Saturday, September 13, 2025
 

ڈیجیٹل لرننگ سے آگے

 



رواں صدی میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے پوری دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جس نے نہ صرف ہمارے روزمرہ کے کام کاج، چھوٹے بڑے کاروبار، لین دین اور یہاں تک کہ تعلیم کے پھیلاؤ اور حصول کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہر میدان میں انسانی دسترس وسیع تر ہوچکی ہیں۔ دنیا بازیچہ اطفال (Global Village ) بن کر رہ گئی ہے اور اب مرزا غالب کا یہ شعر صادق ہوتا نظر آتا ہے۔ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے یہ سوال شدت اختیارکر رہا ہے کہ رواں صدی میں تعلیم، ترقی کن بلندیوں کو چھو رہی ہوگی؟ ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے، یوں تو تعلیمی میدان میں ڈیجیٹل لرننگ کا آغاز ہوچکا تھا اور دنیا بھرکے تعلیمی ادارے اس سے مستفیض بھی ہو رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کووڈ 19 کے بعد دنیا کی ترقی یک لخت جامد ہونے کے بجائے، ایک نئے جدید رنگ میں ڈھل گئی۔ ٹیکنالوجی نے روایتی کلاس روم کو ورچوئل جگہوں میں بدل دیا ہے، جہاں تعلیمی مواد دنیا بھر میں نشرکیے جانے لگے۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تمام شعبہ ہائے تعلیم کا مواد مہیا کیا گیا۔ اس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی امتحانی پرچوں کی جانچ کی جانے لگی ہے۔ طلبا کی تدریس کے لیے بھی پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے۔ یوں ڈیجیٹل لرننگ اب اختیار نہیں بلکہ ضرورت بن گئی۔ اس نے جہاں تعلیمی تسلسل کو یقینی بنایا وہیں کئی سنگین مسائل نے بھی جنم لیا، مثلا ناہموار رسائی، انسانی تعلق کی کمی اور طلبہ میں بڑھتی بے دلی۔ مصنوعی ذہانت نے تعلیم کو نئی شکل دی ہے، ذاتی نوعیت کا مطالعہ ممکن بنایا اور اساتذہ کا بوجھ کم کیا، لیکن اس کے ساتھ ایک خطرہ بھی ہے، طلبہ اس پر زیادہ انحصار کرکے تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیت، خود اعتمادی اور مسائل کو حل کرنے جیسی بنیادی صلاحیتیں کھو رہے ہیں اور ڈیجیٹل مدد پر انحصار کر رہے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ مشین ہماری تعلیمی ضرورت کو پورا کر رہی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا طلبہ اب بھی سوال اٹھانے، نیا سوچنے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟تعلیم کا مرکز اب بھی انسانی رشتہ ہے۔ استاد صرف معلومات دینے والا نہیں بلکہ رہنما، حوصلہ دینے والا اور اخلاقی رہبر بھی ہے۔ کوئی بھی سافٹ ویئر جذباتی مدد یا فوری رہنمائی فراہم نہیں کرسکتا۔ آنے والے وقت میں تعلیم کو عملی اور تحقیقی منصوبوں پر مبنی ہونا ہوگا، جہاں طلبہ حقیقی مسائل حل کرنے،گروپ میں کام کرنے اورکمیونٹی سے جڑنے کی ترغیب دی جائے گی۔ صدی کے بڑے چیلنجز، ماحولیاتی تبدیلی، عدم مساوات اور ٹیکنالوجی میں اخلاقی مسائل، بین المضامینی سوچ کے بغیرحل نہیں ہوسکتے۔ طلبہ کو سائنس اور اخلاقیات، ٹیکنالوجی و فن، معیشت و ماحول کے درمیان تعلق سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی تیز رفتار دنیا میں مسلسل نئی مہارتیں سیکھنا ناگزیر ہوگا۔ تعلیمی ادارے اور دفاتر سبھی عمر بھر سیکھنے کے مراکز بن جائیں گے۔ طاقتور ڈیجیٹل اوزاروں کے بڑھتے اثرات اخلاقی ذمے داری کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔ طلبہ کو صرف AI کا استعمال نہیں بلکہ اس پر سماجی، فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات اٹھانا بھی سکھانا ہوگا۔ اسی کے ساتھ ذہنی صحت کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔ آن لائن تعلیم، مقابلے اور سوشل میڈیا نے طلبہ میں دباؤ اور ذہنی بیماریوں کو بڑھا دیا ہے۔ مستقبل کی تعلیم کو تعلیمی کامیابی کے ساتھ ساتھ جذباتی فلاح کو بھی برابر اہمیت دینی ہوگی۔جہاں ایک طرف مستقبل کے کلاس رومز میں AI اور Augmented Reality کا خواب دیکھا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف لاکھوں بچے آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ڈیجیٹل خلا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمیشہ ترقی کے مترادف نہیں۔ بائیسویں صدی کی تعلیم کو لازمی طور پر شمولیتی ہونا چاہیے، جہاں ہر بچے کو ٹیکنالوجی اور ماہر اساتذہ کی مساوی رسائی حاصل ہو۔ تعلیم کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ ایک وہ جو آرام اور خود کاری کی طرف جاتا ہے جہاں مشینیں انسانی محنت کو بدل دیں۔ جہاں طلبہ تعلیمی مواد کے علاوہ غیراخلاقی اور غیر فائدہ مند معلومات حاصل کر کے معاشرے کے لیے ناسور بن سکتے ہیں۔ دوسرا راستہ وہ ہے جو تعلیم کو انسانی، اخلاقی اور تخلیقی سرگرمی کے طور پر نئی ترغیب دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کو سیکھنے میں مددگار ہونا چاہیے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ مستقبل کے کلاس رومز تعاون، تجسس اور ہمدردی سے بھرپور ہونے چاہییں نہ کہ خاموش کمروں میں اسکرینوں سے اٹے ہوئے۔ آخرکار، ڈیجیٹل ایڈز چاہے جتنے بھی طاقتور ہوں، وہ استاد کی رہنمائی، طالب علم کی روح اورکلاس روم کے تقدس کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ایک استاد ہی طلبہ کو اخلاقیات اور تہذیب سے جوڑے رکھ سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل