Loading
دنیا کی سیاست میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ کہیں نئے اتحاد تشکیل پاتے ہیں،کہیں پرانے تعلقات ٹوٹتے ہیں اورکہیں ایک معاہدہ آیندہ نسلوں کے مقدرکو بدل دیتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ بھی انھی واقعات میں سے ایک ہے۔ بظاہر یہ محض ایک معاہدہ ہے جیسا کہ دنیا بھر کے ممالک کرتے رہتے ہیں، مقصد بتایا گیا کہ دونوں ممالک اپنی سلامتی کو مزید بہتر بنائیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی میدان میں تعاون کریں گے لیکن دنیا کی سیاست اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ ایک کاغذ پر لکھے چند جملے آنے والے دنوں میں تاریخ کے دھارے کو بدل دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کل کو بھارت پاکستان پر کوئی جارحیت کرتا ہے تو کیا سعودی عرب اس معاہدے کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اگر وہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی ممکنہ جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک اور طاقتور ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان بھی درجنوں معاہدے موجود ہیں۔ سعودی عرب وہاں سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری لے رہا ہے اور بھارتی افرادی قوت سعودی معیشت کا اہم سہارا ہے۔ کیا سعودی عرب ان سب کو پسِ پشت ڈال دے گا اور صرف پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ یا پھر اس معاہدے کی نوعیت محض کاغذی ہوگی جس کی حقیقت کسی بڑے تنازعے میں آشکار ہوگی؟ اسی طرح ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر اسرائیل کل کو سعودی عرب پر حملہ کرتا ہے تو کیا یہ پاکستان پر حملہ شمار ہوگا؟ اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان اس تنازعے میں براہِ راست شامل ہو جائے گا۔ یوں پاکستان ایک ایسی جنگ میں کھینچ لیا جائے گا جس کے نہ تو اس کے مقاصد ہیں اور نہ اس کے عوام نے کبھی اس کی خواہش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے عوام تیار ہیں کہ وہ ایک ایسے تنازعے کا حصہ بنیں جس کا تعلق ان کی سرزمین سے نہیں بلکہ ایک اور خطے کے مسائل سے ہے؟ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب قومیں دوسروں کی جنگوں میں الجھتی ہیں تو وہ اپنی زمین اور اپنے عوام کے مسائل کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں اور پھر ان جنگوں کی آگ صدیوں تک بجھتی نہیں۔ ہر ملک کو اپنی سلامتی کے تقاضوں کے تحت فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ ایسے فیصلے کہاں تک جا سکتے ہیں اور ان کے اثرات کتنے دور تک پھیل سکتے ہیں، اگر ایک معاہدہ کسی جنگ کو روکنے کے بجائے اسے بڑھانے کا باعث بن جائے تو اس کا خمیازہ صرف دو ممالک ہی نہیں بلکہ پورا خطہ بھگتتا ہے۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی تنازعات کی آگ میں جل رہا ہے، ایسے میں اگر ایک اور جنگی محاذ کھل گیا تو یہ خطہ مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ انسانی تاریخ اس حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب قومیں طاقت کے نشے میں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتی ہیں تو وہ محض زمینیں ہی نہیں روندتیں بلکہ لوگوں کی زندگیاں ان کے خواب اور ان کا مستقبل بھی تباہ کر ڈالتی ہیں۔ آج بھی یہی خطرہ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ دور کے باسی کہتے ہیں مگر ہمارے فیصلے ویسے ہی ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ ہی مسائل کا حل ہے حالانکہ ہر جنگ نے صرف نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ یہ المیہ بھی کم نہیں کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں۔ پینے کا پانی کمیاب ہے،لاکھوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، کروڑوں لوگ بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں، مگر اس کے باوجود ہتھیار بنانے کے لیے بجٹ لامحدود ہے۔ جدید ترین جنگی جہاز، تباہ کن میزائل، ایٹمی اسلحہ ان سب پر اربوں کھربوں خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن تعلیم، صحت اور انسانی بہبود کے لیے فنڈز ہمیشہ ناکافی رہتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے انسانیت کو بار بار لہولہان کیا ہے اور اب پھر وہی خطرہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا کو امن و سلامتی کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، اگر یہ معاہدہ کسی نئے تصادم کی راہ ہموارکرتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی خطرہ ہے اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرحدوں کی حفاظت بندوقوں اور ٹینکوں سے نہیں ہوتی بلکہ انصاف، مساوات اور باہمی احترام سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے عوام کو انصاف اور سہولتیں فراہم کرتا ہے، اس کی سرحدیں خود بخود محفوظ ہو جاتی ہیں لیکن ایک ایسا ملک جو اپنی دولت صرف ہتھیاروں پر خرچ کرتا ہے اور اپنے عوام کی بھوک، غربت اور جہالت کو نظرانداز کرتا ہے وہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کب سیکھیں گے؟ کب یہ فیصلہ کریں گے کہ جنگوں کی راہ پر چلنے کے بجائے امن اور تعاون کے راستے کو اپنائیں؟ کب ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ اصل طاقت توپ اور بندوق میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ ہم اپنے عوام کو بہتر زندگی دے سکیں، انھیں تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کر سکیں؟ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو ہر نیا معاہدہ ہمیں امن کے قریب نہیں بلکہ جنگ کے دہانے پر لے جائے گا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب پاکستان اور سعودی عرب کے رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا یہ معاہدہ آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑے گا۔ کیا یہ انھیں امن کا پیغام دے گا یا جنگ کا خوف؟ کیا یہ انھیں باہمی تعاون اور ترقی کی طرف لے جائے گا یا ایک ایسے راستے پر دھکیل دے گا جہاں صرف خون اور بارود ہے؟ تاریخ کے اوراق انھی سوالوں کے جوابات سے بھرے پڑے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان سے سبق سیکھیں یا پھر ایک بار پھر وہی غلطی دہرا دیں جو صدیوں سے انسانیت کرتی آئی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل