Loading
سندھ حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اپنے ملازمین کی اپنی پنشن کے ذریعے ملنے والی مراعات کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یوں نیو لبرل ازم کے تحت اب سندھ حکومت اپنی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ سندھ حکومت کے 6 لاکھ ملازمین اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ صوبائی حکومت کے 16 اگست 2025کے نوٹیفکیشن کے مندرجات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت آپ کی اصل پنشن (Commuted Portion نکال کر) کو ''Baseline'' کہا جائے گا۔ سالانہ اضافہ اسی ''Baseline'' پر ہوگا، الاؤنسز پر نہیں۔ پچھلے اضافے اصل پنشن میں ضم نہیں ہوں گے، جس سے وقت کے ساتھ حقیقی آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ آخری تنخواہ کے بجائے ریٹائرمنٹ سے پہلے کے 24 مہینے کی اوسط تنخواہ پر پنشن کا حساب ہوگا اور اگر آخری دنوں میں ترقی یا اضافہ ہوا ہے تو اوسط میں اس کا اثرکم ہو سکتا ہے۔ نیز پہلے Commuted Portion پندرہ سال بعد بحال ہوتا تھا، مگر اس نوٹیفکیشن میں اس بارے میں وضاحت نہیں۔ یہ ایک ابہام اہم ہے اور حکومت سے وضاحت طلب کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صرف بیوہ / رنڈوا شوہر، معذور بچے اور بعض صورتوں میں والدین اہل ہوں گے، شادی شدہ خاتون ملازم شوہرکو اہل فہرست میں شامل نہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اہلیت ختم ہونے ( مثلاً بیوہ کی دوبارہ شادی یا معذور بچے کا صحت یاب ہونا) پر پنشن رک سکتی ہے اور ایک وقت میں دو فیملی پنشن نہیں مل سکے گی۔ ان مندرجات میں مزید درج ہے کہ ہر درخواست گزار کو تحریری سرٹیفکیٹ دینا ہوگا کہ وہ کسی اور حکومت سے پنشن یا گریجویٹی نہیں لے رہا۔ حکومت سندھ کے 31 جولائی 2025 کے نوٹیفکیشن کے مطابق اب سندھ حکومت میں ملازمت کرنے والے افراد ان مراعات سے محروم ہوجائیں گے جو روایتی طور پر سرکاری ملازمین کو حاصل ہوتی تھیں۔ سندھ کے ملازمین کی انجمنوں کے اتحاد سندھ ایمپلائز الائنس کے چیئرمین حاجی محمد اشرف خاصخیلی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے تقریباً 6 لاکھ خاندان متاثر ہوںگے۔ ایس ای اے کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں 63.5 فیصد الاؤنس پر براہِ راست کٹوتی کا ذکر نہیں ہے لیکن Baseline طریقہ مستقبل میں پنشن میں ہونے والے اضافہ کو کم کرسکتا ہے اور 24 ماہ کی اوسط کے حساب سے جب حتمی رقم کا تعین ہوگا تو پنشن کی رقم گھٹ سکتی ہے۔ کمیوٹیشن Commutationکی بحالی کے بارے میں ابہام ہے، یوں مستقبل میں کمیوٹیشن کے فارمولے میں کمی کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت سندھ نے مستقبل میں پنشن میں اضافے کو محدود کرنے کا اختیار حاصل کر لیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں دہری پنشن نہ ملنے سے بھی سرکاری ملازمین کا بڑا متاثر ہوگا۔ حکومت نے دہری پنشن کی یہ تعریف کی ہے کہ اگر میاں اور بیوی دونوں حکومت سندھ کے ملازم ہوںگے تو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی ایک ہی مکمل پنشن کا حقدار ہوگا۔ یہ فیصلہ آئین کے انسانی حقوق کے باب میں درج شقوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ پوری دنیا میں میاں اور بیوی ایک ادارے میں فرائض انجام دیتے ہیں تو انھیں تنخواہ اور تمام مراعات حاصل ہوتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں پنشن کے حقدار ہوتے ہیں۔ عجب سے بات ہوگی کہ میاں اور بیوی 30، 30 سال تک دن رات محنت کریں گے مگر بڑھاپے میں جب بیماریاں انھیں گھیر لیں گی، تو ان کے پاس رقم کم ہوگی اور ان کی زندگی مشکل سے گزرے گی۔ سندھ ایمپلائز الائنس کے چیئرمین محمد اشرف خاصخیلی حکومت کی اس پالیسی کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت نے کمیوٹیشن / گریجویٹی کے لیے مختص رقم 63.5 فیصد سے کم کر کے 15فیصد کردی ہے، یوں اس نئے فارمولے کے تحت ملازمین کی پنشن میں 47 فیصد خسارہ ہوگا۔ نئے بھرتی ہونے والے ملازمین پنشن سے محروم رہیں گے۔ وفاقی حکومت نے Disparity Reduciton Allowance کی شرح 70فیصد کردی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں الاؤنس 60 فیصد اور آزاد کشمیر میں بھی یہ الاؤنس 60 فیصد تک ہے مگر سندھ حکومت اس الاؤنس کے بارے میں خاموش ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک سماجی فلاحی ریاست کے قیام کا خواب دکھایا تھا۔ اپنے اس منشور کی بناء پر دائیں بازو کی مذہبی اور دیگر جماعتوں سے علیحدہ حیثیت رکھتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی اساسی دستاویز میں ملک کے ہر شعبے میں جامع اصلاحات نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے ہر شعبے میں اصلاحات نافذکیں۔ ریاست نے پہلی دفعہ ہر شہری کے تعلیم اور علاج کرانے کے حق کو تسلیم کیا۔ زرعی اصلاحات کی گئیں اور مزدور طبقے کی بہبود کے لیے نئی لیبر پالیسی نافذ کی گئی۔ سرکاری ملازمین کے لیے گریڈ1 سے ترقی کر کے گریڈ 22 تک پہنچنے کے لیے ایک راستے کا تعین کیا گیا۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کم ازکم گریڈ 17 دیا گیا۔ اسی طرح اسکول کے اساتذہ کے لیے گریڈ 22 تک ترقی کے لیے ایک واضح طریقہ کار واضح کیا گیا۔ ان اصلاحات نے ملک کی ترقی پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں نجکاری کی پالیسی اختیار کی گئی۔ قومی صنعتوں کو نجی شعبے کو فروخت کرنا شروع کیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ماہرین نے کہنا شروع کیا کہ پنشن ریاست پر بوجھ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن کو ختم کردے۔ پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ کی حکومتوں نے آئی ایم ایف کی پالیسی کو قبول نہ کیا مگر پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے نام پر تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹرانسپورٹ کے ذرایع پی آئی اے اور ریلوے کی نجکاری پر زرو دیا گیا ۔ ہر بجٹ کے موقع پر پنشن کو کم کرنے کی تجویز زیرِ غور آتی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے افسران کہتے ہیں کہ پنشن کی مد میں رکھی جانے والی رقم سے بجٹ کا خسارہ بڑھ رہا ہے جو خلافِ عقل بات ہے۔ سرکاری ملازمین کے دباؤ کی وجہ سے اس تجویز پر مکمل طور پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ استحصال کے خاتمے کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی پینشنرز کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کررہی ہے، اگر سندھ حکومت نے اس نوٹیفکیشن پر عمل کیا تو سرکاری ملازمتوں میں کشش ختم ہوجائے گی اور نئی نسل کا ٹیلنٹ نجی شعبے کا رخ کرے گا یا بیرونِ ملک ملازمتوں کے حصول پر توجہ دے گا یا پھر سرکاری ملازمین مجموعی طور پر ملازمت کے دوران ناجائز ذرایع سے آمدنی حاصل کرنے پر توجہ دیں گے۔ یہ صرف حکومتِ سندھ کے چھ لاکھ خاندانوں کے مستقبل کا سوال نہیں ہے بلکہ حکومت کے پورے انفرا اسٹرکچر کی مضبوطی کا سوال ہے۔ سندھ حکومت کے سرکاری ملازمین میں یونیورسٹی کے اساتذہ سے لے کر کلرک تک شامل ہیں جو اس پالیسی کے خلاف ہیں۔ سندھ حکومت غریبوں کی مراعات کم کر کے اپنی مقبولیت میں کمی کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ پنشن حق ہے رعایت نہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل