اختلاف نہیں وہ کیوں نہیں بن رہے۔ ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے اختلافات کو بھلا کر نئے آبی ذخائرکی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میںجس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے اس طرح ہمیں ہر دس برس میں تربیلا کے سائزکا ایک ڈیم چاہیے۔آبی پالیسیوں کے علاوہ ہمیں وفاق اور صوبائی واٹر کمشنر کی بھی ضرورت ہے تاکہ تمام سطحوں پر آبی وسائل کے موثر انتظام وانصرام کو یقینی بنایا جاسکے۔ علاوہ ازیں ہمیں اپنے کھیتوں، شہریوں اور صنعتوں میں پانی کے موثر استعمال کو بھی فروغ دینا ہوگا مگر سب سے پہلے ہمیں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے پچیس ملین ایکڑ فٹ پانی کو ضایع ہونے سے بچانے اور اس کو اسٹورکرنے کے لیے فوری اور جنگی بنیادوں پر دیامر بھاشا ڈیم کے ساتھ ساتھ ایک نیا بڑا آبی ذخیرہ بنانا ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل