Tuesday, September 30, 2025
 

ہم قناعت سے کیوں محروم ہیں!

 



ہم قناعت کے وصف سے محروم ہیں اور ناشکرے بن چکے ہیں۔ یہ خیال کرکے بھی کہ ہم مظلومینِ غزہ کی طرح تاریخ کی بدترین درندگی کا شکار نہیں ہیںاور ملک میں سیلاب کی تباہیوں سے بھی محفوظ ہیں۔ ہم مالک کائنات کا شکر کیوں نہیں ادا کرتے۔ ہم اس قدر نا شکرے کیوں بن چکے ہیں؟ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق وہ نادار لوگ جو مادی وسائل سے محروم ہیں یا جن کے پاس دنیاوی نعمتیں کم ہیں، انھیں خالق ومالک نے اطمینانِ قلب کی دولت بڑی وافر عطا کی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امراء کے مقابلے میں نادار افراد کے پاس قناعت کی دولت زیادہ ہوتی ہے۔ اپنے گاؤں جب بھی جاتا ہوں تو وہاں اپنے ہاتھوں سے رزقِ حلال کمانے والے افراد سے، جو ہزار بارہ سو روپے دیہاڑی لیتے ہیں جب کہ مہینے میں چار پانچ روز ان کا ناغہ بھی ہوجاتا ہے یعنی مہینے کے بیس بائیس ہزار روپے کمانے والوں سے جب حال احوال پوچھتا ہوں تو ان کا جواب ہوتا ہے ’’اﷲ کا بڑا فضل ہے۔ شکر ہے رب کا‘‘ اور جب کسی کاروباری یا صنعتکار دوست سے ملاقات پر خیریّت دریافت کرتا ہوں تو وہ ہزار شکوے شکایتیں کرنے لگتا ہے جس میں کچھ حکومت سے ہوتی ہیں اور کچھ سسٹم سے اور کچھ ایف بی آر وغیرہ سے ہوتی ہیں۔ لگتا ہے بہت زیادہ دولت ملنے کے بعد اکثر لوگ قناعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ قناعت سے محرومی کا خیال مظلومینِ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت کے احوال سن کر زیادہ آنے لگا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ غزہ میں رہنے والے انسانوں کے ساتھ جس ظلم اور درندگی کا مظاہرہ پچھلے دو سالوں سے کیا جارہا ہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایسے دلدوز مناظر انسانی آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ ایک ننھی بچی، جس کی ماں، باپ اور چار بہن بھائی اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوگئے ہیں، روتی ہوئی ملبے میں سے ماں کو تلاش کر رہی ہے۔ ایک ماں اپنے پانچ بیٹوں کی میّتوں پر کھڑے ہوکر دنیا سے پوچھ رہی ہے۔’’ہم پر اتنا ظلم کیوں کیا جارہا ہے۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں؟‘‘ ایک پانچ چھ سالہ زخمی بچی اپنے دو سالہ زخمی بھائی کو اٹھا کر نا معلوم منزل کی طرف پیدل چلی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے بھائی کو آگ اور بارود سے بچاسکے۔ یورپ کی کوئی پارلیمنٹ ایسی نہیں ہے جہاں نسل، رنگ، مذہب اور علاقے سے بالاتر ہوکر، ارکانِ پارلیمنٹ نے غزہ کے ان مناظر کا ذکر نہ کیا ہو اور ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز نہ بھّرائی ہو اور آنکھیں نہ بھیگی ہوں۔ اب کئی مہینوں سے غزہ کے مظلوم ترین انسان بھوک اور بارود کا سامنا کررہے ہیں۔ کوئی چار روز سے بھوکا ہے تو کسی نے پانچ روز سے کچھ نہیں کھایا۔ والدین بچّوں کو تسلّی دینے کے لیے سمندر کا پانی دیگچی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیتے ہیں اور کئی دنوں کے بھوکے معصوم بچے چولہے پر چڑہی ہوئی دیگچی کو دیکھتے دیکھتے سوجاتے ہیں، یہ ایک روز کا عذاب نہیں، کئی مہینوں سے ایسے ہی چل رہا ہے، جو بے گناہ انسان ابھی تک موت کے منہ میں نہیں گئے وہ سوکھ کر کانٹا بن چکے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا نے بھوک کو بھی ہتھیار بنایا ہوا ہے۔ اسرائیلی ٹرک روٹیاں لاتا ہے جنھیں جاں بہ لب فلسطینیوں کے سامنے پھینک کر اسرائیلی فوجی تماشا دیکھتے ہیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا گن چلانے کا موڈ بن جائے تو وہ لائن میں لگے ہوئے مظولم فلسطینیوں پر فائرنگ کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے۔ انسانیت کی اتنی تذلیل کبھی دیکھی یا سنی نہیں گئی۔ مظلومینِ غزہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں، ہماری طرح وہ بھی کلمہ گو مسلمان ہیں، برستی ہوئی آگ اور بارود میں بھی اپنے رب کی بارگاہ میں جھکتے اور نماز ادا کرتے ہیں۔ ان کی جگہ ہم بھی تو ہو سکتے تھے، اگر ہم غزہ جیسے انسانیت سوز مظالم سے محفوظ ہیں تو اس پر اپنے خالق اور مالک کا شکر کیوں نہیں بجا لاتے۔ اہلِ غزہ ہر روز دعائیں کرتے ہیں اور منّتیں مانگتے ہیں کہ اس عذب سے بچ جائیں۔ اسرائیل کی بمباری رک جائے اور ہمیں ایک روٹی اور چند قطرے پانی کے میّسر آجائیں تو ہم ہر لحظہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔ وہ نعمتیں جو مظلومینِ غزہ کا خواب ہیں ہمیں ان سے کئی سو گنا زیادہ نعمتیں میّسر ہیں مگر ہمارا ہر لمحہ سجدۂ شکر میں کیوں نہیں گذرتا؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور اپنی ناشکری پر شرم آنی چاہیے۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل پر توبہ کرنی چاہیے اور اپنے چھوٹے موٹے مسائل بھول کر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حضور اظہارِ تشکّر کے لیے سر جھکا دیناچاہیے۔ حالیہ سیلاب سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کا بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ بونیر میں آن کی آن میں بیسیوں مکان، مکینوں سمیت سیلاب کی نذر ہوگئے۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کے تیس سے زیادہ قریب ترین عزیز بپھرے پانیوں میں غرق ہوگئے ہیں۔ کیا ایسے بدقسمت افراد کے دلوں پر لگے ہوئے گہرے گھاؤکبھی مندمل ہوسکتے ہیں؟ وسطی اور جنوبی پنجاب میں جانی نقصان کے علاوہ ہزاروں غریب لوگوں کا گھریلو سامان اور مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ بہت سے خوشحال گھرانے بھی ہر چیز سے محروم ہوکر کھلے آسمان تلے آگئے ہیں اور اب انھیں چاولوں کی ایک پلیٹ کے لیے لائن میں لگنا پڑرہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عذاب اور آزمائش سے محفوظ رکھا ہے تو ہمیں اظہارِ تشکّر کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ وہ شکرانے کے نوافل کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور سیلاب زدگان کی امداد کرکے بھی ہوسکتا ہے اور بیک وقت دونوں کام کرکے بھی ہوسکتا ہے۔ دراصل انسانوں کی مادّی خواہشات کی حدود ختم ہوچکی ہیں، لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کے جنون میں مبتلاء ہیں،جہاں حرص وہوس لامحدود اور خواہشات بے لگام ہو جائیں وہاں نہ قناعت کے لیے کوئی جگہ بچتی ہے اور نہ تشکّر کے لیے وقت ملتا ہے۔ ہمارے ماموں جان نے جو ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے، اپنے بیڈروم میں یہ شعر فریم کراکے لگا رکھا تھا ؎جو کچھ ملا ہوا ہے کروں گر اُسی کا شکر کچھ اور مانگنے کی نہ فرصت ملے مجھے واقعی جو نعمتیں میّسر ہیں، اگر انسان، دینے والے کا شکر ادا کرنے لگے تو اور کچھ مانگنا ہی بھول جائے۔ ہمارے والد صاحب مختلف طریقوں سے قناعت کی اہمیّت اور فضیلت ہمارے دل ودماغ میں اتارا کرتے تھے۔ ایک بار وہ ہم تینوں بھائیوں کو گاؤں کے ایک غریب مزدور کے کچّے گھر کے پاس لے گئے اور اس گھر سے بلند ہونے والے قہقہوں کی آوازیں سنواتے رہے اور ہمیں بتاتے رہے کہ اس مزدور کے گھر میں وہ آسائشیں اور نعمتیں نہیں ہیں جو تمہیں میّسر ہیں مگر دیکھو وہ اور اس کے گھر والے کتنے خوش ہیں۔ خوشی، مال ودولت سے نہیں اطمینانِ قلب سے ملتی ہے اور اطمینانِ قلب صرف اسے ملتا ہے جو قناعت کی دولت سے مالا مال ہو۔ ہم دنیاوی آسائشوں میں کمی کا رونا روتے رہتے ہیں اور ہر وقت شکوہ کناں رہتے ہیں مگر جو نعمتیں میّسر ہیں، ان کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اگر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرنے لگیں تو قلم ٹوٹ جائیں اور کاغذ کم پڑ جائیں، آپ کے جسمانی اعضاء سلامت ہیں تو آپ کتنے خوش قسمت ہیں۔ آنکھیں اور بینائی قدرت کا کتنا بڑا کرم ہے، اس کا احساس کسی اندھے کو دیکھ ہی ہوتا ہے، ہاتھ اور پاؤں موجود ہوں اور درست کام کررہے ہوں تو یہ کتنی بڑی نعمت ہے جس کا احساس ہمیں ٹانگوں سے محروم شخص کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو بھوک لگتی ہے، کھانا ہضم ہوجاتا ہے، نیند صحیح آتی ہے، بینائی اور گویائی درست ہے تو آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں۔ نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ’’نیکی اور تقویٰ میں اپنے سے بہتر اور برتر لوگوں کی طرف دیکھو مگر دنیاوی وسائل میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھا کرو‘‘ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم لوگ جو کسی دشمن کی درندگی سے بھی محفوظ ہیں اور سیلاب کے عذاب سے بھی بچے ہوئے ہیں، نہ صرف ہر روز شکرانے کے نوافل ادا کرتے بلکہ اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاتے، سادہ طرزِزندگی اختیار کرتے، ہمارے دلوں میں خالقِ کائنات کا خوف پیدا ہوتا اور سر تشکّر کے جذبے سے اس کی بارگاہ میں جھکے رہتے، اور پھر دل میں تہیّہ کرلیتے کہ آیندہ زندگی ہم غربت اور قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں کی مدد اور خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ مگر زمین پر صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے ہی معاشرے کے کچھ ایسے بدبخت بھی ہیں جو سیلاب زدگان کا گھریلو سامان اور مال مویشی چوری کرنے سے بھی باز نہیں آئے۔ یعنی ایک تباہ کن آفت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہمارے اندر خدا خوفی اور انسانی ہمدردی نہیں پیدا ہوسکی۔ ہم کیسے انسان ہیں؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل