Tuesday, September 30, 2025
 

معاشی غربت کا خاتمہ ریاست کا بڑا چیلنج

 



اگرچہ حکومت اور سرکاری ادارے معیشت کی بہتر تصویر پیش کرتے ہیں اور ان کے بقول پاکستان معاشی درستگی کی سمت بڑھ رہا ہے ۔اس وقت عالمی اور علاقائی سیاست اور سفارت کاری کی بنیاد پر یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر نئے معاشی امکانات اور مواقع کا پیدا ہونا اور پاکستان کی اہمیت کا بڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ ہم اگلے چند برسوں میں معاشی طورپر مضبوط و مستحکم ہو جائیں گے۔ یہ تجزیہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور عمومی طور پر حکمران طبقہ اسی نقطہ پر زور دیتا ہے کہ معاشی حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن معاشی ماہرین یا اداروں کے بقول پاکستان کی معاشی صورتحال کو دیکھیں تو اس میں وہ سب کچھ نہیں ہے جو حکمران طبقہ کا دعوی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران طبقات اور معاشی ماہرین اور عام آدمی کے نقطہ نظر میں تضاد ہے۔ معاشی ترقی کے دعوے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن جو معاشی سطح کے تلخ حقایق ہیں انھیں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے بہت سے اہم پہلوؤں اور سوالات کو اٹھایا ہے جو پورے حکومتی نظام کو جھنجھوڑتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی اس رپورٹ میں پاکستان کی افلاس کی سطح 25.03فیصد تک بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ چھ کروڑ افراد افلاس کے شکنجے میں ہیں۔ان کے بقول ترقی کے موجودہ ماڈل2018-24ء کے دوران افلاس کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔زراعت سکڑ رہی ہے اور تعمیرات میں اجرتیں کم،قرضوں اور خساروں میں اضافہ،سرمایہ کاری کا کمزورہونا،طاقت ور اشرافیہ کا پالیسیوں کو اپنے مفاد میں جوڑنا،اسی طرح لاکھوں نوجوانوں کا ملک چھوڑنا،مقامی حکومتوں میں ناقص ڈلیوری اور ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ تر نچلے طبقہ پر ڈالنا،سیاسی عدم استحکام کاروباری اعتماد کو تباہ کررہا ہے، یہ تمام امور معاشی اہداف اورترقی کے دعوؤں کے برعکس ہیں۔ورلڈ بینک کے بین الاقوامی پاورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں غربت45فیصد ہے۔ تاہم پاکستان کے سرکاری پیمانے کے مطابق یہ 25.03 فی صدہے۔ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ جو Reclaming Momentum Towards Prosparity: Pakistan's Poverty Equity and Resilience Assessment"جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی غربت میں کمی کی کبھی امید افزا نظر آنے والی بڑی پیش رفت اب رک گئی ہے اور پچھلے برسوں کی محنت ضایع ہورہی ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح صوبوں میں بہت مختلف ہے یعنی پنجاب 16.03فیصدشرح سب سے کم مگر بڑی آبادی کی وجہ سے پاکستان کے چالیس فیصد غریب اسی صوبہ میں ہیں۔ بلوچستان 42.7 فیصدسب سے زیادہ غربت مگر آبادی کم ہونے سے کل غریبوں کا صرف 12فیصد حصہ، سندھ 24.01فیصداور خیبرپختونخواہ 29.5 فیصد ہے جب کہ 2015-18کے دوران غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ورلڈ بینک کی سربراہ بولورماآمگا بازرکے بقول پاکستان کو اپنی پچھلی کامیابیوں کو بچانے اور غربت میں کمی کے لیے اصلاحات تیز کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور نوجوانوں اور عورتوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا شامل ہونا چاہیے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مڈل کلاس آبادی کے لیے صحت،صفائی، صاف پانی ،توانائی اور رہائش کی مناسب داموں پر دستیابی محدود ہو رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں چار کروڑ افراد کی ایک دن کی کمائی عملاً 900روپے سے کم ہوکر رہ گئی ہے اور اسی تناظر میں معاشرے میں موجود کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں اوراس وقت پاکستان کو بڑے پیمانے پر عوامی خدمت میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ ہماری داخلی معاشی صورتحال کا ادراک ہی نہیں پیش کررہی بلکہ ان وجوہات کو بھی پیش کیا گیا ہے جو ہماری اپنی داخلی معاشی بدحالی کی وجوہات کے زمرے میں آتی ہیں۔اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک میں آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کا ہے اور اس امر نے لوگوں کی زندگیوں میں معاشی عدم تحفظ پیدا کیا ہے۔ بالخصوص پاکستان کی اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس اس معاشی بحران سے بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔ سرکاری شعبہ کی بدحالی کے بعد نجی شعبہ لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہے اور اس نجی شعبے سے جڑی ریگولیٹری اتھارٹیاں عدم شفافیت کا شکار ہیں۔ سرمایہ کاری داخلی ہو یا خارجی متاثر ہورہی ہے اور گورننس کے موجودہ فرسودہ نظام سمیت بیوروکریسی کا عدم شفافیت پر موجود ڈھانچہ ہی معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مجموعی طور پر نظام طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے اور ایک مخصوص طبقہ کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں حکومتی پالیسیوں نے عام آدمی کو بہت زیادہ کمزور کردیا ہے۔نئے روزگار کو پیدا کرنا اپنی جگہ بلکہ پہلے سے موجود لوگوں کو روزگار سے محروم کیا جارہا ہے۔ہمارے معاشی ماہرین الفاظ کے گورکھ دھندوں کے ساتھ معاشی خوشحالی کے شادیانے بجا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔سیکیورٹی ،گڈ گورننس ،سیاسی عدم استحکام کے بحران نے عالمی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں اور خاص طور پر ہمارا انتظامی ڈھانچہ کاروبار کو فروغ دینے میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔  معاشی صورتحال کو بگاڑنے میں کوئی ایک فریق ذمے دار نہیں بلکہ ریاست، حکومت اور معیشت سے جڑے تمام فیصلہ ساز ہی اس صورتحال کے ذمے دار ہیں ۔جب معاشی پالیسیاں طاقت ور افراد یا گروہ کے کنٹرول میںہوگی اور یہ ہی طاقت ور افراد ہی حکومت کا حصہ ہونگے تو معاشی ترقی کے تضاد کا نمایاں ہونا فطری امر ہوگا۔اس ساری صورتحال میں سیاسی نظام اور پارلیمنٹ کی بے بسی بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور ہم روزانہ کی بنیاد پر بھاری قرضے حاصل کرکے معاشی پہیہ چلا کر مستقبل کو اور زیادہ خراب کرنے کے ذمے دار بن رہے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگوں کا حکومتی نظام پر اعتماد اٹھ رہا ہے۔اس کا نتیجہ ملک میں خاص طور پر نوجوانوں کی سطح پر سخت ردعمل کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ یہ نظام ہماری اپنی ضرورت سے زیادہ طاقت ور طبقات کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر چلایا جارہا ہے۔اس لیے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اور طاقت ور طبقات اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ معاشی  بدحالی لوگوں میں بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال کو پیدا کررہی ہے۔ ہمیں اس صورتحال کو فرسودہ خیالات اور روائتی طور طریقوں سے نمٹنے کے بجائے اس غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔یہ ذمے داری عالمی مالیاتی اداروں کی بھی بنتی ہے کہ وہ ہمارے جیسے ملکوں میں جو امداد یا ترقی کے منصوبے تشکیل دیتے ہیں ان کو بھی اس ملک میں آنے والی امداد اور منصوبوں کے نظام میں شفافیت کو موثر بنانا ہوگا تاکہ جو پیسہ عوامی ترقی اور کمزور طبقات کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں آتا ہے اس کی جوابدہی کو ممکن بنایا جاسکے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل