Tuesday, September 30, 2025
 

رب کا شکر ادا کر بھائی

 



بڑے بڑے تفصیلی با تصویر چار چار پانچ پانچ کالمی ’’بیانات‘‘ کے سائے میں، آپ نے یہ چھوٹی سی خبر نہیں پڑھی ہوگی کہ حکومت پاکستان پر اس وقت جو عمومی قرضے چڑھے ہیں، ان کی مالیت (80) کھرب روپے ہے۔اس کے ساتھ لگ بھگ اتنا ہی قرضہ آئی ایم ایف اور وغیرہ وغیرہ کا جمع کردیجیے۔پھر (78) سالوں کی وہ آمدنی جو انگریز ہمارے ملک سے لے جایا کرتے تھے، پھر اس کے ساتھ وہ رقم بھی جمع کردیجیے جو انگریزی حکومت کے بعد پلوں، سڑکوں اور شہروں پر ٹیکس کی صورت میں جمع کی جارہی ہے حالانکہ انگریزوں نے باوجود پرایا ہونے کے نہ کسی سڑک پر ٹیکس لگایا تھا، نہ پل پر، نہ ریلوے پٹٹری پر، نہ ڈیم پر ، نہ بجلی گھر پر۔ کم عقل کہیں کے، اسی لیے تو بھگائے گئے اور آج قدم قدم پر’’پلازے‘‘ ہیں۔ پلازے کا لفظ پیلس (محل) سے نکلا ہے اور ’’پیلس‘‘ کا لفظ اس’’پیلا سے جو سکندر کے باپ نے بنایا تھا اور جہاں دیوجانس کلبی نے ایک انتہائی گندی چیز پر تھوکا تھا،اتفاقاً یہ ایک وزیر کا چہرہ تھا۔خیر اگر ہر کوئی دیوجانس کلبی ہوجائے تو اخبار پڑھتے پڑھتے منہ میں تھوک بھی۔۔ سوری۔  ہم بھی کدھر پھسل گئے۔بات یہ چل رہی تھی کہ یہ اتنے قرضے، اتنے ٹیکس اور اتنے پیسے۔کہاں گئے؟کون کھاگیا یا کہاں جارہے ہیں اور کون کھارہا ہے ؟آخر اس تھالی میں کھیت اور اس گھڑے کا وہ’’چھید‘‘ کہاں ہے جس سے یہ سب کچھ نکل رہا ہے۔ ہمیں تو کچھ ایسا لگنے لگا ہے جیسے اس ملک کو’’ بلڈکینسر‘‘ کی طرز پر روپے یا پیسے کا کینسر ہوگیا ہو۔ ہمارے ایک عزیز کو بلڈکینسر ہوگیا تھا ،کافی رشتہ دار بھی تھے جو خون دے رہے تھے، اس کا باپ خاصا امیر بھی تھا ، اس لیے خرید کر بھی خون چڑھایا جاتا تھا لیکن آکر کار یہ ساری تدبیریں ناکام ہوئیں اور بیچارا چل بسا۔اس کا باپ کہہ رہا تھا کہ میں حیران ہوں کہ اتنا سارا خون گیا کہاں؟ ہم خون چڑھا دیتے تو چوبیس گھنٹے کے بعد وہ خون نجانے کہاں چلا جاتا کہ پھر چڑھانا پڑتا ہے۔اس میں ایک الگ اور خاص بات جو صرف پاکستان میں ممکن ہوسکتی ہے کہ خون تو ہم مہیا کرتے تھے لیکن اسپتال والے خون ’’چڑھانے‘‘ کے بھی تین ہزار روپے چارج کرتے تھے اور یہ واقعہ اسلام آباد کے ایک اسپتال کا تھا اور بتانا یہ ہے کہ بلڈکینسر کا مریض صرف بیرونی خون پر زندہ رہتا ہے۔ لیکن بیرونی خون آخر کب تک چلتا ہے ، وہ بھی ایسی صورت میں جب جسمخون کو پٹرول کی طرح جلا رہا ہو۔ اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ اسپین کے جنرل فرانکو کا ہے۔ وہ اسپین کا ڈکٹیٹر تھا چنانچہ جب اسے بلڈکینسر ہوگیا تو شاہی لشکر سے خون لینا شروع کیا گیا یہاں تک کہ آخر میں خون کا خرچہ چھ چھ بوتل روزانہ ہوگیا تھا لیکن پھر بھی وہ نہیں بچ سکا۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو، یہ خون کا کینسر جان لیوا ہوتا ہے اور اب ایک چھوٹی سی خبر۔ خیبر یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔سبحان اﷲ ماشااﷲ۔اور پھر استغفر اﷲ۔ وجہ شاید یہ ہے کہ اس مرتبہ بیرون ملک سے کچھ زیادہ امداد موصول نہیں ہوئی اور بیچارے تقسیم کرنے والے باوجود اتنی دعاوں کے ’’سوکھے منہ‘‘ رہ گئے ہیں۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ کس کس چیز پر کتنا کتنا ٹیکس لگے گا لیکن اس کی کوئی چنتا بھی نہیں ہے کیونکہ پاکستانی ادارے اس معاملے میں اچھے خاصے تجربہ کار اور ماہر ہوچکے ہیں۔ کسی پر یا کہیں پر بھی ٹیکس لگاسکتے ہیں مثلاً اکثر سڑکوں پر ، پلوں پر، ٹرانسپورٹ والے تو ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن پیدل چلنے والے مفت میں موج کرتے پھرتے ہیں، سائیکل والے بھی کچھ ادا نہیں کرتے، گدھا گاڑیوں والوں کو تو سب سے پہلے پکڑنا ضروری ہے کیونکہ کمرشل سواری ہے۔ ارے ہاں یہ جو سرکاری دفاتر میں لوگ آتے جاتے ہیں، گیٹ پر ان کی تلاشی اور جانچ پڑتال تو ہوتی ہے لیکن ’’ان‘‘ اور آوٹ مفت میں کرتے ہیں، اگر دس روپے ان آوٹ ٹیکس بھی لگایا جائے تو سیلاب زدگان بحال ہوں یا نہ ہوں ، سرکاری عمال تو’’بحال‘‘ ہوہی جائیں گے۔اس کے علاوہ دریاوں کی لہریں ہیں، ہوا ہے ،سورج ہے۔اور بہت کچھ ہے۔آخر یہ اتنے کروڑوں کالانعام خدا نے دیے کس لیے ہیں رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری’’گائے‘‘ بنائی

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل