Friday, September 05, 2025
 

عصرِ حاضر اور سیرتِ نبوی ﷺ

 



آج کا دور ترقی یافتہ کہلاتا ہے، ہر گوشۂ زندگی میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، جدید اِکتشافات کے سامنے عقل و خرد محوِ حیرت ہے، آج دنیا کی دوری ختم ہوچکی ہے، ذرائع ابلاغ اور وسائلِ نقل و حمل نے ترقی کرکے سالوں اور مہینوں کے کام دِنوں، گھنٹوں اور منٹوں میں ممکن کردیے ہیں، ماضی کے مقابلے میں آج مال و دولت کی بھی کمی نہیں رہی، حقیقت میں آج زمین سونا اگل رہی ہے، سمندروں نے اپنی تہوں سے ہیرے، موتی اور جواہر ساحلوں پر لاکر رکھ دیے ہیں۔ لیکن! ہر قسم کے اسباب و وسائل کی فراہمی کے باوجود ایک دائمی بے اطمینانی کا راج ہے۔ بے سکونی کا تسلط ہے۔ ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے۔ فسادات اور قتل و غارت گری عام، جب کہ امن و آشتی اور سکون و عافیت مفقود ہے۔ خود غرضی عام ہے، اخلاق و پاک دامنی کا فقدان ہے۔ شرافت و امانت جنسِ کم یاب بنتی جارہی ہے۔ زِنا اور شراب نوشی، سود اور قمار بازی، جوا اور سٹہ بازی کی نت نئی شکلیں اختیار کی جا رہی ہیں۔ دین و مذہب کے نام پر فتنوں کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے، ہر طبقۂ فکر کے افراد کے درمیان اختلافات ہیں۔ بین الاقوامی اختلاف، فرقہ وارانہ اختلاف، سیاسی اختلاف، خاندانوں کا باہمی اختلاف غرض یہ کہ ہر طرف اختلاف ہی اختلاف ہے اور ہر آدمی دوسرے سے مختلف و منحرف نظر آتا ہے۔ دورِ حاضر دورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے، بل کہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن خرابیوں کو دور کرنے اور اِن پر قابو پانے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں۔ انسانی شہ دماغوں کی آسمانی ہدایات کے خلاف نت نئی تجاویز تعمیر کے بہ جائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، کوئی کوشش کام یاب ہوتی نظر نہیں آتی، بل کہ منزل دن بہ دن دور ہوتی چلی جارہی ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اْس نسخۂ شفا قرآن حکیم سے اعراض، جس نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی انسانیت کو صلاح و فلاح اور عظمت و بلندی کی معراج پر پہنچادیا تھا۔ جس نے عرب کے بدوؤں کو اندازِ جہاں بانی و جہاں گیری سکھلا دیے تھے۔ جس نے ان لوگوں کو جن پر حکومت کرنا بھی کسی کو منظور نہ تھا، سارے عالم کے تخت و تاج کا مالک بنادیا تھا۔ جس طرح جاہلیتِ قدیمہ میں یہ نسخۂ شفاء کارگر تھا، اسی طرح موجودہ جاہلیتِ جدیدہ میں بھی یہی نسخہ کارآمد ہے بل کہ واحد علاج، اس لیے ضرورت ہے ان تدبیروں کو جاننے، سمجھنے اور اس نسخۂ کیمیا کو اپنانے کی، جو نبی اْمّی ختم الرسل دانائے سبل رحمۃ للعالمین ﷺ نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ پر لانے، بل کہ اوروں کا راہ بر بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے جہالت و سفاہت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں پھنسی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کر دیا تھا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا تھا۔ خاتم النبیین ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں تمام مسائل کا حل اور تمام مشکلات کا مداوا ہونا، صرف ہمارا یا صرف مسلمانانِ عالم کا دعویٰ نہیں، بل کہ ہر دور کے منصف مزاج غیر مسلم بھی اس کا واضح لفظوں میں اعتراف کرچکے ہیں۔ تفصیل ضخیم کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہ ہر حال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر آج ہم نبی کریم ﷺ کی پُرنور تعلیمات کے روشن چراغوں کو اپنی زندگی میں جگہ دیں گے تو اُجالا ہوگا۔ اندھیرا چھٹے گا، ظلم مِٹے گا، تنگی، کشادگی میں تبدیل ہوگی، زندگی پرکیف بنے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ رحمت عالم ﷺ کی رسالت عالم گیر ہے، آپ ﷺ پوری دنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے۔ آپ ﷺ ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دنیا راہ پر آسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل اور جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا نسخہ کیمیا آپ ﷺ کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے۔ ذیل میں دورِ حاضر کے بڑے مسائل اور سیرتِ طیّبہ کی روشنی میں ان کا حل پیش کیا جارہا ہے:  اتحاد و اتفاق کا قیام قرآن مجید اور اس کی تفسیر حدیثِ رسول ﷺ میں اﷲ نے اپنے قوانین بیان فرمائے ہیں۔ ان قوانین میں ہر ایک کی مصلحت کی رعایت اور اِس پر چلنے والوں کے لیے دنیا و عقبیٰ میں سکون و راحت کی بشارت ہے۔ اِسی کے ذریعے دنیا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے، اتحاد و اتفاق کے شگوفے پھوٹ سکتے ہیں، خوش حالی و استحکام کی بہاریں آسکتی ہیں۔ یہ محض دعویٰ نہیں بل کہ جس دور میں بھی اِس قانون کو نافذ کیا گیا، دنیا نے اِس کے ثمرات کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا۔ آج بھی ضرورت ہے اِسی نسخۂ کیمیا کی طرف آنے اور اسے اپنانے کی۔ دنیا پیاسی ہے دعوتِ توحید، دعوتِ رسالت ﷺ، دعوتِ قرآن و سنت اور اور دعوتِ ایمان کی۔ قومی و نسلی اختلافات کا خاتمہ پہلے کی طرح آج بھی لوگ قومی تفاخر اور نسلی اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔ کالے گوروں کا اختلاف، علاقے کا اختلاف، ملکی اور غیرملکی امتیاز، اِن تمام اختلافات و امتیازات کی وجہ سے جو پریشانی پہلے تھی اِس سے کہیں زیادہ آج ہے۔ پہلے تو دنیا کی قومیں الگ تھیں، لیکن آج جب کہ ذرایع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے ہر دوری نزدیکی میں بدل چکی ہے اور پوری دنیا ایک خاندان اور گھر کی طرح (Global Village) بن گئی ہے، قومی تفاخر، نسلی اختلافات و امتیازات کو ختم کر کے ہی سکون کا سانس لیا جاسکتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ اِس طرح کے تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے، یہی وجہ ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے ان تمام امتیازات کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرما کر قیامت تک آنے والی انسانیت کو یہ سبق دیا، مفہوم: ’’تم سب ایک خالق کی مخلوق اور ایک معبود کی عبادت کرنے والے ہو، اِس لیے اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو اور تمہارے باپ (آدم علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی) غیر مسلموں سے معاہدے اور اس کے تبلیغ ِدین پر اثرات رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اوس اور خزرج اور یہود و نصاری سے معاہدات کیے، آپسی تعاون و تناصر اور رواداری کی دستاویزات مرتب کیں، پھر اپنی تحریکِ دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا۔ جس کا نتیجا یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ مقامی لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے اور چند ہی برسوں میں سارا عرب کلمۂ توحید کا قائل ہوگیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ غیر مسلموں سے معاہدے کرنا درست اور جائز ہے کیوں کہ دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول سازگار کرنا ضروری ہے۔ اِسی کے ساتھ احکامِ الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہنا رسول اﷲ ﷺ کی سنت ہے، اِسی طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتا ہے۔ آج کا دور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دور ہے۔ عام لوگوں میں معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اِسلام کا صحیح تعارف کرایا جائے اور اِس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال کیے جائیں تو پھر یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے۔ آج دنیا بے راہ روی، ظلم و ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی ہے۔ اِس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی، امن و آشتی کی، اطمینان اور سکون کی، اِسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے۔  جرائم کے خاتمے کا واحد ذریعہ اسلامی حدود و تعزیرات کا نفاذ آج دنیا کا ہر ملک جرائم کی آماج گاہ بن چکا ہے، جس ملک کو دیکھیے سخت ترین قوانین ہونے کے باوجود، جرائم ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ روز بہ روز فسادات ہو رہے ہیں۔ قتل ایک آسان کام بن گیا ہے۔ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ زنا اور شراب نوشی عام ہے۔ ایک دوسرے پر تہمت لگانا کوئی بڑی بات نہیں، گلی محلے سے لے کر مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کے بحث و مکالمے اور مذاکرے تک اور کچہری سے لے کر سیاسی ایوانوں تک الزام تراشی و اتہام بازی کا چلن عام ہے۔ رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی کام ہوجائے تو حیرت ہونے لگتی ہے۔ سود خوری کو معیشت کا جزوِ لازم بنالیا گیا ہے اور یہ برائی، جو اﷲ اور اس کے آخری رسول کریم ﷺ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے، دنیا کی ضرورت میں داخل ہوگئی ہے۔ آئے دن اغواء، زیادتی و آبروریزی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ غرض گناہ و سرکشی اور عدوان و معاصی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہر طرف نظر آرہا ہے۔ ان سب جرائم کا علاج اسلامی احکام کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔  اخلاقِ نبوی ﷺ کی تعلیم عام کرنے کی ضرورت موجودہ دور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔ جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر و غرور، ریا و دکھلاوا، غداری و دھوکا دہی، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں عام ہیں۔ عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں، بل کہ خواص میں بھی اخلاقیات کا انحطاط پایا جاتا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بُری خصلت کی برائی و شناعت اور اس کے دنیوی و اخروی نقصانات کو معقول انداز میں بیان کیا جائے، تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو، اس کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ کے اخلاقِ کریمہ کو بیان کیا جائے اور ان کو اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔ اس کے لیے ضرورت ہے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے اور اس کی تفسیر کو عام کرنے کی، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی اہتمام ہو، غیروں کے بہ جائے اپنی خرابیوں پر غور کیا جائے اور اصلاح کی کوشش کی جائے، نیز تذکیر و موعظت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کیا جائے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ خاتم النبیین ﷺ کی اصل بعثت کا مقصد دنیا کو اعتدال پر لانا تھا، اِس کے لیے آپ ﷺ کی دعوت میں درج ذیل امور کا اہتمام تھا: غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح، اﷲ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کو رُوشناس کرانا، اﷲ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کرنا، ہر ایک کے حقوق و فرائض کو واضح کرنا، کم زور طبقات مثال کے طور پر عورتوں، بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرما کر ان کی ادائی کی تلقین، معاشرے میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت، احکامِ الہی کی تعمیل کی تلقین کا مزاج بنانا، آیات و احادیث کی تعلیم کے ساتھ ان پر عمل کرنے اور خود احتسابی کی تعلیم، آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد کرنے اور ان کے مذاکرے کا ماحول، اخلاقِ رذیلہ کی خرابیوں کو بیان کرکے ان سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار کرنے کی تلقین، ایسا ماحول بنانا کہ ہر شخص دعوت، اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمے داری سمجھنے لگے۔ حیف! ہماری عملی زندگی سیرت رسول کریم ﷺ سے بہت دُور ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کا برحق رسول تسلیم کیا جائے، آپ کی تعلیمات کو پاکیزہ تعلیمات مانا جائے، یہ صرف اعتقادی وابستگی ہے۔ الحمدﷲ! ہر مسلمان سیرت سے اعتقادی وابستگی رکھتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں، بل کہ سیرت سے عملی وابستگی مطلوب ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت اور آپ ﷺ کے طور طریق کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس حوالے سے مسلم امہ کافی کوتاہی کا شکار ہے۔ مسلمان نماز کی حالت میں تو سیرتِ رسول ﷺ کے پابند ہوتے ہیں، لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں وہ خود کو سیرتؐ سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ایک مسلمان نماز ویسے ہی ادا کرتا ہے جیسے رسول اکرم ﷺ نے ادا کی تھی، لیکن اس کی تجارت اور معاشرت ویسی نہیں ہوتی جیسی رسول اکرم ﷺ کی تھی، اتباعِ سنت ﷺ اور اسوۂ حسنہ کو امت مسلمہ میں عام کرنے کے لیے باقاعدہ مہم چلانا ہوگی۔ اﷲ تعالی ہماری راہ کو آسان فرمائے، ہمیں ہمت، حوصلہ، عزم اور یقین عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگی کو احکام الہی اور اسوۂ رسول کریم ﷺ کے مطابق بسر کرکے دنیا اور آخرت میں سرخ رُو اور سربلند ہوسکیں۔ آمین

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل